فلیٹ سے خاتون کی ڈھائی سال پرانی لاش برآمد: ’میں فون کر کے کہتی رہی کہ فلیٹ سے مردے کی بو آ رہی ہے‘
آڈری کہتی ہیں کہ شیلا کے پڑوسیوں نے حکام کو متنبہ کرنے کی بار بار کوشش کی
- مصنف, ہیری فارلے
- عہدہ, بی بی سی ریڈو فور
آڈری نامی ایک خاتون شمالی لندن کے علاقے پیکہم میں ’لارڈز کورٹ‘ نامی اس تین منزلہ عمارت میں سنہ 2018 سے رہائش پزیر ہیں۔ انھیں وہ دن آج بھی اچھی طرح یاد ہے جب پولیس نے ان کے بالکل سامنے والے فلیٹ کا دروازہ توڑا تھا۔
’جوں ہی دروازہ توڑا گیا تو مجھے معلوم ہو گیا کہ فلیٹ میں کوئی بُرا واقعہ ہو چکا ہے۔ پولیس والوں کے چہروں سے عیاں تھا کہ معاملہ گڑبڑ ہے۔‘
ایک کمرے کے اس چھوٹے سے فلیٹ سے پولیس کو 58 سالہ شیلا سلونی کی باقیات ملی تھیں جو پیشے کے اعتبار سے میڈیکل سیکریٹری تھیں۔ پولیس کو نیلے پاجامے اور سفید شرٹ میں شیلا کے ہڈیوں کے ڈھانچے سے زیادہ کچھ نہیں ملا۔
فلیٹ میں موجود فریج سے پولیس کو بنے بنائے کسٹرڈ کا ایک پیکٹ بھی ملا جس پر لکھی ہوئی تاریخ سے انھیں اندازہ ہوا کہ شیلا کی موت کو کتنا عرصہ گزر چکا تھا کیونکہ کسٹرڈ کی معیاد ڈھائی سال پہلے ختم ہو چکی تھی۔
جہاں تک شیلا کے پڑوسیوں کا تعلق ہے تو انھیں ایک عرصے سے معلوم ہو چکا تھا کہ کچھ گڑبڑ ضرور ہے۔
شیلا کے فلیٹ کے بالکل نیچے والے فلیٹ کی رہائشی شینٹل کے بقول اگست 2019 (شیلا کی وفات) کے چند ہی ہفتے بعد وہ اپنی چھت پر لگا ہوا بلب تبدیل کر رہی تھیں۔ شینٹل بتاتی ہیں کہ جیسے ہی انھوں نے پرانا بلب اُتارا تو سوراخ سے کسی مردہ جسم پر پلنے والے کیڑوں (میگٹس) کا ایک پورا ڈھیر نکل آیا جو نیچے زمین پر گر گیا۔ شینٹل بتاتی ہیں کہ بات وہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خراب ہوتی گئی۔
اس کے بعد ’یہ کیڑے مجھے اپنے فلیٹ کے کبھی ایک کمرے میں دکھائی دیتے کبھی دوسرے میں اور کبھی غسل خانے میں۔ اور میرے فلیٹ کے کم و بیش تمام فرنیچر پر کیڑے نظر آنے لگے۔ آپ صوفے پر بیٹھتے تو تھوڑی دیر بعد آپ کو پتا چلتا کہ آپ کسی کیڑے پر بیٹھ گئے تھے جو آپ کے نیچے کُچلا جا چکا ہے۔
’آپ کو ایسے لگ رہا تھا جیسے آپ کسی ڈراؤنی فلم کے کردار ہوں۔‘
شینٹل نے اپنا اصلی نام نہ بتانے کی درخواست کی ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے متعلقہ ہاؤسنگ کمپنی کو فون بھی کیا لیکن انھوں نے کہا کہ کیڑوں کو ختم کرنا اُن کا کام نہیں ہے۔
’یہ بہت ہی دکھ کی بات ہے کہ کوئی انسان اتنے عرصے تک اپنے فلیٹ میں مردہ پڑا رہے اور کسی کو پتہ ہی نہ چلے اور کوئی بھی ذمہ دار اہلکار معمول سے ہٹ کر اس شخص سے رابطہ کرنے کا کوئی طریقہ نہ اپنائے۔‘
شینٹل مذکورہ سرکاری فلیٹوں کی وہ واحد رہائشی نہیں ہیں جنھوں نے شیلا کی وفات کے بعد کے ہفتوں اور مہینوں میں اپنی فکرمندی کا اظہار نہ کیا ہو یا متعلقہ کمپنی سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔
آڈری کا بھی کہنا تھا کہ ایک مرتبہ جب وہ کام سے سلسلے میں کسی دوسرے شہر گئی ہوئی تھیں اور جب واپس گھر آئیں اور لِفٹ کے ذریعے تیسری منزل پر آ رہی تھیں تو انھوں ایسی بدبو آئی جیسی ’کسی پرانی لاش سے آتی ہے۔‘
’مجھے ایسے لگا جیسے مجھے قے ہو جائے گی۔ مجھے بہت بدبو آ رہی تھی، یہ بڑی ہولناک بدبو تھی۔‘
آزادانہ تحقیقاتی کمیشن کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچنے کے ’کئی مواقع‘ ضائع کیے گئے
