فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے فلسطینی بچے: ’رہائی کے بعد میرا بھائی محمد وہ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے‘
فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنے والے فلسطینی بچے: ’رہائی کے بعد میرا بھائی محمد وہ نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے‘
،تصویر کا ذریعہANADOLU/GETTY
16 سالہ فوزی الجنیدی اسرائیلی فوج کی جانب سے نوجوانوں کو حراست میں لینے کی علامت بن گئے جب انھیں 2017 میں آنکھوں پر پٹی باندھ کرگرفتار کیا گیا
- مصنف, پاولا روزآس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
(انتباہ: اس تحریر کے کچھ حصے قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔)
’درجنوں فوجی آدھی رات کو حملہ کرتے ہیں، زبردستی گھروں میں گھستے ہیں، بچوں کا پوچھتے ہیں اور اپنی رائفلوں کے زور پر بچوں کے کمروں میں جا کر انھیں جگاتے ہیں اور ساتھ لے جاتے ہیں۔‘
فلسطین میں انسانی حقوق کے وکیل خالد قزمر نے اِن الفاظ میں کم عمر فلسطینی بچوں کو حراست میں لے جانے کے واقعات کا احاطہ کیا۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل (فلسطین) کے سربراہ خالد قرمز نے بی بی سی کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد ان بچوں کو تفتیشی مراکز میں لے جایا جاتا ہے، جہاں تفتیش کے عمل کے دوران اُن کے ساتھ خاندان کے افراد یا وکیل نہیں ہوتے۔
خالد قرمز کے مطابق ’وہاں انھیں (کم عمر بچوں) نفسیاتی اور بعض اوقات جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ دباؤ میں ان جرائم کا اعتراف کرتے ہیں جو انھوں نے کیے ہی نہیں ہوتے۔‘
تاہم اسرائیل کے محکمہ جیل خانہ جات (آئی پی ایس) نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان الزامات سے لاعلم ہیں اور قیدیوں اور زیرحراست افراد کے پاس یہ موقع ہوتا ہے کہ اگر انھیں کسی حوالے سے شکایت ہے تو وہ شکایت درج کروائیں جس پر حکام شکایت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔
کم عمر فلسطینی بچوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ سلوک کئی بین الاقوامی تنظیموں جیسا کہ ’سیو دی چلڈرن‘ یا خود اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطین (یو این آر ڈبلیو اے) کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔
غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے یہ کم عمر فلسطینی بچے جسمانی اور جذباتی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ہر پانچ میں سے چار (86 فیصد) بچوں نے مار پیٹ کی شکایات کی، 69 فیصد کا کہنا تھا کہ انھیں تلاشی لینے کے بہانے برہنہ کر دیا گیا اور تقریباً نصف بچوں نے بتایا کہ گرفتاری کے وقت ہونے والے تشدد کے باعث وہ زخمی ہوئے، کچھ کو گولیاں لگیں اور کچھ کی ہڈیاں ٹوٹیں۔
یہ تحقیق گذشتہ سال جولائی میں شائع ہوئی تھی۔
فوجی عدالتیں
،تصویر کا ذریعہAFP/GETTY
سب سے عام جرائم میں سے ایک مظاہروں کے دوران پتھر پھینکنا ہے جس پر ان بچوں کو گرفتار کیا جاتا ہے
واضح رہے کہ غزہ کا مغربی کنارہ اور مشرقی بیت المقدس اسرائیلی فوج کے زیر قبضہ ہیں اس لیے ان علاقوں میں گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس عمل میں عمر کی کوئی تخصیص نہیں یعنی کم عمر بچوں یا 18 سال سے کم عمر گرفتار شدہ افراد کا ٹرائل بھی انھی فوجی عدالتوں میں ہوتا ہے۔
سیو دی چلڈرن کے مطابق فلسطینی بچے دنیا کے واحد بچے ہیں جن پر ’منظم طریقے سے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔‘
تنظیم کا اندازہ ہے کہ گذشتہ 20 برسوں کے دوران اسرائیل کے فوجی حراستی سسٹم کے تحت تقریباً 10 ہزار کم عمر فلسطینی بچوں کو قید کیا گیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا کہ ان (اسرائیلی) فوجی عدالتوں کی تشکیل ’چوتھے جنیوا کنونشن‘ میں دی گئی گائیڈ لائنز کے عین مطابق ہے اور ان کی اس ضمن میں کارروائیاں بین الاقوامی قانون کے تحت تمام متعلقہ ذمہ داریوں کی تعمیل کرتی ہے۔
