سپریم کورٹ آف پاکستان میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا ہے کہ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس میں طے ہوتا ہو کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
7 رکنی بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے روسٹرم پر آ کر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں نے تحریری معروضات بھی جمع کرا دی ہیں، میری درخواست دیگر درخواستوں سے الگ ہے، میں نے درخواست میں آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا، میرا یہ مؤقف نہیں کہ سویلینز کا آرمی ٹرائل نہیں ہو سکتا، سویلینز کے آرمی عدالت میں ٹرائل ہوتے رہے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ آپ نے آرمی ایکٹ کو چیلنج کیوں نہیں کیا؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ میرا مؤقف ہے کہ من پسند لوگوں کا آرمی ٹرائل کرنا غلط ہے، آرمی ایکٹ کے تحت مخصوص سویلینز کا ٹرائل خلافِ آئین ہے، میرا یہ مؤقف نہیں ہے کہ آرمی ایکٹ کی کوئی شق غیر قانونی ہے، سپریم کورٹ کے 5 فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998ء میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ زیرِ بحث نہیں لایا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟
’’انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہو گی؟‘‘
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ملزمان کا سخت سے سخت ٹرائل نہ کریں، انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے زیادہ سخت سزا کہاں ہو گی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تو ٹرائل تب ہوتا ہے جب بات قومی سلامتی کی ہو، سویلینز نے آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کب کی؟ جب آپ آرمی ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔
جسٹس مظاہر نے کہا کہ آپ جو کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے بعد مقدمات میں آفیشل سیکرٹ یا آرمی ایکٹ کی دفعات کب شامل کی گئیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس صوابدیدی اختیار ہے؟ آپ کے دلائل یہ ہیں کہ سویلین کے فوجی عدالت میں ٹرائل کا صوابدیدی اختیار کس کے پاس ہے؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ بہتر ہو گا کہ پہلے اٹارنی جنرل کو بتانے دیں کہ اصل صورتِ حال کیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ بہت سے تسلیم شدہ حقائق ہیں جو سامنے رکھ رہا ہوں، بہتر ہو گا پہلے تمام وکلاء اپنے دلائل مکمل کر لیں پھر اٹارنی جنرل کو سن لیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جسٹس یحییٰ درست کہہ رہے ہیں، ہمیں پہلے حقیقت کو جاننے کی ضرورت ہے، یہ بتائیں کہ کس طریقہ کار کے تحت یہ تمام گرفتاریاں کی گئی ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آج 3 بجے تک سماعت کر سکتے ہیں، فیصل صدیقی دلائل جاری رکھیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ جس مقدمے کا فیصل صدیقی حوالہ دے رہے ہیں اس میں 50 افراد گرفتار ہیں، ہمیں نہیں پتہ کہ یہ افراد کن دفعات کے تحت گرفتار ہوئے؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ بنیاد دکھاؤں گا جس کے تحت انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے کیسز فوجی عدالت بھیجے۔
جسٹس منصور نے استفسار کیا کہ کیا یہ معلومات ہیں کہ کون سے افراد کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا؟ کس بنیاد پر کسی شخص پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات لگائی جا سکتی ہیں؟
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کمانڈنگ افسر نے انتظامی جج کو سویلینز کی فوجی حکام کو حوالگی کی درخواست لکھی، فوجی حکام کی اس درخواست کے ذرائع نہیں بتائے گئے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے مطابق آفیشل سیکرٹ ایکٹ والا جرم ضروری نہیں کہ آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہو۔
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل سے سوال کیا کہ کن جرائم پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگتا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں ملزمان کی فوجی عدالتوں کو حوالگی کی درخواست نہیں دی جا سکتی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آپ یہ نہیں بتا سکے کہ کن درج مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات شامل کی گئیں، یہ بھی بتائیں کہ کمانڈنگ افسر کیسے سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ کر سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ یہ بتائیں کیسے فوج کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان افراد نے جرم کیا ہے؟ بار بار آپ سے سوال کر رہے ہیں اور آپ جواب نہیں دے رہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیسے طے ہوتا ہے کہ آرمی ایکٹ یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ ہو سکتا ہے؟
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ سول ٹرائل چل رہا ہے تو فوج کیسے فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کر دو؟
جسٹس یحییٰ آفریدی نے وکیل سے سوال کیا کہ ضابطہ فوجداری میں دفعات آرمی ایکٹ میں کہاں ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل سے سوال کیا کہ آرمی ایکٹ کب عمل میں آتا ہے یہ بتا دیں؟
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا آرمی اتھارٹیز یہ فیصلہ بھی کر سکتی ہیں کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟ اگر کسی کا سول کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے تو کیا فوج اس کی حوالگی کا کہہ سکتی ہے؟
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ فوج کا اندرونی طریقہ کار کیا ہے جس میں طے ہوتا ہو کہ سویلین کو ہمارے حوالے کر دو؟
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
’’کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟‘‘
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ فوج چارج کر سکتی ہے لیکن ٹرائل تو سول عدالت میں چلے گا، کمانڈنگ افسر انتظامی جج سے کس بنیاد پر سویلین کی حوالگی کا مطالبہ کرے گا؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کوئی دستاویز تو دکھا دیں جس کی بنیاد پر سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانوناً اگر فوج سویلین کی حوالگی کا کہتی ہے تو ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔
’’وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟‘‘
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ وفاقی حکومت نے کب سویلینز کی فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی منظوری دی؟
جسٹس یحییٰ نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا سیکشن 13 نہ پڑھائیں۔
وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ مسئلہ فورم طے کرنے کا ہے کہ کہاں ٹرائل ہو گا۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ٹرائل کا فورم کیسے طے ہوتا ہے یہی سوال ہے؟
جسٹس منصور نے کہا کہ کسی کی گرفتاری کے لیے آنے سے پہلے فوج اپنے گھر پر کیا تیاری کرتی ہے یہ بتا دیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ کامن سینس ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دے سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست کیوں نہیں دی گئی۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ نے کہا کہ آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کو دیکھنا پڑے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں۔
جسٹس منصور نے کہا کہ کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سویلینز پر آرمی ایکٹ کے اطلاق کا پوچھا گیا، آرمی ایکٹ 1954ء میں رولز کی بنیاد پر سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے، آرمی ایکٹ کا اطلاق براہِ راست آرمی کے افسران اور ملازمین پر ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز فوجی عدالتوں میں سويلينز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنے والا 9 رکنی بینچ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے الگ ہو جانے کے بعد ٹوٹ گیا تھا جس کے بعد ان درخواستوں کی سماعت کے لیے 7 رکنی نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کا فیصلہ ہونے تک بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا، جس سے جسٹس طارق نے بھی اتفاق کیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ بینچ سے الگ نہیں ہو رہا، از خود نوٹس پر میرے بینچ کا رولز بنانے کا فیصلہ رجسٹرار نے ختم کر دیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ 9 ججز نے فیصلہ دے دیا تو اپیل پر فیصلہ کون کرے گا؟
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے اس کیس میں 7 رکنی نیا بینچ بنا کر 9 مئی کے واقعے میں گرفتار افراد کا ڈیٹا طلب کر لیا تھا اور حکمِ امتناع دینے سے انکار کر دیا تھا۔
عدالت کی جانب سے وفاقی حکومت، شہباز شریف، نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، مریم نواز، آصف زرداری، خالد مقبول صدیقی، محسن نقوی، اعظم خان، رانا ثناء اللّٰہ، خواجہ آصف، چیئرمین پی ٹی آئی، چاروں چیف سیکریٹریز، اسلام آباد سمیت چاروں صوبوں کے پولیس سربراہان کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
Comments are closed.