اس عمارت کی تیسری منزل کے دیگر رہائشیوں کا کہنا تھا کہ بدبو سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنے دروازوں کے نیچے تولیے اور چادریں ٹھونسنا شروع کر دی تھیں۔
تیسری منزل پر اپنے تین بچوں اور بیوی کے ساتھ دو کمروں کے ایک فلیٹ کے رہائشی، ڈوناٹس اوکیکے بتاتے ہیں کہ ’ہم اپنے فلیٹ میں سو بھی نہیں پا رہے تھے۔ بدبو اس قدر زیادہ تھی کہ کھانا پینا محال ہو گیا تھا۔‘
اس وقت تک یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ شیلا اپنے فلیٹ میں موجود نہیں تھیں کیونکہ ان کے فلیٹ کے دروازے پر لگے لیٹر باکس میں سے خطوں کے لفافے اُبل کر باہر گر رہے تھے اور دروازے کے سامنے پڑا ہوا ’ڈور میٹ‘ مسلسل اسی جگہ پڑا رہا جہاں صفائی کرنے والا عملہ اسے چھوڑ کر گیا تھا۔
ڈوناٹس اوکیکے کی اہلیہ، ایولین کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی کمپنی کو ’کئی بار‘ فون کیا۔ اس موقع پر انھوں نے مجھے اپنا تحریری فون ریکارڈ بھی دکھایا جس کے مطابق انھوں نے شیلا کی موت کے دو مہینے بعد پہلی مرتبہ 10 اکتوبر 2019 کو فون کیا تھا۔
اسی منزل کی ایک اور رہائشی، عائشہ نے بھی پیباڈی سے کئی بار رابطہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں فون کر کے کہتی رہی کہ فلیٹ سے مردے کی بو آ رہی ہے، لیکن ان کا کوئی اہلکار نہیں آیا۔‘
آڈری کا کہنا ہے کہ پڑوسیوں نے خطرے کی گھنٹی بجانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے پیباڈی کی ’کسٹمر کیئر لائن‘ کے نمبر پر فون کیا اور پوچھا کہ آیا کوئی اس معاملے کی تحقیقات کرے گا تو انھیں بار بار یقین دلایا گیا کہ کمپنی تفتیش کرے گی کہ شیلا کے فلیٹ سے بدبو کیوں آ رہی ہے۔
’یہ ایک ایسی چیز ہے جس پر مجھے افسوس ہے کہ میں نے کمپنی والوں کی باتوں پر یقین کیوں کیا. مجھے افسوس ہے کہ ہم نے جلد ہی پولیس کو فون کیوں نہیں کیا، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ کمپنی والے کچھ کریں گے۔‘
پیباڈی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شیلا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر افسردہ ہیں۔
جب بی بی سی نے پیباڈی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ شیلا کے ساتھ جو ہوا اس پر کمپنی کو ’انتہائی دُکھ ‘ ہے، تاہم اس سارے معاملے میں انھوں نے کوئی بات ’پوشیدہ نہیں رکھی اور اس جو کچھ غلط ہوا اس کا سامنا پوری شفافیت اور دیانتداری سے کیا ہے۔‘
شیلا ایک ایجنسی کے لیے کام کرتی تھیں اور ان کا کوئی مستقل دفتر نہیں تھا
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کا پتا فروری سنہ 2022 سے پہلے کیوں نہیں لگایا گیا کہ شیلا فلیٹ میں فوت ہو چکی ہیں؟
شیلا کی موت کے بعد، ان کے فلیٹ کا کرایہ آنا بند ہو گیا۔ لہذا پیباڈی نے شیلا کو خطوط لکھے، کئی مرتبہ ای میل بھیجیں اور ان کے فون پر پیغامات چھوڑنا شروع کر دیے۔ لیکن اگلے ایک سال تک کمپنی کی طرف سے کوئی اہلکار ان کے فلیٹ پر نہیں آیا، اس کے باوجود کہ شیلا سنہ 2012 سے وہاں رہ رہی تھیں اور انھوں نے کبھی بھی کرایہ جمع کروانے میں دیر نہیں کی تھی۔
شیلا کے گھر آنے اور ان سے بات کرنے کی بجائے، پیباڈی نےان کے نام سے ’یونیورسل کریڈٹ‘ کے محکمے کو درخو است دے دی کہ چونکہ شیلا کرایہ نہیں دی رہیں اس لیے حکومت کو چاہیے کہ وہ کرایہ ادا کرے۔ کمپنی نے اس کے لیے متبادل ادائیگی کے نظام کا استعمال کیا جس کا مقصد ایسے کرایہ داروں کی مدد کرنا ہے جنھیں کرایہ ادا کرنے میں مشکل کا سامنا ہو۔
