’فلیمین ہاٹ‘: ایک میکسیکن شہری کے مسالحہ دار چیٹوز متعارف کرنے کے دعویٰ کی حقیقت کیا ہے؟
- مصنف, ڈاریو بروکس
- عہدہ, بی بی سی نیوز منڈو
رچرڈ مونٹنیز کی کہانی نے ہالی وڈ سمیت امریکہ میں بہت سے لوگوں کو متاثر کیا ہے۔
ایک فیکٹری میں فرش صاف کرنے والے شخض کے لیے یہ بہت غیر معمولی ہے کہ وہ امریکہ میں آلو کے چپس اور سنیک فوڈز کی بین الاقوامی کمپنی ’فریٹو لیز‘ جیسی کمپنی میں ایگزیکٹیو کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو جائے۔
لیکن کیلیفورنیا میں پرورش پانے والے میکسیکن تارکین وطن کے بیٹے مونٹنیز کی زندگی کی یہ ہی کہانی ہے۔
مونٹنیز کی جانب سے کتابوں، انٹرویوز اور موٹیویشنل لیکچرز میں دیے بیان کے مطابق ان کے ناقابل یقین عروج میں اہم موڑ ایپیٹائزر چیٹوز کے مسلحہ دار ورژن کی ایجاد تھی، جسے فلیمین ہاٹ کہا جاتا ہے۔
ایک لاطینی یا خاص طور پر میکسیکن ذائقہ جسے نہ صرف لاطینی برادری نے بہت پسند کیا بلکہ امریکہ اور غیر ملکی بازاروں میں جہاں بھی پراڈکٹ پہنچتی گئی اسے پسند کیا گیا۔
تاہم، متعدد تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مونٹنیز کی کہانی بالکل ایسی نہیں ہے جیسا کہ انھوں نے بتایا ہے، خاص طور پر اس بارے میں کہ فلیمین ہاٹ فلیور کی ایجاد کیسے ہوئی۔
فریٹو لیز کی پیرنٹ کمپنی پیپسی کو یہ بتانا پڑا کہ لاس اینجلس کی فیکٹری میں صفائی کرنے والا بالکل بھی اس پراڈکٹ کا موجد نہیں ہے، بلکہ یہ وہ شخص ہے جس نے ’اس کے آغاز اور کامیابی میں حصہ ڈالا ہے۔‘
سنہ 2021 میں پیدا ہونے والے تنازعے کے دوران اداکارہ اور پروڈیوسر ایوا لونگوریا نے فلیمین ہاٹ کی شوٹنگ کے لیے مونٹنیز کی کہانی کا انتخاب کیا، جو ہالی وڈ میں بطور ہدایتکار ان کی پہلی فلم ہے۔
مونٹنیز کی طرح میکسیکن نژاد ایک امریکی لونگوریا نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ ’ایک ایسی کہانی ہے جو امریکی کاروباری خواب کو بیان کرتی ہے، اس حقیقت کو نظر انداز کیے بغیر کہ وہ خواب امریکہ میں ہر کسی کے لیے یکساں طور پر دستیاب نہیں ہے۔‘ لونگوریا نے جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں فلم کی سکریننگ کے موقع پر صدر جو بائیڈن کے سامنے کہا کہ ’میں اس کی کہانی، اس کی زندگی، اور امریکی ثقافت میں لاطینی کمیونٹی کی اہمیت اور طاقت کو اجاگر کرنا چاہتی تھی۔‘
تاہم اس فلم پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ مسالحہ دار چیٹوز کی ایجاد کے بارے میں حقائق سے مختلف ایک کہانی پیش کی گئی ہے جو مونٹنیز کی کامیاب زندگی کی کہانی پر مبنی ہے۔
رچرڈ مونٹنیز کا سچ
دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک، مونٹنیز نے دنیا کو بتایا کہ انھوں نے امریکن ڈریم کو کیسے حاصل کیا۔ دوسرے مہاجرین کی طرح انھیں بہت چھوٹی عمر سے ہی پیسے کمانے کے لیے کام کرنا پڑا اور چونکہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے تو وہ مشکل سے انگریزی میں لکھ سکتے تھے اور ان کے پاس کام کرنے کے دستیاب مواقع بہت محدود تھے۔
مشرقی لاس اینجلس کے علاقے میں جہاں وہ رہتے تھے وہ ایک وقت غلط کاموں کے ذریعے ڈالر کمانے کے لیے مختلف گینگز کی دعوتوں کا شکار ہو گئے، حالانکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ ان کاموں میں اتنے برے تھے کہ وہ ہمیشہ پکڑے جاتے تھے۔
