فوجی آمریت، مقبول فیصلے کرنے والے سیاستدان اور پالیسی کا بحران: وہ ملک جو دنیا کی سپر پاور بنتے بنتے زوال کا شکار ہوا
فوجی آمریت، مقبول فیصلے کرنے والے سیاستدان اور پالیسی کا بحران: وہ ملک جو دنیا کی سپر پاور بنتے بنتے زوال کا شکار ہوا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
20 ویں صدی کے آغاز میں بیونس آئرس کو ’لاطینی امریکہ کے پیرس‘ کا نام دیا گیا
- مصنف, ویرونیکا سمنک
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ، ارجنٹینا
’ارجنٹینا نے 20ویں صدی کا آغاز دنیا کے سب سے امیر ملک کی حیثیت سے کیا تھا لیکن آج اس کی 40 فیصد آبادی غریب اور 10 فیصد حکومتی امداد پر گزارا کرتی ہے۔‘
یہ جملہ ارجنٹینا کے صدارتی امیدوار ہاویئر میلی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران بار بار دہرایا ہے جو ملک کے شہریوں کے ذہنوں میں موجود اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے مطابق ارجنٹینا جو کسی زمانے میں ایک سپر پاور بننے کے راستے پر گامزن تھا متعدد دہائیوں سے مسلسل معاشی بحران کا شکار ہے۔
ملک کے شاندار ماضی کو کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان میں سے مشہور ’بریڈ باسکٹ آف دی ورلڈ‘ یعنی دنیا کو خوراک فراہم کرنے والی ٹوکری ہے جو ایک صدی قبل کے اس ماڈل کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے تحت کاشکاری اور برآمدات کے امتزاج نے ارجنٹینا کو ایک امیر ملک بنا دیا تھا اور آج بھی ملک کی معیشت کا سب سے اہم سہارا ہے۔
پھر ایک نام ’لاطینی امریکہ کا پیرس‘ بھی ہے جو ملک کے دارالحکومت بیونس آئرس کے خوبصورت یورپی طرز تعمیر کی وجہ سے دیا گیا۔ تاہم اب یہ لقب ملک کی حقیقت کی عکاسی نہیں کرتا جہاں 56 فیصد بچے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ نام ماضی کے ایک ایسے سنہرے دور کی یاد دلاتے جو بہت سے لوگوں کے ذہن میں آج بھی زندہ ہے اور وہ اس دور کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ ہاویئر جیسے سیاست دانوں نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اس ماضی کے دور کو دوبارہ سے زندہ کریں گے۔
الٹرا لبرل ماہر معیشت نے اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اور جملہ بار بار دہرایا ہے: ’ارجنٹینا ایک بار پھر سے دنیا کی بڑی طاقت بن سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ضروری اصلاحات نافذ کریں تو پہلے 15 سال میں ہم اٹلی اور فرانس جیسے بن سکتے ہیں، 20 برسوں میں جرمنی جیسے اور 35 سال میں امریکہ جیسا ملک بن سکتے ہیں۔‘
عام شہریوں کو ایک شاندار اور خوشحال ماضی کی یاد دلانے اور اسے واپس لانے کا وعدہ کرنے والے یہ واحد سیاستدان نہیں ہیں۔