پیباڈی نے جو درخواست بھیجی اس پر انھیں مثبت جواب ملا اور یوں مارچ سے محکمۂ پینشن کی طرف سے شیلا کے فلیٹ کے کرائے کی ادائیگی شروع ہو گئی، حالانکہ اس وقت شیلا کی موت کو سات ماہ گزر چکے تھے۔
اور پھر اپریل 2020 میں وہ وقت آ گیا جب کمپنی کو شیلا کے فلیٹ میں گیس کی سپلائی کا سالانہ ٹیسٹ کرنا تھا جو کہ ہر مالک مکان کے لیے لازمی ہوتا ہے۔ اس سیفٹی ٹیسٹ کے لیے پیباڈی نے جس کمپنی کو کہا تھا، جب اس کا اہلکار فلیٹ پر پہنچا اور دستک دی تو کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ اس کے باوجود پیباڈی نے اپنے کسی اہلکار کو نہیں بھیجا کہ وہ خود جا کر دیکھے کے معاملہ کیا ہے۔ اس کی بجائے پیباڈی نے متعلقہ محکمے کو کہہ دیا کہ وہ گیس کی سپلائی کاٹ دے۔
شیلا کی موت کے ایک سال بعد جب کئی پڑوسیوں نے بدبو کی شکایت کی تو آخر کار پیباڈی کے اہلکار شیلا کے فلیٹ پر آئے۔ جب کسی نے دستک کا جواب نہیں دیا تو انھوں نے اپنے ہمراہ موجود پولیس اہلکار سے کہا کہ وہ دروازہ توڑ دے، لیکن پولیس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس کارروائی کے لیے قانونی جواز ناکافی ہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جہاں پولیس اہلکار کی جانب سے پیباڈی کو یہ غلط پیغام ملا کہ انھوں نے شیلا کو زندہ اور بالکل ٹھیک حالت میں دیکھا ہے۔ شیلا کی بوسیدہ لاش اس واقعے کے 16 ماہ بعد فلیٹ سے برآمد کی گئی۔ اس موقع پر لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے اپنی غلطی پر معذرت کرتے ہوا کہا کہ مذکورہ پولیس اہلکار اب ریٹائر ہو چکا ہے ورنہ محکمہ خود اس کو تفتیش کے لیے متعلقہ حکام کے سامنے پیش کر دیتا۔
شیلا کی موت کی تفتیش کرنے والے ایک آزاد کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’ایسے کئی مواقع ضائع کیے گئے‘ جن سے ہمیں بہت پہلے معلوم ہو جاتا کہ اصل میں شیلا کی موت ہو چکی ہے۔‘
رہائشی عمارت کے ایک فلیٹ میں جو ہوا اس کی یادیں مکین بھلا نہیں پا رہے ہیں
کمیشن کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہر کوئی الگ الگ کام کر رہا تھا اور کسی ایک شخص نے مجموعی صورتحال کا جائزہ نہیں لیا، مثلاً پڑوسیوں کی طرف سے بدبو کی شکایت مختلف لوگ کر رہے تھے اور محمکہ گیس کےسالانہ ٹیسٹ کی ذمہ داری ایک دوسری کمپنی کے پاس تھی۔
کمیشن نے کہا ’لگتا ہے کہ ہاؤسِنگ اتھارٹی نے ایسے لمحات دیکھے تھے جہاں سے گڑ بڑ شروع ہوئی تھی، اس نے پڑوسیوں کی باتیں سُن لی تھیں، یوں وہ نقطوں کو جوڑ سکتے تھے، لیکن پیباڈی میں اہداف کے پیچھے بھاگنے کی وجہ سے انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کا اصل کام صارفین کا خیال کرنا ہے۔‘
غرب افراد کو کم کرائے پر گھر لینے کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیم، شیلٹر کا کہنا ہے کہ آج کل ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز میں رواج ہے کہ وہ مل کر کوئی بڑا ادارہ بنا لیتی ہیں۔ شیٹلر کے پالیسی کے شعبے کے سربراہ، چارلی ٹریو کے مطابق اس میں خطرہ یہ ہے کہ کمپنیاں اپنے اس بنیادی مقصد کو بھول جاتی ہیں کہ ’پہلا ہدف کرایہ داروں کے حقوق کا تحفط کرنا ہے اور منافع دوسرے نمبر پر آتا ہے۔‘
