’فیس بُک ریپسٹ‘: وہ شاطر مجرم جو اپنی موت کا ڈرامہ رچا کر جیل سے فرار ہوا
- مصنف, پمزا فہلانی
- عہدہ, بی بی سی نیوز، جوہانسبرگ
ایک گرل فرینڈ جو مشہور ہو اور جیل سے موت کا ڈرامہ رچا کر سرحدوں کے پار فرار ہو جانا، یہ تمام باتیں کسی افسانوی کہانی کا حصہ لگتی ہیں۔
لیکن یہ تفصیلات ایک جنوبی افریقی شخص کی ہیں جس پر ریپ اور قتل جیسے سنگین الزامات ہیں۔
تھیبو بیسٹر کے جیل سے فرار کے بعد ایک سال تک حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کہانی چند لوگوں کو شاید اچھی لگے لیکن ان کی کارروائیوں کا نشانہ بننے والے اسے ایک مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔
یہ کہانی حکام کی نااہلی کا بھی پول کھولتی ہے۔ تھیبو بیسٹر نے جن خواتین کو نشانہ بنایا ان میں سے ایک نے بی بی سی سے اس شرط پر بات کی کہ ان کا نام ظاہر نہیں کیا جائے گا۔
بیسٹر کو ’فیس بک ریپسٹ‘ کے نام سے جانا جاتا تھا کیوںکہ وہ فیس بُک کے ذریعے جرائم کرتے تھے۔ فیس بُک پر وہ ایک ایسا شخص ہونے کا دعوی کرتے تھے جو اس خاتون کو ٹی وی پر نوکری دلا سکتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میری دعا ہے کہ وہ جیل میں رہے اور کسی اور کو نقصان نہ پہنچا سکے۔‘
ان کے لیے تھیبو بیسٹر کا فرار کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ وہ کہتی ہیں ’اس کی خبریں پڑھ کر بہت سے پریشان کن یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔‘
تھیبو بیسٹر کو اس خاتون کے ریپ کے الزام میں سزا نہیں ہوئی لیکن 2011 میں ان پر دو خواتین کو ریپ کرنے کے الزامات ثابت ہوئے۔ ایک سال بعد ان کو اپنی ماڈل گرل فرینڈ کا ریپ اور قتل کرنے پر عمرقید کی سزا ہوئی۔
تھیبو کئی ناموں سے جانے جاتے تھے اور ان کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ جو چاہتے تھے، حاصل کر لیتے تھے۔ لیکن اس شخصیت کے پیچھے ایک شاطر اور خطرناک مجرمانہ ذہن تھا۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر جیرارڈ کی تھیبو سے پہلی ملاقات 2011 میں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’وہ ایک ایسا شخص ہے جسے کسی بات پر ملال نہیں اور وہ وقت کے ساتھ بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتا گیا۔‘
ڈاکٹر جیرارڈ نے تھیبو کا انٹرویو کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ 12 سال قبل بھی وہ کافی شاطر تھا اور کبھی اپنے جرم کی مکمل ذمہ داری قبول نہیں کرتا تھا۔
سزا کے بعد جنوبی افریقہ میں لوگ اسے بھول گئے تھے۔ لیکن پھر خبر آئی کہ نوکری کا جھانسہ دے کر خواتین کا شکار کرنے والا شخص آزاد زندگی گزار رہا ہے جب اس کے جیل سے فرار کی شہ سرخیاں لگیں۔
ڈاکٹر جیرارڈ کہتے ہیں کہ ’اس کی شخصیت میں کچھ ایسا ہے جو ہم سب سے الگ ہے اور وہ کبھی نہیں بدلے گا۔‘
گذشتہ سال تین مئی کو مینگوانگ جیل کے ایک سیل میں صبح سویرے آگ بھڑک اٹھی۔ یہ سیل تھیبو بیسٹر کا تھا۔ آگ بھجانے کی کوششوں کے بعد جیل حکام نے بتایا کہ سیل میں موجود شخص نے خودکشی کر لی ہے۔
ایک جلی ہوئی لاش ملی جس کے بعد کئی ماہ تفتیش ہوئی کہ آخر ایسا کیسے ہوا۔ پولیس کی تفتیش میں وہ کمپنی بھی شامل تھی جو جیل کا انتظام چلا رہی تھی۔ یہ برطانوی سکیورٹی کمپنی ’جی فور ایس‘ تھی۔
ایک جنوبی افریقی نیوز ایجنسی، گراؤنڈ اپ، نے سب سے پہلے یہ خبر دی۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر آگ کیسے لگی۔
گروپ کے ایڈیٹر نیتھن جیفین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے خیال میں یہ عوامی مفاد عامہ کا معاملہ تھا۔ یہ ایک انتہائی حساس جیل تھی جسے دنیا کی ایک بڑی کمپنی چلا رہی تھی۔ اور پھر بھی ایک شخص نے جیل میں خود کو آگ کیسے لگا لی۔‘
جلد ہی شکوک پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ سیل میں ہلاک ہونے والے شخص کے سر پر شدید چوٹ آئی تھی جس سے اس کی موت ہوئی۔ اس کے پھیپھڑوں میں دھویں کے کوئی آثار نہیں ملے۔
اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ سیل میں آگ لگنے سے پہلے ایک لاش لائی گئی تھی۔ معلوم ہوا کہ یہ ایک ڈرامہ تھا جس کے ذریعے تھیبو بیسٹر جیل کے وارڈن کی وردی پہن کر اُسی رات فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
یہ لاش اسی فرار کو ممکن بنانے کے لیے باہر سے جیل میں سمگل کی گئی تھی جس سے قبل تھیبو نے ڈرامہ رچا کر خود کو ایک قید تنہائی کے سیل میں بند کروا لیا تھا جو جیل کے اسے حصے میں واقع تھا جہاں سی سی ٹی وی کیمرے زیادہ اچھے نہیں تھے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے جیل وارڈن اور کیمرہ آپریٹر کو رشوت دی اور فرار کو ممکن بنایا۔