ارجنٹینا کے سابق صدر ماریسو ماکری نے کہا تھا کہ وہ ملک کو ایک ’نئے آسٹریلیا‘ میں بدل دیں گے۔ 20ویں صدی کے آغاز میں آسٹریلیا کا معاشی سفر ارجنٹینا جیسا ہی تھا لیکن ارجنٹینا کی معیشت اس سفر کو جاری نہ رکھ پائی اور اب بہت سے عام شہری آسٹریلیا کو ایک مثال سمجھتے ہیں جس کی پیروی کرنی چاہیے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ارجنٹینا دنیا کا سب سے دولتمند ملک تھا؟ اور اگر ایسا تھا تو پھر آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ ملک اب کرہ زمین پر سب سے زیادہ مہنگائی والا ملک بن گیا ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ارجنٹینا کی سالانہ افراط زر 138 فیصد ہے
پہلا نمبر؟
مختلف ممالک کی دولت کا موازنہ کرنا کافی پیچیدہ کام ہے لیکن ماہرین کی اکثریت مانتی ہے کہ جی ڈی پی ایک ایسا ذریعہ ہے جس کی مدد سے ایسا کرنا ممکن ہے۔
تاہم ارجنٹینا جیسے ممالک کا جی ڈی پی 20ویں صدی کے وسط میں ہی باقاعدگی سے سرکاری سطح پر ریکارڈ کیا جانے لگا تھا اور اس سے پہلے کے اعداد و شمار پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
ماہرین معیشت کے مطابق ایک قابل اعتماد ذریعہ ’میڈیسن پراجیکٹ ڈیٹا بیس‘ ہے جس کی مدد سے تاریخی معاشی اعداد و شمار کے ذریعے انسانیت کے آغاز سے جی ڈی پی ناپا جاتا ہے۔
یہ پراجیکٹ 2018 میں برطانوی ماہر معیشت اینگس میڈیسن نے تخلیق کیا تھا اور اب سے نیدرلینڈز کی گروننگن یونیورسٹی میں چلایا جا رہا ہے۔ اس پراجیکٹ کے مطابق سنہ 1896 میں ارجنٹینا دنیا کا سب سے دولت مند ملک تھا اور یہ مقام اسے 20ویں صدی کی پہلی دہائی تک حاصل رہا۔
تاہم اس پراجیکٹ میں استعمال ہونے والے طریقے پر بہت سے معاشی مؤرخین نے سوالات اٹھائے جس کے بعد 2020 میں نئے اعداد و شمار شائع ہوئے جس میں دنیا کے سب سے دولتمند ملک کا درجہ ارجنٹینا سے چھین لیا گیا اور 1896 میں اسے چھٹا نمبر دے دیا گیا۔
تاہم اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ارجنٹینا کا شمار دنیا کے سب سے دولتمند ممالک میں ہوتا تھا اور اسی کی وجہ سے پہلی جنگ عظیم سے پہلے اسے دنیا کے سب سے امیر 10 ممالک میں شامل کیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ارجنٹینا کا معاشی زوال شروع ہوا اور اب یہ ملک دنیا میں 66ویں نمبر پر موجود ہے۔
ارجنٹینا کتنا دولتمند تھا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
میڈیسن پراجیکٹ کے مطابق پہلی عالمی جنگ عظیم سے قبل، 1913 میں ارجنٹینا کا جی ڈی پی 6052 امریکی ڈالر تھا۔ ارجنٹینا کا جی ڈی پی امریکہ (10108 ڈالر)، برطانیہ (8212 ڈالر) اور آسٹریلیا (8220 ڈالر) سے کم تھا۔
لیکن ارجنٹینا کا جی ڈی پی سابق نو آبادیاتی طاقت سپین سے دو گنا تھا جو اس زمانے میں 3067 ڈالر تھا۔ اس وقت جرمنی کا جی ڈی پی 5815، فرانس کا 5555 اور اٹلی کا جی ڈی پی 4057 ڈالر تھا۔ دوسری جانب ایشیا کے وہ ملک جو آج معاشی دنیا پر راج کر رہے ہیں جیسا کہ چین اور جاپان کا جی ڈی پی اس وقت بالترتیب 985 اور 2431 ڈالر تھا۔
لاطینی امریکہ کے باقی ممالک کا جی ڈی پی ارجنٹینا سے کافی کم تھا۔ تو پھر ارجنٹینا نے دنیا میں اپنی یہ پوزیشن کب اور کیسے کھونا شروع کی؟
زوال کے 100 سال
اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو علم ہوتا ہے کہ گذشتہ 100 سال سے ارجنٹینا بتدریج عالمی رینکنگ میں نیچے جاتا رہا ہے۔
