بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

فل کورٹ بنانے کے معاملے پر آج فیصلہ ہوگا یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتا، چیف جسٹس

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہٰی کی درخواست پر سماعت  تقریباً ڈیڑھ گھنٹے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوگئی، چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کے معاملے پر آج فیصلہ ہوگا یا نہیں، کچھ نہیں کہہ سکتا۔

چوہدری شجاعت حسین اور پیپلز پارٹی کی فریق بننے کی درخواست منظور کرلی گئی، اس سے قبل سپریم کورٹ نے فل کورٹ پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر اور پرویز الہٰی کی طرف سے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فل کورٹ بنانے کے لیے مزید قانونی وضاحت کی ضرورت ہے، دلائل سن کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔

وزیرداخلہ نے کہا کہ عدالت کے تریسٹھ اے سے متعلق تین فیصلوں میں تضاد ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ میرٹ پر دلائل کون دے گا؟

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ کل بار کونسل کی آرٹیکل 63 اے پر نظر ثانی اپیل سن لیں۔

جواب میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمیں مزید دلائل سننے ہیں، مزید وضاحت چاہتے ہیں کہ کیوں لارجر بینچ یا فل کورٹ بنایا جائے؟

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ فل کورٹ پر ہی بات کرنے کی استدعا کرنے کی ہدایت ملی تھی، اپنے موکل سے ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے میرٹ پر دلائل کے لیے ہدایات لینے کا وقت مانگ لیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ شاید چاہتے ہیں آپ کے کہنے پر فل کورٹ بنا دیں تو ٹھیک ہے ورنہ نہیں، میرٹ پر دلائل سن کر فیصلہ کریں گے کہ فل کورٹ بنانا ہے یا نہیں۔

وزیر قانون نے کہا کہ اس بات پر وضاحت پہلے سے ہے کہ فل کورٹ بننا چاہیے، جس کے جواب میں جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ فوری شاپنگ کرنا چاہتے ہیں، اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ فوری شاپنگ نہیں،ہمیں کسی پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ این آر او کیس فل کورٹ نے سنا تھا کیونکہ وہ آئینی مسئلہ تھا۔

عرفان قادر نے کہا کہ جب بار بار ایک ہی جج بینچ میں آتے ہیں تو اس الزام کو فل کورٹ کے ذریعے مسترد کیا جا سکتا ہے، یہ بات سوشل میڈیا پر اور زبان زد عام ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس اعجازالاحسن کی مجھ سے ناراضگی اُس دن اور آج بھی محسوس ہوئی، کاش نہ ہوتی، موجودہ بینچ کی نیوٹرلٹی پر کوئی ابہام نہیں، پر الزامات کو رد کرنے کے لیے فل کورٹ ضروری ہے، ہفتے کے روز ہونے والی سماعت پر 11:30 بجے حکم دیا گیا تھا اور میری کلائنٹ سے ایک گھنٹے بعد بات ہوئی۔

وکیل دوست مزاری نے کہا کہ عدالت نے اپنے حکم میں لکھا کہ میں تیاری سے نہیں آیا تھا، تیاری نہ کرکے آنے کے الفاظ حذف کیے جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ فل کورٹ کے لیے دلائل پر تیاری کر کے آئے ہیں تو ٹھیک ورنہ منصور اعوان کو سن لیتے ہیں، ہمارے ملک میں گورننس کا بہت بڑا مسئلہ ہے، ہم نے وفاق کے معاملے پر ازخود نوٹس لے کر دن اور شام میں سن کر فیصلہ کیا، وفاق کے معاملے پر ہماری رائے تھی کہ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی کی، موجودہ کیس میں ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا، اس کیس کو لمبا نہیں لیکن چھوٹا کیا جا سکتا ہے۔

دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں نے کبھی اتنے لمبے دلائل نہیں دیے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیس میں ایک ہی سوال ہے کہ پارٹی سربراہ ہدایت دے سکتا ہے یا نہیں، آپ اس سوال کا جواب دے چکے ہیں کہ پارٹی سربراہ ہدایات دے سکتا ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ عدالتی فیصلے کی روشنی میں ہی وزیر اعلیٰ کا دوبارہ الیکشن ہوا، اگر منحرف ارکان کے ووٹ مسترد کرنے کا فیصلہ بدل گیا تو دوبارہ پولنگ کی ضرورت نہیں ہوگی، کیس کی بنیاد ہی عدالتی فیصلہ ہے جس کی نظرثانی پر پہلے فیصلہ ضروری ہے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ عدالت کی بات درست تھی کہ سیاسی لوگ آپس میں فیصلے کریں تو ملک کے حالات مختلف ہوسکتے ہیں، اگر عدلیہ متفق ہو جائے تو بھی کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں، سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے میں تضاد ہے، ایسا لگتا ہے کہ عدالت دباؤ میں ہے، یہ نہیں سمجھیے گا کہ میں سپریم کورٹ کی بے توقیری کر رہا ہوں، میرے لیے بھی یہ عدالت اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کے لیے، ہم نے آنا ہے اور چلے جانا ہے لیکن ادارے برقرار رہیں گے، آپ سیاستدانوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان میں اختلاف سے ملک میں ہنگامہ ہو رہا ہے، اگر ججز خود بھی یکجا ہوکر فل کورٹ بنالیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

سماعت میں وقفے سے قبل سابق صدر سپریم کورٹ بار لطیف آفریدی نے عدالتِ عظمیٰ سے تمام بار کونسلز کی جانب سے فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کیا۔

جسٹس (ر) مقبول باقر نے کہا کہ مخصوص بینچ کا ہی مقدمات سننا عدلیہ کی غیر جانبداری کے لیے نقصان دہ ہے، سمجھ نہیں آتی فل کورٹ بننے سے کسی کو کیا نقصان ہو جائے گا؟

سابق صدر سپر یم کورٹ بار لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ دستیاب ججز پر مشتمل فل کورٹ تشکیل دے کر تمام مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے دورانِ سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب کا بہت احترام ہے، آپ کے مشکور ہیں کہ معاملہ ہمارے سامنے رکھا، آفریدی صاحب! یہ کیس ہمارے آرٹیکل 63 اے کی رائے کی بنیاد پر ہے، ہم فریقین کو سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، ہم یک طرفہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ 10 سابق صدور کے کہنے پر فیصلہ نہیں کر سکتے، دوسری طرف کو سننا بھی ضروری ہے۔

دورانِ سماعت پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ کیس میں فریق بننے کی درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ذرا ابتدائی کیس کو سننے دیں، باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے، آپ کو بھی سنیں گے لیکن ترتیب سے چلنا ہو گا، آپ بیٹھیں، امید ہے کہ آپ کی نشست ابھی بھی خالی ہو گی۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سیٹ تو آنی جانی چیز ہے، سیٹ کا کیا مسئلہ ہے۔

دورانِ سماعت صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مناسب ہو گا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح پر نظرِثانی کی درخواست پہلے سن لی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اتنی کیا جلدی ہے، بھون صاحب پہلے کیس تو سن لیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں بھی بار کا سابق صدر ہوں، بار کے صدور کا اِن معاملات سے تعلق نہیں ہونا چاہیے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر نے عدالت کا 23 جولائی کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کا یہ تاثر کیسے ملا کہ پارلیمانی پارٹی یا ہیڈ کی بات ہوئی؟

وکیل عرفان قادر نے جواب دیا کہ یہ سوال تو آپ کا ہے جس پر یہ خصوصی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، قانونی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا مؤقف الگ ہو اور پارٹی ہیڈ کا مختلف تو پھر کیا ہو گا؟

عرفان قادر کا کہنا ہے کہ واضح ہونا چاہیے کہ جس قانونی سوال پر سماعت ہو رہی ہے وہ کیا ہے، جس سوال پر سماعت ہو رہی وہ بتانا میرا کام نہیں، عدالت تعین کرے، معاملہ شاید پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات کا ہے۔

چیف جسٹس نے عرفان قادر کو آئین کی کتاب سے آرٹیکل 63 اے پڑھنے کی ہدایت کی اور کہا کہ پارٹی ہیڈ اور پارلیمانی پارٹی دونوں کا آرٹیکل 63 اے میں ذکر موجود ہے۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ میں بہت زیادہ کنفیوژن کا شکار ہوں، بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا سوال ہے۔

جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ عدالت کو سن تو لیں۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ہم آرام سے اس معاملے کو سمجھ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ پہلے سنیں تو ہم کیا کہہ رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ کو سننے میں مشکل پیش آ رہی ہے، اگلی بار عدالت کی بات کاٹی تو آپ واپس اپنی کرسی پر ہوں گے۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آپ جتنا بھی ڈانٹ لیں میں برا نہیں مناؤں گا۔

وکیل عرفان قادر نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 14 شخصی وقار اور جج کے وقار کی بات کرتا ہے، جج کو حق ہے کہ وہ وکیلوں کو ڈانٹے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ سے احترام سے بات کر رہے ہیں، آپ آرٹیکل 63 اے کو ہمارے ساتھ پڑھیں، ہم کسی کو ڈانٹ نہیں رہے، محترم کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں۔

جس پر عرفان قادر نے کہا کہ آپ محترم کہیں گے تو میں اس سے بھی زیادہ محترم کہوں گا، عدالت جو بھی سوال کرے گی جواب دوں گا، آپ ناراض ہو گئے تھے، میں عدالت کو ناراض کرنے نہیں آیا۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کہ ہم ناراض نہیں ہیں، آپ دلائل دیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا ڈکلیئریشن اور پارلیمانی پارٹی کو ہدایت ایک ہی شخص دے سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں ہے۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ آئین میں سیاسی جماعت کے حقوق ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ڈائریکشن دیتا ہے، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دے کر رولنگ دی، جو نقطہ آپ اٹھانا چاہ رہے ہیں وہ ہم سمجھ چکے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے عرفان قادر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ مناسب ہوگا اب کسی اور وکیل کو موقع دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل سے پوچھا کہ ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کے جس نقطے کا حوالہ دیا وہ بتائیں۔

وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ مسترد ہوجائے گا، یہی نقطہ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی ہدایت اور ڈکلیئریشن دو الگ الگ چیزیں ہیں، کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ہوسکتا ہے؟

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں میں درج ہے کہ پارٹی سربراہ کا کردار پارٹی کو ڈائریکشن دینا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سوال کا ڈائریکٹ جواب دیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ چودہویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی گئی، انہوں نےحمزہ شہباز کے وکیل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ آرٹیکل 63 اے پڑھیں، آرٹیکل 63 اے کے اصل ورژن میں دو تین زاویے ہیں۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر موجود ہے، جسٹس عظمت سعید کے فیصلے کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلے کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارٹی پالیسی میں ووٹ کاسٹ کرنے سے متعلق دو الگ اصول ہیں، پہلے پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے اختیارات میں ابہام تھا، ترمیم کے بعد آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کو ہدایت کا اختیار ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے حمزہ کے وکیل سے سوال کیا کہ یہ بتائیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے کون سے حصے پر انحصار کیا؟

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے پر فیصلے کے پیرا تھری پر انحصار کیا، جسٹس عظمت سعید کا بینچ 8 رکنی تھا جس نے پارٹی سربراہ کے اختیارات کا فیصلہ دیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کا فیصلہ من وعن میرے ذاتی خیال میں ہم پر بائنڈنگ نہیں۔

چیف جسٹس نے حمزہ شہباز کے وکیل سے پوچھا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی بھی پارٹی سربراہ کی ہی ہدایات پر چلتی ہے؟

حمزہ شہباز کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر فیصلہ ماضی کی عدالتی نظیروں کے خلاف ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر فل کورٹ تشکیل دے، اگر 5 رکنی بینچ کو لگتا ہے کہ ماضی کا عدالتی فیصلہ غلط تھا تو فل بینچ ہی فیصلہ کر سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ عدالتی فیصلہ خلافِ آئین قرار دینے کے نکتے پر رولز موجود ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے پر مختصر حکم نامے نے ابہامات کو جنم دیا، آرٹیکل 63 اے کے خلاف دائر نظرِ ثانی کی درخواستوں میں صرف ووٹ مسترد ہونے کا نکتہ ہے، پارلیمانی پارٹی ہدایت کیسے دے گی یہ الگ سوال ہے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہدایت دینے کا طریقہ پارٹی میٹنگ ہوسکتی ہے یا پھر بذریعہ خط۔

حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میرے پاس 4 سیاسی جماعتوں کی مثالیں موجود ہیں جن کے ہیڈ اسمبلی کا حصہ نہیں، پارلیمانی پارٹی اپنی پارٹی کے سربراہ سے ہی منسلک ہوتی ہے، رولنگ دینے کی وجوہات بتانا چاہتا ہوں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی کو ووٹ کا اختیار دینے کی بھی وجہ ہو گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹری پارٹی کا اختیار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، آرٹیکل 63 اے کہتا ہے کہ جو رکن پارلیمانی پارٹی کی ہدایات نہ مانے اس کے خلاف ڈکلیئریشن دیا جاتا ہے، میرے دماغ میں کوئی ابہام نہیں کہ کس نے ڈائریکشن دینی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت خود وہی ہوتی ہے جو پارلیمانی پارٹی ہوتی ہے، پارٹی سربراہ کا کردار بہت اہم ہے، منحرف رکن کےخلاف پارٹی سربراہ ہی ریفرنس بھیجنے کا فیصلہ کرتا ہے، ووٹ کس کو ڈالنا ہے، ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی اور ریفرنس سربراہ بھیجے گا۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ جے یو آئی ف پارٹی سربراہ کے نام پر ہے، مولانا فضل الرحمٰن پارلیمانی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں، عوام میں جوابدہ پارٹی سربراہ ہوتا ہے، پارلیمانی پارٹی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت میں واضح ہو گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ڈکٹیٹر شپ ختم ہونا ضروری ہے، ایک سینئر پارلیمانی لیڈر نے صدارتی ریفرنس کے دوران پارٹیوں میں آمریت کی شکایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو اپنے ارکان کو سننا ہو گا، بیرون ملک بیٹھے سیاسی لیڈر پارلیمانی ارکان کو ہدایات دیا کرتے تھے، آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمانی پارٹی کو مضبوط کیا گیا، پارلیمانی پارٹی کی بھی اپنی منشا ہوتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے ہی فیصلے پر انحصار کر کے ووٹ مسترد کیے، آپ اگر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کر رہے ہیں تو آپ نے آرٹیکل 63 اے کا فیصلہ تسلیم کر لیا، ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے آرٹیکل 63 اے کے فیصلے کو قبول کر کے ہی اس پر انحصار کیا، بس اب یہ تعین ہونا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو صحیح سے سمجھا یا نہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمانی معاملات میں پارلیمانی پارٹی کا بااختیار ہونا ضروری ہے، پارٹی سربراہ کی آمریت برقرار رہنے سے موروثی سیاست کا راستہ بند نہیں ہو گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ق لیگ ارکان نے کس کی ہدایات کے خلاف ووٹ دیا تھا؟ عوام جسے منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں ان ارکان کے پاس ہی مینڈیٹ ہوتا ہے۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آ گئے، ججز نے اعظم نذیر تارڑ کو بیٹھنے کا کہہ دیا۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اہم ہدایات ملی ہیں ان سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہدایات سے آگاہ اپنے وکیل کو کریں، برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی تشریح درست ہے؟ اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہو سکتے۔

’’کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟‘‘

جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟

جس پر وکیل منصور اعوان نے کہا کہ اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق خط ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا حصہ تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس کے دوران موصول ہوا؟

وکیل منصور اعوان نے جواب دیا کہ میڈیا پر رپورٹ ہو چکا تھا کہ چوہدری شجاعت نے خط اجلاس سے پہلے ڈپٹی اسپیکر کو بھیجا تھا۔

وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ منصور اعوان نوجوان وکیل ہیں، ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے، تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس سے پہلے مل گیا تھا۔

عدالت نے منصور اعوان کو وزیرِ قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا اور چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں۔

جسٹس منیب نے سوال کیا کہ آپ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے وکیل ہیں، وفاقی وزیرِ قانون سے کیسے ہدایات لے سکتے ہیں؟

چیف جسٹس نے منصور اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے پہلے انتخاب میں پی ٹی آئی کو ہدایات عمران خان نے دی تھیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کی ہدایات پر ارکان کو منحرف قرار دیا۔