اسرائیل میں کسی جرم کی ذمہ داری عائد کرنے کی مد میں کم از کم عمر 12 سال ہے، یعنی 12 سال کے بچے پر اس کے کیے جرم کے ردعمل میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ تاہم خالد قزمر کہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج میں رائج قانون کسی بھی عمر کے فلسطینی کی گرفتاری کی اجازت دیتا ہے۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل کی رپورٹس کے مطابق ان کے سامنے چھ سال کی عمر کے بچوں کے بھی کیسز سامنے ہیں جنھیں حراست میں لیا گیا اور پانچ چھ گھنٹے بعد رہا کیا گیا۔
گرفتاری کے وقت تھپڑ اور تشدد
12 سالہ کریم کے مطابق گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی، تھپڑ مارے گئے اور تشدد کیا گیا
چند گھنٹوں کے لیے حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے عمل سے گزرنے والے نابالغ بچوں میں سے ایک 12 سالہ کریم غوانمہ بھی ہیں جنھیں اسرائیلی فوجیوں نے مغربی کنارے کے ایک پناہ گزین کیمپ میں واقع ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا۔
بی بی سی عربی کے صحافی مہناد توتنجی اس وقت کریم کے گھر پر تھے جب اُن کی والدہ کو ان کے بیٹے کا فون تفتیشی کمرے سے موصول ہوا۔
اس دوران کریم کو اپنے والدین سے فون پر ایک منٹ سے بھی کم بات کرنے کی اجازت دی گئی۔ انھیں بغیر کسی الزام کے سات گھنٹے تک حراست میں رکھا گیا۔
کریم کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ ایک پستول سے کھیل رہے تھے۔ کریم کے مطابق یہ پستول ایک درخت کے نیچے موجود ایک سوٹ کیس ملی تھی جسے انھوں نے کھیلنے سے بعد خود پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
کریم کے مطابق گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ بد سلوکی کی گئی، تھپڑ مارے گئے اور تشدد کیا گیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھیں دوران حراست اسرائیلی فوج کے ہاتھوں دو فلسطینی بچوں کو گولی مار کر ہلاک کیے جانے کی فوٹیج دیکھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ یہ وہی وڈیوز ہیں جن کو دیکھ کر بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو رنج و کرب کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کریم کے مطابق، فوجیوں نے انھیں کہا کہ اگران کی جانب سے کبھی بھی کسی اسرائیلی فوجی پر پتھراؤ کیا گیا تو ان کا بھی وہی انجام ہو گا جو ویڈیو میں موجود دو لڑکوں کا ہوا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فوج نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نابالغوں سے پوچھ گچھ احتیاط کے ساتھ اور ان کے حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ جس میں ان کو کسی الزام کے جواب میں خاموش رہنے اور وکیل سے مشورہ کرنے کا حق بھی دیا جاتا ہے۔‘
14 سالہ ’نوجوان‘ کو عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے
اسرائیلی فوجی عدالت کی نظر میں 12 برس کے کریم بچے نہیں بلکہ ’نوجوان ہیں۔
قزمر بتاتے ہیں کہ اگر سزا سنائے جانے کے دن بچے کی عمر پوری 14 سال نہ ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ سزا ایک سال قید ہو سکتی ہے مگر یہاں 14 سال کی عمر میں بچوں کو عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔
اسرائیلی فوج پر پتھر پھینکنا ان بیشتر جرائم میں سرفہرست ہے جس کے لیے فلسطینی کم عمر بچوں کو حراست میں لیا جاتا ہے۔ ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل سمیت دیگر انسانی حقوق کے گروہوں کا ماننا ہے کہ اس جرم کی سزا اس وقت 10 سے 20 سال تک بھی ہو سکتی ہے جب سامنے یہ بات ہو کہ پتھر سے حملہ کس پر کیا گیا۔
اسرائیل کی محکمہ جیل نے بتایا کہ اُن کی تحویل میں موجود کم عمر افراد کو ’عدالتی احکامات کے مطابق، قتل کی کوشش، حملہ اور دھماکہ خیز مواد پھینکنے سمیت مختلف نوعیت کے سنگین جرائم کے الزامات کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔‘
شدید نفسیاتی عارضہ اور قید تنہائی
،تصویر کا ذریعہAFP/GETTY
قید کے دوران 13 سالہ منصرہ کو شدید نفسیاتی عارضہ لاحق ہوا، جرم ثابت نہ ہونے کے باوجود وہ دو سال سے قید تنہائی میں رہے
انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کے ذریعہ رپورٹ کیے جانے والے معروف کیسوں میں سے ایک احمد منصرہ کا ہے جنھیں 13 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان پر ایک تصفیہ میں دو افراد کو چاقو سے وار کرنے کی کوشش کرنے کا الزام تھا۔