تاہم حکام کی جانب سے یہ اعتراف کرنے میں کہ یہ لاش تھیبو کی نہیں تھی، کئی ماہ لگے۔ حکام کو بلکل بھی علم نہیں تھا کہ تھیبو کہاں چلا گیا۔
ایک سال تک جب کوئی اس کو تلاش بھی نہیں کر رہا تھا، تھیبو جوہانسبرگ کے ایک متمول علاقے میں رہائش پذیر رہا۔
وہ اپنی 35 سالہ گرل فرینڈ ڈاکٹر نندیفا کے ساتھ کھلے عام ملک میں موجود تھا جو جلد کی بیماریوں میں مہارت رکھتی تھیں۔ انھوں نے 2006 میں تھیبو کے لیے کام کیا تھا جب وہ ایک ایونٹ مینیجر ہوا کرتا تھا۔ 2017 میں ڈاکٹر نندیفا نے تھیبو سے جیل میں ملنا شروع کر دیا۔
ڈاکٹر نندیفا
اس دوران گراؤنڈ اپ نے اس خبر کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ انھوں نے ایک ایسے شخص کی تصاویر شائع کیں جو تھیبو سے بہت ملتا جلتا تھا اور ڈاکٹر نندیفا کے ساتھ شاپنگ کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔
یہ تصاویر مشہور ڈاکٹر کی ایک فین نے شیئر کی تھیں جو ان کے ساتھ موجود شخص کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
یہ اس جوڑے کی خفیہ زندگی کے اختتام کا آغاز تھا۔ باقی اخبارات نے بھی اس خبر کو اٹھا لیا اور تھیبو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک بار پھر فرار ہو گئے۔
تاہم اس میڈیا کوریج کی وجہ سے ملک کی جیلوں کا انتظام چلانے والوں کے لیے سوالات اٹھے۔
گریفین کہتے ہیں کہ ’حکام کو علم تھا کہ کیا ہوا لیکن انھوں نے کئی ماہ تک کچھ نہیں کیا۔‘ وہ ایک تفتیش کی جانب اشارہ کر رہے تھے جس کے مطابق حکام نے پارلیمانی کمیٹی کو آگاہ کیا تھا کہ پولیس اور وزیر قانون رونالڈ لامولا اکتوبر سے تھیبو کے فرار کے بارے میں جانتے تھے لیکن انھوں نے یہ معلومات کسی کو نہیں دیں۔
رونالڈ لامولا نے تھیبو کے متاثرین سے معافی مانگی ہے اور کہا ہے کہ اس وقت مذید معلومات دینی چاہیے تھیں۔ جی فور اسی کمپنی نے بھی سکیورٹی ناکامیوں کو تسلیم کیا ہے تاہم فرار کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ کمپنی نے چند اہلکاروں کو نوکری سے برخاست کیا ہے اور حکومت نے جیل کا انتظام خود سنبھال لیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ فرار کی خبر روکنے کا مقصد مذید معلومات حاصل کرنا تھا۔
تاہم عوامی دباؤ اور میڈیا کوریج نے پولیس کو مجبور کیا کہ وہ تھیبو کا پیچھا کریں۔ سات اپریل کو پولیس نے اسے جعلی شناخت والے متعدد پاسپورٹس کے ساتھ تنزانیہ کے شہر اروشا سے گرفتار کر لیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ زمبابوے کی سرحد کے ذریعے جنوبی افریقہ سے گاڑی پر نکلے اور پھر زمبیا سے ہوتے ہوئے تنزانیہ پہنچ گئے۔
پولیس کے مطابق ان کو انٹرپول اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کے مشترکہ آپریشن میں پکڑا گیا اور اب تھیبو اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ جنوبی افریقہ میں نئے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اس ہفتے ان کی گرل فرینڈ ایک پرہجوم عدالت میں پیش ہوئیں تو ان کا سر جھکا ہوا، چہرہ مکمل طور پر ڈھکا ہوا تھا اور ان کے پیروں کے گرد بیڑیاں تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ڈاکٹر نندیفا اور ان کے والد سیکیلینی
یہ ان کی اس زندگی سے ایک بلکل مختلف تصویر تھی جس میں وہ ایک مشہور ڈاکٹر، ماں اور بیوی تھیں۔
عدالت میں وہ بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ ان پر فراڈ اور قتل کا الزام ہے۔ یہ الزام ان کی جانب سے مبینہ طور پر تین لاشوں کے حصول کی کوشش کی وجہ سے لگا جو کئی ماہ سے تھیبو کے فرار کے منصوبے کے تحت حاصل کی جا رہی تھیں۔ ان میں وہ لاش بھی شامل تھی جو سیل سے ملی۔
جی ایس فور کمپنی کے سابق سپروائزر اور ڈاکٹر نندیفا کے والد کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان پر بھی فرار میں مدد فراہم کرنے کا الزام ہے۔
ڈاکٹر نندیفا کے 65 سالہ والد سیکیلینی عدالت میں اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھے تو وہ اپنی بیٹی کو دلاسہ دیتے نظر آئے۔ شاید وہ دونوں ہی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچے۔
دوسری جانب تھیبو جب عدالت پہنچے تو انھوں نے پورے کمرے کا جائزہ لیا جیسے اسے کسی بات کی پرواہ نہیں۔
ڈاکٹر جیرارڈ کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگوں کو کبھی معاشرے میں واپس جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘
Comments are closed.