پیر7؍ذوالحجہ 1444ھ26؍جون 2023ء

فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا کیس سننے والا بینچ پھر ٹوٹ گیا

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا، ان کا کہنا ہے کہ میں مزید اس بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتا۔

وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر اعتراض اٹھایا ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ آپ جسٹس منصور پر اعتراض جانبداری پر اٹھا رہے ہیں یا مفادات کے ٹکراؤکی بنیاد پر؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت نے جسٹس منصور پر مفادات کے ٹکراؤ کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے۔

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک اعلیٰ درجے کے وکیل ہیں۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر عدالت کو اعتماد ہے، یہ ججز پر اعتراض کرنے کے تسلسل کی ایک کڑی ہے، پہلے حکومت نے بینچ کے تناسب کا معاملہ اٹھائے رکھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا وزیرِ اعظم سے پوچھیں کہ کسی رشتے داری کی بنیاد پر اعتراض کیوں اٹھایا گیا؟جسٹس منصور علی شاہ بہت حساس ہیں، جسٹس منصور وہ انسان نہیں کہ ان کی رشتے داری فیصلے پر اثرانداز ہو، سپریم کورٹ کو داغدار نہ کریں، تضحیک مت کریں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ جس جج پر اعتراض اٹھایا جا رہا ہے ان کی اہلیت پر کسی کو شک نہیں، حکومت نے پہلے بھی اس قسم کے اعتراضات اٹھائے ہیں، الیکشن کیس میں 90 دنوں پر کسی نے اعتراض نہیں کیا، بس بینچ پر اعتراض کیا گیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے ابتداء میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا، جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کے بینچ پر اعتراض کے بعد 7 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس منصور کی علیحدگی کے بعد بینچ 6 ججز پر مشتمل رہ گیا ہے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.