سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنے گا یا نہیں، سپریم کورٹ فیصلہ کل سُنائے گی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بینچ میں شامل ہیں۔
کورٹ ایسوسی ایٹ کے مطابق سپریم کورٹ فل کورٹ سے متعلق محفوظ فیصلہ کل سنائے گی، کیس سے متعلق کاز لسٹ جاری کی جائے گی۔
اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ابھی اس معاملے پر مشاورت کریں گے، اگر ابھی مشاورت مکمل ہو گئی تو15 منٹ میں مناسب رائے سے آگاہ کردیں گے، اگر مشاورت مکمل نہ ہوئی تو کل آگاہ کر دیا جائے۔
چھ رکنی بینچ کورٹ روم سے اٹھ کر چلا گیا۔
دو درخواست گزاروں نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی۔
سپریم کورٹ بار، چیئرمین پی ٹی آئی، اعتراز احسن اور دیگر درخواست گزاروں کے وکلاء نے فل کورٹ بنانے کی مخالفت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے سامنے فیصل صدیقی کی درخواست ہے، ایک درخواست خواجہ احمد حسین کی بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فیصل صدیقی کے آنے تک خواجہ احمد حسین کو سن لیتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جواد ایس خواجہ اپنے سابقہ عہدے کا کوئی استعمال نہیں کر رہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جواد ایس خواجہ ایک گوشہ نشین آدمی ہیں، ان کا بے حد احترام کرتے ہیں، جواد ایس خواجہ اے پولیٹیکل ہیں، اے پولیٹیکل بہتر لفظ نہیں، وہ غیرسیاسی ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سوال کیا کہ کیا فیصل صدیقی چھپ گئے ہیں؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے فوجی تحویل میں 102 افراد کے ناموں کی فہرست سپریم کورٹ میں پیش کر دی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ فیصل صدیقی کے آنے تک کچھ کہنا چاہتے ہیں تو آ جائیں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے فل کورٹ بنانے کی درخواست دیکھی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصل صدیقی کی درخواست دیکھی لیکن پہلے گرفتار افراد کی فہرست سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ کس میکنزم کے تحت پک اینڈ چوز سے یہ گرفتاریاں کی گئی ہیں؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ شواہد اور سی سی ٹی وی کے ریکارڈ کے مطابق گرفتاریاں کی گئی ہیں، 9 مئی کو جو مشتعل افراد جمع ہوئے ان کی فوٹیج ٹی وی پر بھی چلی۔
جسٹس مظاہر نقوی نے پھر سوال کیا کہ ان 102 افراد کے علاوہ باقی افراد کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت بغور دیکھے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے صرف 102 افراد کو ہی گرفتار کیا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پک اینڈ چوز کی اجازت قانون میں نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ گرفتاریوں میں پک اینڈ چوز نہیں کیا گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا کہ ان تمام گرفتار افراد کے خلاف ٹھوس شواہد ہیں، ان 102 افراد کی جلاؤ گھیراؤ اور تنصیبات کی توڑ پھوڑ کے شواہد کے بعد گرفتاری ہوئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال سوال کیا کہ کیا ان 102 افراد کا فوجی ٹرائل کیا جائے گا؟ کوئی آزاد ادارہ ہونا چاہیے جو جائزہ لے کہ گرفتاریاں ٹھوس وجوہات پر کی گئیں یا نہیں۔
جسٹس عائشہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ سویلینز کو کمانڈنگ افسر کے سپرد کرنے کی مجسٹریٹ سے اجازت لی یا نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ کیا 102 افراد کی حوالگی کی درخواست مجسٹریٹ سے کی گئی تھی؟
جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ کیس چلانے کے لیے شواہد کے طور پر آپ کے پاس صرف تصاویر ہیں؟ عدالت میں ان افراد کی تصاویر کے علاوہ کیا شواہد پیش کیے جائیں گے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تر شواہد عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے یہ معاملہ نہیں ہے، فیصل صدیقی صاحب آ چکے ہیں ان کو سنیں گے۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ زیرِ حراست 7 ملزمان جی ایچ کیو حملے میں ملوث ہیں، 3 ملزمان نے آرمی انسٹیٹیوٹ راولپنڈی پر حملہ کیا، 27 ملزمان نے کورکمانڈر ہاؤس لاہور پر حملہ کیا، 4 ملزمان ملتان اور 10 گوجرانوالہ گیریژن حملے میں ملوث ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 8 ملزمان آئی ایس آئی آفس فیصل آباد، 5 پی اے ایف بیس میانوالی اور 14 ملزمان چکدرہ حملے میں ملوث ہیں، 7 ملزمان نے پنجاب رجمنٹ سینٹر مردان پر حملہ کیا، 3 ملزمان ایبٹ آباد جبکہ 10 بنوں گیریژن حملے میں ملوث ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے 9 مئی کے واقعات کی تفصیلات ہمیں دے دی ہیں، آپ اپنی دیگر گزارشات سے پہلے ہدایات لے لیں۔
درخواست گزار کرامت علی کے وکیل فیصل صدیقی نے فل کورٹ کی درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی درخواست کو کیس کے مقصد سے توجہ ہٹانے کا مہرہ تصور نہ کیا جائے، فل کورٹ کا فیصلہ فوجی آمروں نے بھی تسلیم کیا ہے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق کیسز کو کم سے کم 9 ججز کے بینچ نے سنا ہے، سب سے پرانا فوجی عدالتوں سے متعلق کیس مصطفیٰ کھر کیس ہے، سپریم کورٹ کا تسلسل یہی رہا ہے کہ فوجی عدالتوں سے متعلق کیسز فل کورٹ نے سنے۔
انہوں نے کہا کہ فل کورٹ سے بینچ کی تشکیل پر اعتراض بھی ختم ہو جائے گا، درخواست میں واضح لکھا ہے کہ اس مقام پر فل کورٹ بنانے سے کیس متاثر نہیں ہو گا، شروع میں تمام درخواست گزار جلد فیصلہ چاہتے تھے کہ معلوم ہی نہیں تھا افراد کہاں ہیں، اٹارنی جنرل کے موکل سے کوئی امید نہیں لیکن یہ خود بہت مہربان ہیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے یقین دلایا ہے اس کیس کے دوران کسی سویلین کا فوجی ٹرائل نہیں ہو گا، عدالتی نظیر ہے کچھ ججز سماعت سے معذرت کر لیں تو بقیہ ججز کا فل کورٹ بنایا جا سکتا ہے، جو حکومت کی جانب سے بینچ پر اعتراضات کیے گئے ان سے کوئی تعلق نہیں، اس حکومت نے سپریم کورٹ کی مجرمانہ توہین کی ہے، 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت کی اور وہ فل کورٹ کا حصہ نہیں ہو سکتے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ 3 ججز نے کیس سننے سے معذرت نہیں کی، موجودہ کیس میں صرف ایک جج نے کیس سننے سے معذرت کی ہے، کیس سننے سے معذرت تو ذاتی وجوہات کی بنا پر کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بہتر ہو گا کہ 3 ججز کی معذرت کے بجائے کہیں کہ ایک جج نے معذرت کی، 2 نے منع کیا۔
جسٹس مظاہر نے کہا کہ آپ اس وقت فل کورٹ کا مطالبہ کر رہے ہیں جب آپ اپنی درخواست پر دلائل دے چکے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ وجوہات بیان کر چکا ہوں کہ پہلے اس کیس میں جلدی تھی اب نہیں ہے، عدالت سے درخواست ہے کہ میری درخواست پر غور کرے۔
Comments are closed.