یعنی اگرچہ دنیا کے تمام ممالک بشمول ارجنٹینا کی دولت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا، یہ لاطینی ملک 20ویں صدی میں ایک دولتمند ملک کے درجے سے آہستہ آہستہ تنزلی کرتا ہوا نچلی پوزیشن پر آ گیا۔
چند لوگ ارجنٹینا کو ایسی واحد مثال قرار دیتے ہیں جب ایک ملک ترقی یافتہ بن جانے کے بعد ترقی پذیر ممالک میں شامل ہو گیا۔ چند لوگ ارجنٹینا کے اس معاشی سفر کی مثالیں دے کر یہ سمجھاتے ہیں کہ کیا نہیں کرنا چاہیے۔
سنہ 2014 میں برطانوی میگزین اکانومسٹ نے ارجنٹینا کے بارے میں ایک مضمون شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ دنیا کے باقی ملک ارجنٹینا کے ایک صدی کے زوال سے کیا سیکھ سکتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہTHE ECONOMIST
اس مضمون میں ارجنٹینا کے معاشی زوال کا ذمہ دار ’پیرونزم‘ کو قرار دیا گیا۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جس کے بانی ہوان ڈومنگو پیرون اور ان کی اہلیہ ایوا ڈوئرتے تھیں۔ سنہ 1946 کے بعد سے اس سیاسی تحریک نے ہی ملک پر زیادہ عرصہ حکومت کی۔
اکانومسٹ کے مضمون کے مطابق اس تحریک نے معاشی علم سے نابلد ایسے سیاستدانوں کو جنم دیا جو پاپولزم پر یقین رکھتے تھے اور انھوں نے ہی ارجنٹینا کو معاشی بربادی کی راہ پر گامزن کیا۔
ارجنٹینا کے لبرل طبقے کی اکثریت اس نظریے کی حمایت کرتی ہے۔ لیکن کیا یہ نظریہ درست ہے؟
پیرونزم
ماہر معیشت فواسٹو سپوٹورنو نے ارجنٹینا کے قیام کے بعد سے 1810 سے 2018 تک کے معاشی اعداد و شمار اکھٹے کیے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ارجنٹینا کی معیشت 1930 کے بعد سست روی کا شکار ہوئی۔‘ یہ وہ وقت تھا جب لاطینی امریکہ کے اس ملک کی معیشت کو دہری چوٹ لگی۔ پہلا وہ بین الاقوامی مالیاتی بحران جو وال سٹریٹ سٹاک مارکیٹ کی ریکارڈ مندی سے پیدا ہوا اور دوسرا ملک کا پہلا فوجی مارشل لا۔
انھوں نے کہا کہ ’اعداد و شمار سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ معاملات پیرونزم کے بعد پیچیدہ ہونا شروع ہو گئے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ 1946 تک ارجنٹینا ایک ترقی یافتہ معیشت کا حامل تھا، ’رہن سہن کے اعتبار سے فی کس آمدن کے اعتبار سے اور معاشی تری کے حساب سے۔ یعنی پیرونزم کی آمد سے پہلے تک۔‘
ماہر معیشت فواسٹو سپوٹورنو نے کہا کہ ’تب مہنگائی ہونا شروع ہوئی۔‘ ارجنٹینا کی میعشت کا سب سے بڑا مسئلہ۔
اگرچہ ملک میں اس سے پہلے بھی قیمتوں میں اضافہ ہوتا تھا لیکن فواسٹو کے مطابق پہلی بار اچانک 20 فیصد مہنگائی ہوئی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پیرون اور ان کی بیوی نے ایک مقبول تحریک کی بنیاد رکھی جس نے گزشتہ 78 سالوں میں سے 40 سال حکومت کی ہے
لیکن اچانک مہنگائی کی وجہ کیا تھی؟ ماہر معیشت کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سرکاری خرچ کا بڑھنا تھا۔ ارجنٹینا میں سرکاری خرچ جی ڈی پی کا آٹھ عشاریہ پانچ فیصد تھا جو 1940 کے وسط کے بعد 12 فیصد تک جا پہنچا۔
