بی بی سی کی تحقیق کے مطابق بچیوں کے قتل کے بعد ’چینل تھری ناؤ‘ نامی ایک ویب سائٹ نے ایک خبر میں دعویٰ کیا تھا کہ 17 سالہ حملہ آور ایک مسلمان پناہ گزین تھا جو ایک سال قبل غیرقانونی طریقے سے کشتی کے ذریعے برطانیہ پہنچا تھا۔یہ خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی اوراس کے بعد برطانیہ میں انتہاپسندوں کی جانب سے ہنگاموں اور پرتشدد فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور ملک میں اقلیتیں، خاص طور پر مسلمان برادری، خوف اور بے چینی کا شکار ہوئی تھی۔ان فسادات پرقابو پانے میں برطانوی پولیس کو کئی دن لگے اور اس دوران سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا گیا۔ برطانیہ میں ان فسادات کے ذمہ داران کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی ہے۔لاہور کے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش ملزم فرحان آصف نے اعتراف کیا کہ وہ مذکورہ ویب سائٹ کے لیے کام کرتے ہیں اور انھوں نے جھوٹی خبر پھیلا کر برطانیہ میں ہونے والے فسادات کو ہوا دی۔
فرحان آصف کے خلاف درج آیف آئی آر میں کیا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایف آئی اے کا کہنا ہے کہ انھیں فرحان آصف کی گرفتاری کے لیے برطانوی حکام سے کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی اور ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی شناخت سوشل پیٹرولنگ کے دوران کی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ’چینل تھری ناؤ‘ نامی اکاؤنٹ سے انگلینڈ میں چاقو زنی کے واقعے کی تصاویر شئیر کیں اور چینل تھری ناؤ ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر ایک گمراہ کن آرٹیکل بھی پوسٹ کیا جس میں ایک 17 سالہ علی الشکاتی نامی نوجوان کو چاقوزنی واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ایف آئی آر کے مطابق ملزم فرحان نے اس مضمون میں جھوٹا دعویٰ کیا کہ گرفتار ہونے والا شخص مسلمان ہے اور چینل تھری ناؤ ڈاٹ کام نامی ویب سائٹ پر لکھے گئے مضمون میں حملہ آور کو برطانیہ میں پناہ گزین بھی بتایا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر ان جھوٹے دعووں کی وجہ سے برطانیہ میں پرتشدد فسادات پھوٹ پڑے۔ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم فرحان آصف نے غیر ملکی چینل کو غلط معلومات دینے کا بھی اعتراف کیا۔تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ملزم نے اس عمل کی ذمہ داری دیگر لوگوں پر عائد کرنے کی کوشش بھی کی لیکن دوران تفتیش تصدیق ہوئی کہ معلومات دینے والا ’ایکس‘ اکاؤنٹ ملزم کا ہی ہے۔ڈی آئی جی آرگنائزڈ کرائم عمران کشور نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزم فرحان آصف ایک فری لانسر ہے جو آن لائن کام کرتا ہے۔ان کے مطابق ملزم نے برطانیہ کے ایک نجی ٹی وی چینل آئی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جعلی خبر شیئر کرنے والے ملازمین کو نکال دیا گیا ہے جبکہ اس بیان میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔عمران کشور کے مطابق ’ملزم اکیلا ہی خبر لکھتا تھا اور اس کے ساتھ کوئی اور ملوث نہیں تھا۔‘تاہم برطانیہ کے نجی نیوز ادارے آئی ٹی وی نے رواں ماہ ایک خبر شائع کی تھی جس میں ادارے کے گوبل سکیورٹی ایڈیٹر روہت کچورو نے دعویٰ کیا تھا کہ فرحان آصف کو لاہور میں تلاش کر کے ان سے چینل تھری ناؤ نامی ویب سائٹ پر غلط خبر دینے اور برطانیہ میں فسادات کو ہوا دینے سے متعلق بات کی گئی ہے۔اس وقت آئی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے فرحان آصف نے ان الزامات کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ’میں نہیں جانتا کہ کیسے ایک مضمون یا ایک عام ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بڑے پیمانے پر ابہام پھیل سکتا ہے۔‘آئی ٹی وی کی خبر کے مطابق فرحان آصف سے دو مرتبہ گفتگو کے دوران انھوں نے متعدد مرتبہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک فری لانسر ہیں اور ان کا اس خبر یا مضمون سے کچھ لینا دینا نہیں اور وہ امریکہ میں جرائم کے بارے میں لکھتے ہیں۔ساوتھ پورٹ واقعے سے متعلق غلط خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے فرحان آصف نے آئی ٹی وی کو بتایا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ یہ خبر ایک روز قبل یا اس سے بھی پہلے ویب سائٹ سے ہٹا دی گئی تھی اور اس کی جگہ معذرت نامے کے ساتھ مکمل خبر کو شائع کیا گیا تھا۔‘’جس میں کہا گیا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ ہماری ٹیم کی غلطی ہے اور ان افراد کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ چار لوگوں کو نکالا گیا تھا، ویب سائٹ کی انفارمیشن سرچ کے تین چار لوگ جو اس پر کام کر رہے تھے ان سب کو نکال دیا گیا۔‘
ملزم نے ایف آئی اے کو کیا بتایا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.