آخر کار ثابت ہوگیا کہ یہ حملہ انھوں نے نہیں بلکہ ان کے ایک کزن نے کیا تھا، لیکن اس کے باوجود منصرہ آٹھ سال سے جیل میں ہیں۔
’اگرچہ عدالتیں اس نتیجے پر پہنچیں منصرہ نے ان حملوں میں حصہ نہیں لیا تھا تاہم انھیں قتل کی کوشش کا مجرم قرار دیا گیا جس کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مذمت کی۔
قید کے دوران منصرہ کو شدید نفسیاتی عارضہ لاحق ہوا لیکن اس کے باوجود وہ دو سال سے قید تنہائی میں رہے۔
،تصویر کا ذریعہANADOLU/GETTY
عینی شاہدین کے مطابق 10 سالہ اسماعیل این نیسی پر وحشیانہ تشدد کیا گیا
بغیر کسی الزام کے گرفتار
بیشتر فلسطینیوں کی مانند اسرائیلی فوج کی طرف سے حراست میں لیے گئے بہت سے بچوں کو بھی کسی جرم کا باقاعدہ الزام لگائے بغیر انتظامی حراست میں رکھا جاتا ہے جس کے تحت انھیں مہینوں جیل میں مقید رکھا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ احام نہالہ کے ساتھ ہوا جنھیں بغیر کسی الزام کے 14 ماہ جیل میں گزارنے پڑے جس کے بعد حال ہی میں یرغمالیوں کے تبادلے میں ان کو رہائی نصیب ہوئی۔
نہالہ ان 169 کم عمر فلسطینوں میں شامل تھے جو اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ بندی کے دوران رہا کیے گئے تھے۔
فلسطینی قیدیوں کی رہائی ان اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے کے نتیجے میں سامنے آئی جنھیں سات اکتوبر کو عسکریت پسند گروہ حماس نے اپنے حملے کے دوران اغوا کر لیا تھا۔
اقوام متحدہ کی تنظیم برائے فلسطین (UNRWA) نے ایک اور لڑکے، امل معمر نخلیح سے متعلق بھی آگاہ کیا ہے جو قوت مدافعت کی ایک نادر بیماری میں مبتلا ہونے کے باوجود بغیر کسی الزام کے ایک سال تک اسرائیلی فوج کی حراست میں رہا۔
اقوام متحدہ کے مطابق ’جیل میں امل سے ملاقات اور اس کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے تک ان کی رسائی بہت محدود ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق نابالغوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد ان کی اپنے اہل خانہ تک رسائی انتہائی محدود ہوتی ہے۔
سیو دی چلڈرن نے یقین دلایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی طرف سے فلسطینی بچوں پر عائد کیے گئے اقدامات میں قانونی نمائندگی اور ان کے اہل خانہ سے ملنے سے انکار بھی شامل ہے۔
اسرائیل نے بی بی سی کو یقین دہانی کروائی کہ غرب اردن میں قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے انتظامی اور مجرمانہ طریقہ کار میں نابالغوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرتے ہیں جس میں گرفتاریاں، تفتیش، استغاثہ اور نابالغوں کی سزا سے متعلق تمام امور شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے 2013 میں اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیلی فوج کی حراست میں بچوں کی نظر بندی کے لمحے سے لے کر بچے کے خلاف مقدمہ چلانے اور بالآخر سزا پانے تک کے تمام مراحل میں بڑے پیمانے پر بدسلوکی منظم اور ادارہ جاتی تھی۔
اس انکشاف کے سامنے آنے کے بعد سے تنظیم نے صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشش کے لیے اسرائیلی حکام کے ساتھ بات چیت کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کی رپورٹ کے مطابق فوجی حراست بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات بھی چھوڑ جاتی ہے۔
2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق حراست میں لیے گئے تقریباً نصف افراد نے سیو دی چلڈرن کو بتایا کہ وہ رہا ہونے کے بعد اپنی معمول کی زندگیوں میں واپس آنے سے قاصر ہیں۔
18 سالہ نوجوان محمد نازل کو تین ماہ سے زائد انتظامی حراست کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کی بدولت رہا کیا گیا۔ انھوں نے بی بی سی کی رپورٹر لوسی ولیمسن کو بتایا کہ جیل سے نکلنے سے پہلے انھیں جسمانی استحصال کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے۔
لیکن نقصان صرف یہیں تک نہیں محدود نہیں بلکہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔
محمد کے بھائی معتز نے ٹوٹے دل کے ساتھ بتایا ’اب میرا بھائی وہ محمد نہیں رہا جسے ہم جانتے تھے۔ اب اس کا دل ٹوٹ گیا ہے اور خوف سے بھرا ہوا ہے۔‘
Comments are closed.