جہاں تک شیلا کے پڑوسیوں کا تعلق ہے تو ان کے مطابق ان کے ہاں سنہ 2017 میں اس وقت ایک واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی جب ’فیملی موزیک‘ نامی ایک چھوٹی ہاؤسِنگ اتھارٹی جو ان کے رہائشی فلیٹوں (یعنی لارڈز کورٹ) کی دیکھ بھال کر رہی تھی اس نے پیباڈی جیسی ایک بڑی کمپنی میں ضم ہونے کا فیصلہ کر لیا۔
آڈری بتاتی ہیں کہ لارڈز کورٹ کا ماحول بہت دوستنانہ ہوا کرتا تھا جہاں لوگوں کے آپس میں رشتے مضبوط تھے۔ ’لیکن اگر آپ اب لارڈز کورٹ میں داخل ہوتے ہیں تو وہ جگہ بڑی سرد، تاریک دکھائی دیتی ہے، ایک ایسی جگہ جہاں جانے کا جی نہیں چاہتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب یہاں کا نظام فیملی موزیک کے ہاتھ میں تھا، تو انھوں نے ایک ایسے بلڈنگ مینجر کو رکھا ہوا تھا جو ہر کسی کو جانتا تھا اور اکثر یہاں کے ’رہائشیوں کی خبر لینے اور ان سے بات چیت کرنے‘ آتا تھا۔
اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جن دنوں شیلا کی موت ہوئی ان دنوں پیباڈی کا ’پیچ سائز‘ بہت بڑا ہوتا تھا، یعنی ہر مینیجر کے پاس بہت سے مکانوں یا فلیٹوں کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ لندن میں ہاؤسِنگ اتھارٹیز عموماً اپنے زیر انتظام علاقوں کو بڑے بڑے حصوں میں تقسیم کر لیتی ہیں اور ہر مینیجر کے حصے میں ایک بڑا ’پیچ‘ دے دیا جاتا ہے۔ یوں ہر مینیجر یا ہاؤسِنگ آفیسر کا کام اپنے حصے کے تمام رہائشیوں کے مسائل کو سننا اور ان کو حل کرنا اور لوگوں کو ضروری مدد فراہم کرنا ہوتا ہے۔
جہاں عام طور پر دیگر کمپنیوں کے مینیجر کے حصے میں 250 سے 500 فلیٹ یا گھر آتے تھے، وہاں پیباڈی کے مینیجر کے حصے میں 800 سے ایک ہزار گھر اور فلیٹ آتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ پیباڈی کے مینیجر کے حصے میں زیادہ علاقہ اور زیادہ کام آتا تھا۔
تاہم، اب پیباڈی کا کہنا تھا کہ شیلا کی موت کے بعد سے انھوں نے بھی اپنے ’پیچ‘ کا اوسط علاقہ کم کر دیا ہے اور ہر مینیجر کے حصے میں تقریباً 500 گھر یا فلیٹ آتے ہیں۔
لارڈز کورٹ کے رہائشی کہتے ہیں کہ شیلا اپنے آپ میں رہتی تھیں مگر ان کا رویہ دوستانہ تھا
چارلی ٹریو کہتے ہیں کہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز پر دباؤ بڑھ رہا ہے کیونکہ ہمارا ’فنڈنگ ماڈل بنیادی مسائل کا شکار‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2010 کے بعد سے حکومت کی جانب سے کی جانے والی کٹوتیوں نے ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز کو متبادل مالی وسائل تلاش کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اسی لیے یہ ایسوسی ایشینز زیادہ سے زیادہ مکان بنا کر فروخت کر رہی ہیں تاکہ وہ سرکاری مکانات کی لاگت کو پورا کر سکیں۔
’کرایہ دار کے لیے اس کا نتیجہ بہت بُرا ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز کی زیادہ توجہ کرایہ داروں کی دیکھ بھال کی بجائے اپنی مالی کارکردگی پر مرکوز ہو جاتی ہے۔
اس حوالے سے ہم نے ہاؤسِنگ اور مقامی حکومتوں کے محکمے سے بات کی تو ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’شیلا کی موت جن اندوہناک حالات میں ہوئی اس سے ان خوفناک نتائج کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جس کا سامنا سرکاری عمارتوں کے رہائشیوں کو اس وقت کرنا پڑتا ہے جب ان کے مالک مکان اپنے کرایہ داروں کو نظر انداز کرتے ہیں۔‘
ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت نے سنہ 2010 سے اب تک سرکاری مکانوں میں 162،000 سے زیادہ مکانات کا اضافہ کیا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’ہم مزید رعایتی گھروں کی تعمیر کے لیے بھی پُرعزم ہیں اور اپنے سستے گھروں کے پروگرام کے تحت 11.5 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں تاکہ ملک بھر میں کرائے اور فروخت کے لیے ہزاروں نئے گھر فراہم کیے جاسکیں۔‘
شیلٹر کے چارلی ٹریو کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر تشویش ہے کہ چونکہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز ضم ہو رہی ہیں اور منافع پر زیادہ توجہ مرکوز کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے کرایہ داروں کو بعض اوقات ’ایک مسئلہ یا ایک ایسا کام سمجھا جاتا ہے‘ جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
’اس بنیادی ثقافت کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز، ایک بار پھر، اپنے کرایہ داروں کی صحت اور فلاح و بہبود کو ترجیح دیں، ان کی بات سُنیں، اور اس بات کا احساس کریں کہ ان کے کرایہ دار خوشحال اور مطمئن زندگی گزاریں۔‘
پڑوسیوں نے شیلا کی یاد میں ان کے فلیٹ کے دروازے پر پھول بھی رکھے تھے
شیلا کی لاش جلد برآمد نہ ہونے کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ وہ بہت الگ تھلگ رہتی تھیں۔
ان کی آخری رسومات کی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں صرف ایک شخص کھڑا تھا۔ یہ ان کے سوتیلے بھائی وکٹر تھے، جن کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی کئی برسوں سے شیلا سے بات نہیں کی تھی۔ شیلا کی آخری رسومات میں شرکت کرنے والا دوسرا شخص پیباڈی کا نمائندہ تھا جو وہاں دیر سے پہنچا تھا۔
اس کے علاوہ شیلا کا نہ کوئی رشتہ دار تھا نہ کوئی دوست۔
شیلا ایک جگہ کام نہیں کرتی تھی بلکہ وہ ایجنسی کی ملازم تھیں جو انھیں وہاں بھیج دیتی جہاں ان کی ضرورت ہوتی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ شیلا کے پاس کام کرنے کی کوئی ایک جگہ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی دفتری ساتھی۔
ان کے فیس بُک وغیرہ کو دیکھا گیا تو وہاں بھی ان کی موجودگی بہت محدود نظر آئی۔ فیس بُک پر ان کی سنہ 2012 کی ایک پوسٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے سکول کی ایک پرانی سہیلی کو تلاش کر رہی تھیں جس سے اس کا رابطہ ختم ہو گیا تھا۔ شیلا نے لکھا تھا ’مجھے تمہارا پتہ یاد نہیں رہا، میری غلطی ہے کہ میں نے لکھا نہیں تھا۔‘ ان کی اس پوسٹ کا کسی نے جواب نہیں دیا تھا۔
برطانیہ کے قومی دفتر برائے شماریات کا کہنا ہے کہ تقریبا 7 فیصد برطانوی بالغ اکثر یا ہمیشہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، اور کم از کم 25 فیصد ایسے ہیں جو وقتاً فوقتاً تنہائی کا شکار رہتے ہیں۔
کچھ سائنسی مطالعات سے معلوم ہوتا ہے کہ تنہائی وقت سے پہلے موت کے امکانات کو بڑھا سکتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ شیلا کی موت کیسے ہوئی، لیکن ان کے میڈیکل ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں کئی پیچیدہ طبی مسائل کا سامنا تھا۔
شیلا کے پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ وہ ’اپنے آپ میں رہنے والی اور شرمیلی‘ مگر دوستانہ طبیعت کی مالک تھیں۔ سیڑھیوں پر آتے جاتے ان سے علیک سلیک ہو جاتی تھی لیکن پڑوسیوں کے بقول وہ شیلا کو جانتے نہیں تھے۔