فواسٹو سپوٹورنو نے وضاحت کی کہ ’پیرون کو جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سے بہت سے ان کی آمد سے قبل ہی پیدا ہو چکے تھے اور دوسری عالمی جنگ سے جنم لینے والے عالمی حالات نے صورت حال کو مذید بگاڑ دیا۔‘
’جن یورپی ممالک کو ارجنٹینا زرعی مصنوعات برآمد کرتا تھا انھوں نے ادائیگی میں تاخیر کرنا شروع کر دی۔ یوں دہائیوں تک اضافی پیسہ رکھنے والا ملک، یعنی خرچ سے زیادہ آمدن، سنہ 1940 میں بجٹ خسارے کا شکار ہوا۔‘
فواسٹو سپوٹورنو نے کہا کہ ’اس خسارے کو ماضی کی طرح بیرونی مدد سے پر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کی وجہ بھی دوسری عالمی جنگ تھی۔ ان حالات کے باوجود پیرون نے حکومتی خرچے کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔‘
فواسٹو سپوٹورنو کہتے ہیں کہ ارجنٹینا نے آمدن بڑھائے بغیر خرچہ کرنا شروع کر دیا۔ ’پیرون نے مرکزی بینک کو زیادہ نوٹ چھاپنے کا کہا جس سے مہنگائی نے جنم لیا۔‘
ماہر معیشت کہتے ہیں کہ بعد کی حکومتوں نے بھی اس مسئلے کا حل نہیں نکالا اور آمدن سے زیادہ خرچہ کرتے رہے۔
’ہر کسی نے ایک جیسے حل کا استعمال کیا یعنی زیادہ نوٹ چھاپے یا قرضہ لیا۔‘ اور یوں ارجنٹینا دنیا میں سب سے زیادہ مہنگائی اور سب سے زیادہ ڈیفالٹ کرنے والا ملک بن گیا۔
فوج
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقی معاشی تباہی فوجی حکومت کی وجہ سے ہوئی
یہ بات بھی سچ ہے کہ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنا ناانصافی ہے کہ ارجنٹینا نے معاشی سفر کی سمت پیرونزم کی وجہ سے کھو دی۔
جن عالمی طاقتوں کے ساتھ ارجنٹینا کا شمار ہوتا تھا ان سب کو امریکی مارشل پلان کا فائدہ ہوا جس کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی طاقتوں نے معاشی بحالی کے سفر کا آغاز کیا۔
دوسری جانب ارجنٹینا، جس نے جرمنی اور جاپان کیخلاف جنگ میں شامل ہونے میں دیر کی تھی، کو اس یورپی منصوبے میں شامل نہیں کیا۔
تاہم یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سنہ 1955 میں حکومت کا تختہ الٹائے جانے سے قبل پیرون مہنگائی کو چار فیصد سے کم کی سطح پر لا چکے تھے جس کے بعد اس سیاسی تحریک پر 18 سال پابندی رہی۔
پروفیسر یوجینیو ڈیاز بونیلا جارج واشنگٹن یونیورسٹی کی ماہر معیشت ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ارجنٹینا اور آسٹریلیا کے معاشی سفر کا موزنہ کیا جائے، کیوں کہ دونوں ممالک کو ایک جیسے عالمی حالات کا سامنا تھا اور دونوں کو ہی مارشل پلان میں شامل نہیں کیا گیا، تو دیکھا جا سکتا ہے کہ ارجنٹینا کا معاشی زوال پیرونزم کے ساتھ شروع نہیں ہوا بلکہ چند دہائیوں بعد ملک کی آخری فوجی حکومت کی آمد کے ساتھ ہوا جس نے نیو لبرل پالیسیاں متعارف کروائیں۔‘
’ہم دیکھتے ہیں کہ دونوں ممالک سنہ 1900 سے 1975 تک ایک ہی مقام پر تھے لیکن 1975 کے فوجی مارشل لا کے بعد تبدیلی کا آغاز ہوا۔‘
ارجنٹینا کے مورخ ایزیکوئیل اڈیموسکی بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں انھوں نے لکھا ہے کہ 1945 کے بعد کے 30 سال میں ارجنٹینا نے اپنی آمدن بڑھائی۔