منصور اعوان نے عمران خان کی جانب سے ایم پی ایز کو دی گئی ہدایت بھی عدالت میں پیش کر دی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پنجاب اسمبلی کے منحرف اراکین کا کیس مختلف تھا، یہاں تمام 10 ممبران نے ایک ہی امیدوار کو ووٹ دیا، ق لیگ کے کسی رکن نے شکایت نہیں کی کہ پارلیمانی پارٹی اجلاس میں کچھ اور ہدایات دی گئیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن میں ارکان کا مؤقف تھا کہ انہیں پارٹی ہدایت نہیں ملیں، موجودہ کیس میں ارکان کہتے ہیں کہ پارلیمانی پارٹی نے پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا تھا، ق لیگ کے پارلیمانی پارٹی اجلاس اور ہدایت پر کوئی تنازع نہیں، کسی فریق نے ق لیگ کے اجلاس کو متنازع نہیں کہا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی اجلاس کا فیصلہ تبدیل کر سکتا ہے؟

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کےخلاف ووٹ دیا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارٹی پالیسی کا مطلب پارلیمانی پارٹی کی ہدایات ہیں۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ یہ درست ہے کہ پارٹی پالیسی ہی پارلیمانی پارٹی کی ہدایت ہوتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ ہولڈ آن ہولڈ آن، بات پوری ہونے دیں، اتنی جلدی کیا ہے۔

وکیل منصور اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اپیل میں منحرف ارکان کی اپیلیں منظور کر لیں تو کیا ہوگا؟ اس سے یہ ہوگا کہ 25 نکالے گئے ووٹ دوبارہ شامل کرنا پڑیں گے، اس لیے استدعا ہے اس نقطے سے متعلقہ مقدمات کو یکجا کر کے سنا جائے۔

حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کے دلائل مکمل ہو گئے۔

چوہدری شجاعت حسین کے وکیل صلاح الدین روسٹرم پر آ گئے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے وکیل صلاح الدین کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ کی حد تک دلائل دیں۔ 

چیف جسٹس نے چوہدری شجاعت کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو ابھی کیس میں فریق نہیں بنایا گیا۔

وکیل چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ جماعت بھی میری ہے اور خط بھی میرا ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پڑھ کر سنائی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر یہ خیال کیا جائے کہ ڈپٹی اسپیکر نے غلطی کی تو صحیح کیا ہو گا؟

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے مختصر رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ نہیں دیا، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے متعلق تفصیلی وجوہات میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا حوالہ دیا۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 63 اے پر بھی انحصار کیا ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل علی ظفر کو عدالتی نظائر دینے سے روک دیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کو کیس کے میرٹس پر نہیں سن رہے، یہ بتائیں کہ فل کورٹ بنانا چاہیے یا نہیں؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے، فل کورٹ تشکیل دینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، پارٹی سربراہ کو پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلیئریشن دینی ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے پر عدالت پہلے ہی مفصل سماعتوں کے بعد رائے دے چکی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ 25 سال میں فل کورٹ صرف 3 یا 4 کیسز میں بنا ہے، گزشتہ برسوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہو چکی ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں الیکشن کمیشن میں منحرف ارکان کے کیس میں وکیل تھا، الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ پارٹی پالیسی زبان زدِعام تھی، الیکشن کمیشن کے فیصلے کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پرویز الہٰی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن فیصلے کے خلاف اپیل اس کیس کے ساتھ نہیں سنی جاسکتی، منحرف ارکان کی نشستوں پر الیکشن ہو چکا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے 5 دن میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کے کیس کا فیصلہ کیا تھا، فل کورٹ کے فیصلے میں وقت لگے گا اور اتنے دن ملک کا سب سے بڑا صوبہ بحران کا شکار نہیں رہ سکتا، 5 رکنی لارجر بینچ کو ہی آرٹیکل 63 اے پر نظرِثانی درخواستیں سننی چاہئیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس منیب اختر کے سوال کا جواب دیں کہ چوہدری شجاعت کا خط کب اراکین تک پہنچا؟

وکیل علی ظفر جواب دیا کہ چوہدری شجاعت حسین کا خط ق لیگ کے اراکین تک نہیں پہنچا تھا۔

سپریم کورٹ میں چوہدری پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہو گئے۔

اس سے قبل کورٹ روم نمبر ون میں جانے سے روکنے پر وکلاء اور پولیس میں تلخ کلامی ہوئی۔

پولیس کی جانب سے سپریم کورٹ بار کا کارڈ رکھنے والے وکلاء کو جانے کی اجازت دی گئی۔