آڈری کہتی ہیں کہ شیلا کی موت نے ’مجھے اپنے پڑوسیوں اور اپنی ارد گرد کے لوگوں کو مختلف انداز میں دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہمیں واقعی دوسرے لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘
ایک بیان میں پیباڈی کا کہنا تھا کہ کمپنی نے واقعی یہ جاننے کی پوری کوشش نہیں کی کہ اتنے عرصے تک شیلا کی طرف سے کوئی خبر کیوں نہیں آ رہی تھی۔
کمپنی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ کمپنی نے خود فلیٹ پر اپنا اہلکار بھیجنے کی بجائے محض بار بار خط لکھنے اور فون کرنے پر اکتفا کیا، جو کہ ناکافی تھا۔‘
پہلی منزل پر واقع لیٹر باکس میں شیلا کے نام کئی خطوط ملے جو کبھی ان تک نہیں پہنچے
تاہم، پیباڈی کا مزید کہنا تھا کہ اب انھوں نے شکایات کی جانچ پڑتال کا طریقہ تبدیل کر لیا ہے۔ اسی طرح فلیٹ میں شیلا کی موت کے واقعے کے بعد انھوں نے اپنے کرایہ داروں سے کرایہ کی وصولی اور گیس سیفٹی چیک کے طریقے بھی بدل دیے ہیں۔
کمپنی نے اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے کہ لارڈز کورٹ کے مکینوں کے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے جس کے لیے کمپنی نے وہاں کے رہائشیوں سے معافی بھی مانگ لی ہے۔
پیباڈی کی جانب سے بہتری کی کوششوں کے باوجود، لارڈز کورٹ میں جو کچھ ہوا اس کا صدمہ وہاں کے رہائشیوں کے ساتھ موجود ہے۔ بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ کچھ رہائشی قانونی چارہ کے حوالے سے اپنے وکلا سے بات کر رہے ہیں۔
آڈری کہتی ہیں کہ اس عمارت میں رہتے ہوئے انھیں ہر وقت یہ سوچ گھیرے رکھتی ہے کہ وہ ّھائی سال تک ایک ایسی جگہ پر رہتی رہی ہیں جس سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بار بار سوچتی ہیں کہ ان کی طرف سے کئی مرتبہ خبردار کرنے کے باوجود پیباڈی نے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا۔
’میں ہمیشہ سوچتی رہتی تھی کہ شیلا کے بند دروازے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔‘
فلیٹ سے شیلا کی لاش ملنے کے کچھ ہی عرصہ بعد آڈری نے کمپنی سے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کے لیے کوئی دوسرا فلیٹ تلاش کریں، لیکن ایک سال بعد بھی انھیں کوئی مناسب متبادل نہیں ملا ہے۔
’وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ ہم لوگوں نے کتنی راتیں جاگ کے گزاری ہیں اور ہم پر اس کے کیا اثرات ہوئے ہیں۔ میں آج بھی جب اپنے فلیٹ سے نکلتی ہوں اور شیلا کے فلیٹ کو دیکھتی ہوں تو مجھے یاد آ جاتا ہے کہ اس فلیٹ میں کیا ہوا تھا۔‘
ایولین اور ان کا خاندان بھی یہاں سے منتقل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب سے فلیٹ سے شیلا کی لاش برآمد ہوئی ہے، ایولین کے 12 سالہ بیٹے کو سونے میں مشکل ہو رہی ہے اور سکول میں اس کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ایولین کے بقول اس کی وجہ یہی احساس ہے کہ ہم اتنا عرصہ ایک لاش کے قریب رہتے رہے ہیں۔
’ہمیں نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ وہ (ہاؤسِنگ ایسوسی ایشن والے) ہماری کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ انھیں صرف اپنے پیسے کی فکر ہے اور کچھ نہیں۔‘
دوسری جانب پیباڈی کا کہنا تھا کہ لندن میں سرکاری مکانوں کی بہت شدید کمی ہے، لیکن وہ دیکھیں گے کہ آڈری اور ایولین کو اور کس قسم کی مدد فراہم کی جا سکتی ہے
Comments are closed.