فون ریکارڈنگ، فوجی اڈے کی کٹی باڑ اور قتل کی منصوبہ بندی: کیا جرمنی نئی سرد جنگ میں داخل ہونے جا رہا ہے،تصویر کا ذریعہAXEL HEIMKEN/AFP

  • مصنف, جیسیکا پارکر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 2 گھنٹے قبل

فوجی اڈوں میں لگی خاردار تاروں میں جگہ جگہ پراسرار سوراخ کا انکشاف۔۔۔جرمنی میں ہتھیار بنانے کی سب سے بڑی کمپنی کے مالک کے قتل کا مبینہ منصوبہ۔۔۔اعلیٰ عہدوں پر موجود شخصیات کے ٹیلیفون کالز کی ریکارڈنگ۔۔۔یہ 1960 کے کسی جاسوسی ناول کا اقتباس نہیں بلکہ جرمنی میں اس سال ہونے والے حقیقی زندگی کے واقعات کی جھلک ہے۔

ان تمام واقعات کی براہ راست ذمہ داری تو روس پر نہیں ڈالی جا سکتی تاہم جرمنی، جو یوکرین کی مسلسل فوجی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے، روس کی جانب سے کسی بھی ممکنہ تخریبی کارروائی کے لیے مسلسل الرٹ پر ہے۔روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ میں اب اس بات کا خدشہ سر اٹھا رہا ہے کہ کہیں یورپ کسی نئی سرد جنگ کا حصہ نہ بن جائے۔رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر فیلو اور جوہری مواد بنانے والی روس کی بڑی کمپنی مایکمارک گیلیوٹی کہتے ہیں کہ ’جب ہم سرد جنگ کو سوچتے ہیں تو ہمارے زہنوں میں 1970 کی دہائی کا تصور آتا ہے جس وقت اس کے لیے قوانین اور اصول بنائے جا چکے تھے اور انھیں قبول کیا گیا تھا۔‘’دیکھا جائے تو اس وقت 1950 اور 1960 کی دہائی کی طرح سرد جنگ کے آغاز کا دور ہے۔‘لیکن بظاہر سرد جنگ کے دوبارہ آغاز یورپ کی سب سے بڑی معیشت اور ’آئرن کرٹن‘ کے ذریعے تقسیم ہونے والے ملک کے لیے کیا معنی ہیں۔گذشتہ مہینے اس ضمن میں سب سے بڑی خبر یہ تھی کہ سی این این نے بتایا کہ امریکی حکام نے برلن کو جرمنی کی سب سے بڑی اسلحہ بنانے والی کمپنی رہینمیٹال کے چیف ایگزیکٹو کے قتل کے مبینہ منصوبے کے بارے میں آگاہ کیا۔کریملن نے اس رپورٹ کی تردید کی لیکن جرمن وزیرِ خارجہ اینالینا بیئرباک جو جرمنی کے چانسلر اولاف شالٹز سے زیادہ سخت گیر لہجہ اپناتی ہیں نے روس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس پر ’ہائبرڈ جنگ اور جارحیت کے آغاز‘ کا الزام عائد کیا۔میں نے رہینمیٹال کے سی ای او آرمین پیپرجر سے ایک نئی اسلحہ فیکٹری کی افتتاحی تقریب میں فروری میں ملاقات کی۔،تصویر کا ذریعہEuskirchen Police

،تصویر کا کیپشنجرمنی کے ایک فوجی بیس میں پانی ذخیرہ کرنے کی جگہ کے ارد گرد ایک باڑ کٹی ہوئی پائی گئی

’پوتن کو جرمنی میں دہشت گردی لانے کی اجازت نہیں دیں گے‘

جرمن چانسلر شالٹز وزیر دفاع بورس پسٹوریئس اور ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹے فریڈرکسن کے ہمراہ کھڑنے ہونے کے باعث آرمین پیپرگر کی پوزیشن مضبوط سب پر واضح تھی۔ان کی اہمیت اس تناظر میں اور بھی بڑھ جاتی ہے جب نیٹو ممالک کی جانب سے یوکرین کی دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں۔اگر ان کو قتل کرنے کی سازش کامیاب ہو جاتی تو مغربی ممالک میں ہلچل مچ جاتی۔سکیورٹی کی ایک غلطی کے سبب کچھ ہی دیر میں جاسوس جرمن فضائیہ کے سینیئر اہلکاروں کے درمیان ہونے والی انتہائی حساس گفتگو سننے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے بعد میں روسی ٹی وی پر نشر کیا گیا۔تاہم یہ جرمنی کے لیے باعث شرمندگی رہا کہ فضائیہ کا ایک بریگیڈیئر جنرل جاسوسوں کو ایک غیر محفوظ لائن استعمال کرنے کی اجازت دیتا نظر آیا۔کچھ عرصے بعد دو جرمن نژاد روسی شہریوں کو باویریا میں امریکی فوجی تنصیبات کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔جرمنی کے وزیر خارجہ انالینابیئربک نے شکایت کے لیے روسی سفیر کو طلب کیا اور اعلان کیا کہ ’ہم پوتن کو اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ اپنی دہشت گردی جرمنی میں لے کر آئیں۔‘صرف پچھلے ہفتے ہی نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں دو فوجی اڈوں کو پانی سپلائی کرنے کی سہولت کے گرد لگائی باڑ میں سوراخ پائے گئے اور خدشہ سامنے آیا کہ کوئی سپلائی کو آلودہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔،تصویر کا ذریعہRONNY HARTMANN/AFP