اسد عمر اور عمر ایوب کو کورٹ روم نمبر ون کی طرف جانے کی اجازت دے دی گئی۔

سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، کمرۂ عدالت نمبر ایک کے باہر بھی پولیس تعینات کی گئی، اس کمرے میں صرف کیس کے فریقین داخل ہو سکتے ہیں۔

میڈیا سے رجسٹرڈ بیٹ رپورٹرز کو بھی کمرۂ عدالت نمبر ایک میں داخلے کی اجازت ہے، سپریم کورٹ کے روم نمبر 6 اور 7 میں اسپیکرز کے ذریعے عدالتی کارروائی سنی جا سکے گی۔

وزیِر خارجہ بلاول بھٹو کا ذاتی سیکیورٹی اسٹاف سپریم کورٹ پہنچ گیا اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللّٰہ کا سیکیورٹی اسٹاف بھی سپریم کورٹ آ گیا ہے۔

سپریم کورٹ میں پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے متعلق اہم کیس کی سماعت میں آج بڑے سیاسی رہنما سماعت کے دوران موجود ہیں۔

پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، اسد عمر، فواد چوہدری، شیریں مزاری، عمر ایوب، بابر اعوان، پرویز خٹک اور عامر کیانی سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔

اختر مینگل، اسلم بھوتانی، ن لیگ کے شاہد خاقان عباسی، خرم دستگیر، رانا ثناء اللّٰہ، اعظم نذیر تارڑ، احسن اقبال، سعد رفیق اور امیر مقام بھی سپریم کورٹ آئے ہیں۔

ایاز صادق، عطاء تارڑ، ملک احمد خان، ق لیگ کے چوہدری شجاعت، سالک حسین اور طارق بشیر چیمہ بھی عدالت میں موجود ہیں۔

سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون کا کہنا ہے کہ ملک کو موجودہ انتشار سے بچانے کے لیے فل کورٹ بیٹھنا چاہیے، یہ فیصلہ سسٹم کے لیے ہے، آئین کی پاسداری کے لیے ہے، اس معاملے کو فل کورٹ میں ہی سیٹل ہونا ہے۔

احسن بھون نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ ہونا چاہیے، یہ کسی شخص یا پارٹی کا معاملہ نہیں، ریاست کا معاملہ ہے۔

فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 184 کے نیچے عدالت کو اختیار ہے کہ وہ ایسا کیس سن سکتے ہیں، ہم نے عدالت میں درخواست دی کہ بطور پارٹی ہمیں سنا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم بھی متاثر ہونے والی جماعت ہیں، ہمیں بھی سنا جائے، جو بھی فیصلہ آئے قانون اور آئین کی رو کے مطابق ہو۔

فاروق نائیک کا یہ بھی کہنا ہے کہ جو بھی تشریح کی جائے گی اس میں باہر سے کوئی چیز داخل نہیں کی جا سکتی، ہمیں بھی پارٹی بنایا جائے، اس کی بھی درخواست دی تھی، آج سنوائی ہے۔

سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے کہا کہ پلان اے اگر کامیاب ہو جاتا ہے تو ملک آگے بڑھے گا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ رہے تو معاملات ٹھیک چلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پلان بی تب آتا ہے جب پلان اے ناکام ہو جاتا ہے، مسلم لیگ ن نے کوئی نہ کوئی پلان بی بھی تشکیل دے رکھا ہو گا، عمران خان کو چاہیے اب سکون سے رہیں، جس کے ووٹ زیادہ ہیں اسے حکومت کرنے دیں۔

ق لیگ کے رہنما مونس الہٰی نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج ہم عدالت میں حاضر ہوئے ہیں، اس وقت میرے ساتھ 9 ایم پی ایز موجود ہیں، یہ گواہی دینے آئے ہیں کہ انہیں نہ تحریری اور نہ ہی زبانی ہدایت ملی۔

مونس الہٰی کا کہنا ہے کہ پرویز الہٰی لاہور میں ہیں جو ویڈیو لنک پر موجود ہوں گے، چوہدری سالک کی بہن بھی ہمارے ساتھ ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ چوہدری شجاعت کی بیٹی ایم پی اے ہیں، وہ ساتھ والے گھر میں رہتی ہیں لیکن ان کو بھی اس سے متعلق کوئی ہدایت نہیں ملی۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے پنجاب میں وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب پر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ چیف جسٹس موجودہ کیس میں ابہامات دور کرنے کے لیے فل کورٹ تشکیل دیں۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.