’تمام تر مسائل کے باوجود ارجنٹینا کی معیشت مغربی طاقتوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔‘
انھوں نے لکھا کہ 1975 میں مقامی معیشت اچانک زوال پذیر ہوئی اور ’کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب ملک کے زوال کا آغاز ہوا۔‘
بنیادی مسئلہ
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فواسٹو سپوٹورنو کہتے ہیں کہ ارجنٹینا نے آمدن بڑھائے بغیر خرچہ کرنا شروع کر دیا۔ ’پیرون نے مرکزی بینک کو زیادہ نوٹ چھاپنے کا کہا جس سے مہنگائی نے جنم لیا۔‘
تاہم ایک نکتے پر تمام تجزیہ کار متفق ہیں۔ مخصوص حکومتوں کی غلطیوں سے دور ملک کا بنیادی مسئلہ ادارہ جاتی استحکام کی عدم موجودگی ہے جس کی وجہ سے 20ویں صدی میں چھ بار فوجی حکومتیں آئیں اور حال ہی میں ملک میں جمہوریت کے 40 سالہ تسلسل کا جشن منایا گیا۔
معاشیات کے پروفیسر روک سپرک کا کہنا ہے کہ ’یہ کمزوری آغاز سے ہی سامنے آ چکی تھی۔‘ 2019 میں شائع ہونے والے ’ارجنٹینا کا عروج اور زوال‘ نامی تحقیقی مقالے میں انھوں نے لکھا کہ ’امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی طرح ارجنٹینا کبھی مکمل طور پر جمہوری نظام نہیں بن سکا جہاں قانون کی حکمرانی ہو۔‘
’جب 1930 میں فوج نے آئینی نظام ختم کیا تو ملک ایک ایسے راستے پر چل پڑا جس کے دوران آمریت اور جمہوریت کا مقابلہ ہوتا رہا اور ادارے مستحکم نہیں ہو پائے۔ اور اسی وجہ سے پاپولسٹ رہنما پیدا ہوئے۔‘
فواسٹو سپوٹورنو کہتے ہیں کہ اسی جمہوری عدم استحکام کی وجہ سے ارجنٹینا نے اپنا مقام کھو دیا۔ ’اگر ہر کچھ عرصے بعد حکومت کا تختہ الٹا دیا جائے گا تو سرمایہ کاری یقینا متاثر ہو گی۔‘
ان کے مطابق ارجنٹینا کا زوال اس وقت شروع ہوا جب دو چیزوں کا احترام ختم ہو گیا: ’اداروں کا احترام اور دوسرا ریاست کی آمدن اور خرچ کے درمیان بنیادی تعلق کا احترام۔‘
’کمزور اداروں کی وجہ سے حکومتیں شارٹ کٹ تلاش کرتی رہیں اور اسی لیے متعدد معاشی بحران پیدا ہوئے۔ 1860 سے 1930 کے درمیان ملک میں استحکام تھا۔ اس کے بعد زیادہ خرچے اور شارٹ کٹ دھونڈنے کے رواج کا آغاز ہوا۔‘
پینڈولم
ایک اور وجہ بھی ہے جس کی نشاندہی متعدد ماہرین نے کی ہے۔ ارجنٹینا ایک سیاسی پینڈولم تو رہا ہی ہے جس میں کبھی جمہوریت تو کبھی آمریت رہی۔ لیکن ملک کی معاشی پالیسی بھی ایک نہیں رہی اور قومیت پسندی اور لبرلزم، فری مارکیٹ جیسے تصورات کے درمیان گھومتی رہی۔ ایسا ایک ہی جماعت کے مختلف ادوار حکومت کے دوران بھی ہوتا رہا۔
ولیریا ارزا اور وینڈی برو نے 2021 میں ایک تحقیق شائع کی جس کا نام ’ارجنٹینا پینڈولم ان نمبرز‘ تھا۔ اس کے مطابق دیکھا گیا کہ ملک کی معاشی پالیسی کتنی بار بدلی اور انھوں نے جانا کہ 1955 سے 2018 کے درمیان 30 بار معاشی سمت کے تعین میں تبدیلی ہوئی اور ان میں سے 16 تبدیلیاں کافی بڑی تھیں۔
اس تحقیق میں ارجنٹینا کی معاشی پالیسی میں تسلسل نہ ہونے کے دیگر شواہد بھی دیے گئے۔ اسی دور میں وزرائے خزانہ اوسطا 13 ماہ بعد تبدیل کر دیے جاتے۔
Comments are closed.