،تصویر کا کیپشنفروری میں جرمن چانسلر اور ڈنمارک کے وزیر اعظم کے ساتھ رائن میٹل کے سربراہ (بائیں جانب) آرمین پیپرگر
جرمنی وہ واحد یورپی ملک نہیں جسے مبینہ طور پر بظاہر تخریب کاری کی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہو لیکن ایسے کئی امریکی فوجی اڈے ہیں جو وہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کیے گئے تھے۔مارک گیلیوٹی کا خیال ہے کہ روس ماسکو جرمنی کو ایک بڑی لیکن ’کمزور‘ طاقت کے طور پر دیکھتا ہے اور اس لیے اس پر بآسانی دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں جرمنی کو نقصان پہنچانے کے لیے سب سے بڑی تخریب کاری اس وقت ہوئی جب 2022 میں روس سے بحیرہ بالٹک کے نیچے چلنے والی نارڈ سٹریم گیس پائپ لائنوں کو اڑا دیا گیا۔اس حملے کا حکم کس نے دیا اس کے بارے میں تب سے اب تک قیاس آرائیاں تو جاری ہیں تاہم جرمنی نے ایک ڈرامائی پیش رفت کے تحت اب یوکرین کے ڈائیونگ انسٹرکٹر کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کر دیا ہے۔گذشتہ ہفتے وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ اس کارروائی کو خفیہ طور پر فنڈ کیا گیا تھا لیکن اس کی نگرانی یوکرین سے کی گئی تھی۔کیئو کی جانب سے اس رپورٹ کو بلاجواز قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ تاہم اس بارے میں ہمیشہ سے شکوک و شبہات موجود رہے تھے کہ صدر پوتن کیوں اپنی ہی پائپ لائن کو تباہ کرنے کا حکم دیں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاسوسی کی تاریک دنیا میں کتنے ان گنت موڑ اور اچھنبے پائے جا سکتے ہیں۔

جرمن حکومت کا نیا قانون

تمام شکوک و شبہات کے باوجود تخریب کاری کے ہر واقعے کا الزام فوری طور پر روس سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔فرانس میں اولمپکس کے موقع پر ملک کے تیز رفتار ریل نیٹ ورک کو نشانہ بنانے کا الزام روسیوں پر نہیں تھا بلکہ اس میں یہ انتہائی بائیں بازو کے کارکن ملوث تھے۔جرمنی کے پاس بائیں بازو کے عسکریت پسندوں کے حملوں کی وسیع تاریخ موجود رہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نورڈ سٹریم دھماکوں کے ملوث ہونے میں اب یوکرینی شخصیات توجہ لے رہی ہیں۔جرمنی کے اندر کیئو کے لیے حکومت کی حمایت کے بارے میں واقف سیاسی ونگز کی جانب سے تازہ تنقید کو ہوا دی گئی ہے۔انتہائی دائیں بازو کے الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ کے شریک رہنما، ایلس ویڈل نے کیئو کی امدادی ادائیگیاں روکنے اور نورڈ سٹریم کو پہنچنے والا نقصان یوکرین کے ذمہ ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔لہٰذا جیسے جیسے سرد جنگ کا خدشہ یورپ کی سکیورٹی کے اوپر منڈلاتا محسوس ہو رہا ہے ویسے ویسے جرمنی کی سیاست میں بھی غیر متوقع طور پر نئی تبدیلیاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔اپنی سکیورٹی کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کے طور پر جرمن حکومت ایک نئے قانون پر کام کر رہی ہے جس کا مقصد اہم بنیادی ڈھانچے کی لچک کو بڑھانا ہے۔جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر کا کہنا ہے کہ ’تمام علاقوں میں زیادہ سے زیادہ حفاظتی اقدامات‘ ہونے چاہییں۔توانائی، ٹرانسپورٹ اور پانی جیسے اہم شعبوں میں آپریٹرز کو کریتس امبریلا ایکٹ کے تحت کم سے کم حفاظتی معیارات پر عمل کرنا ہو گا۔یہ جرمنی میں اپنی نوعیت کا پہلا وفاقی قانون ہے تاہم جنگ کے اردگرد بڑھتی ہوئی کشیدگی کے باوجود حتمی منظوری حاصل کرنا باقی ہے۔جرمن ساختہ بکتر بند گاڑیاں مبینہ طور پر روسی حدود میں یوکرین کے سرپرائز آپریشن میں استعمال ہو رہی ہیں۔،تصویر کا ذریعہDanish Defence handout

،تصویر کا کیپشن2022 میں روس سے بحیرہ بالٹک کے نیچے چلنے والی نارڈ سٹریم گیس پائپ لائنوں کو اڑا دیا گیا
ایک ایسے وقت میں جبکہ روس پوری قوت کے ساتھ یوکرین پر حملہ آور ہے جرمنی کا یہ اقدام جرمن خارجہ پالیسی میں مزید لچک کا باعث بن رہا ہے۔اس میں امریکہ کے 2026 سے جرمنی میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل نصب کرنے کے متنازعہ منصوبوں میں شامل کریں۔جب یوکرین پر روس کا مکمل حملہ شروع ہوا تو چانسلر شولز نے قومی دفاع اور سلامتی کی پالیسی میں اہم تبدیلیوں کا وعدہ کیا۔لیکن حکومت کے حامی اور ناقدین یکساں طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ دفاع میں برسوں کی کم سرمایہ کاری کو تبدیل کرنے میں وقت لگے گا – جیسا کہ جرمنی کے تاریک ماضی سے متاثر ذہنیت کو ایڈجسٹ کرنا ہو گا۔حالیہ پیش رفت کو دیکھتے ہوئے برلن کی مدت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔مارک گیلیوٹی کا کہنا ہے کہ یہ صرف دفاع کی تعمیر نو نہیں بلکہ سائبر سکیورٹی کو اپ گریڈ کرنا اور انسداد انٹیلیجنس کو بہتر بنانا ہے۔’سکیورٹی پلاننگ ہفتوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ سالوں میں ہوتی ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}