18 سال کی عمر میں اپنی گرل فرینڈ جوڈی کی مدد سے انھوں نے اچھی تنخواہ اور سماجی تحفظ کے لیے فریٹو لیز کی فیکٹریوں میں ملازمت کی درخواست دینے کا فیصلہ کیا۔
انھوں نے این پی آر پبلک ریڈیو کو بتایا کہ ’مجھے یاد ہے کہ میں نے درخواست مکمل کر کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ کو دی تو میں بہت گھبرا گیا تھا، کیونکہ اس درخواست میں کچھ بھی درست نہیں تھا۔ لیکن مجھے فوراً نوکری مل گئی تھی۔‘
انھیں ایک صفائی کرنے والے کی نوکری مل گئی، لیکن ایک سال کے بعد انھیں دوسرے مواقع فراہم کیے گئے جیسا کہ مشرقی لاس اینجلس میں رینچو کوکامونگا فرائی فیکٹری میں مشین آپریٹر کے طور پر کام کرنا یا پراڈکٹ کی سیلز کے لیے باہر جانا۔
انھوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک کمپنی میں نچلی سطح پر کام کیا۔
ایک دفعہ مونیٹیز کے بیان کے مطابق وہ میکسیکو کے ایک محلے میں ایک سٹور میں چپس رکھ رہے تھے، جب ان کے ذہن میں اپنی زندگی بدلنے والا خیال آیا۔
’میں نے لوگوں کو مرچیں خریدتے دیکھا۔ میں نے لوگوں کو مسالحہ خریدتے دیکھا۔ تو اس وقت میں نے لیز کے بے ذائقہ آلوؤں کی طرف دیکھا اور سوچا کیا ہمارے پاس ان لوگوں کے لیے کچھ نہیں ہے جو اسے مسالہ دار چاہتے ہیں؟‘
اس دن ان کی اہلیہ نے سالسا بنایا اور کافی وقت یہ سوچتی رہی کہ اسے لیز کے چپس میں کیسے شامل کیا جائے اور پھر انھیں مسالحے کو پاؤڈر کے ذریعے شامل کرنے کا خیال آیا بالکل ویسے ہی جیسے چیٹوز کو اورنج چیز فلیور کا ذائقہ دیا جاتا ہے۔
انھوں نے این پی آر کو بتایا کہ 1989 میں وہ مسالحے دار چیٹوز کو فیکٹری میں لے آئے۔ ان کے ساتھیوں کو یہ ذائقہ بہت پسند آیا۔ انھوں نے انھیں مالکان کے پاس یہ دکھانے کے لیے بھیجا کہ لاطینیوں اور دیگر مرچ مسالحہ پسند کرنے والوں جیسے ایشیائی ممالک کے افراد کے لیے ایک ممکنہ پراڈکٹ ہے لیکن انھیں کسی قسم کا جواب نہیں ملا۔
انھوں نے وضاحت کی کہ ان کے خیال کو پراسیسڈ فوڈ کے ماہرین کی مدد سے عملی جامہ پہنانے میں کچھ وقت لگا جو صرف گھر میں تیار کردہ گرم چٹنی کا پاؤڈر استعمال نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن، جیسا کہ وہ بتاتے ہیں، 1990 تک سب کچھ پہلے سے ہی چل رہا تھا۔
انھوں نے این پی آر کو بتایا کہ ’مجھے وہ خوشی آج بھی یاد ہے جو پلانٹ کی کنوئینر بیلٹ پر فلیمن ہاٹ کے پیکٹ چلتے دیکھ کر ہوئی تھی، میں نے اس وقت سوچا کہ میں نے کر دکھایا۔‘
کیا یہ سب کچھ ایسے ہی تھا؟
مسالحے دار آلوؤں کے خیال نے مونٹینز کی زندگی کو ایک دم نہیں بدلا تھا، وہ کم تنخواہ پر صفائی کرنے والے اور مشین آپریٹر ہی رہے۔
جب اس پراڈکٹ نے مارکیٹ میں جگہ بنا لی اور فریٹو لیز میں کام کرتے ہوئے 20 سال بعد مونٹنیز کو کمپنی نے لاطینی برادری کے لیے مارکیٹنگ کا نائب صدر مقرر کر دیا۔
پچھلی دو دہائیوں میں انھوں نے کانفرنسوں، دو کتابوں اور متعدد انٹرویوز میں اپنی کہانی سنائی ہے۔ انھوں نے خود کو امریکہ میں کھانے کی مصنوعات میں لاطینی ذائقے کو متعارف کروانے والے ایک ’سفیر‘ کے بیان کیا ہے۔
لیکن 2021 میں لاس اینجلس ٹائمز اخبار نے ایک جامع تحقیق شائع کی جس میں بتایا گیا ہے کہ مونٹنیز فلیمین ہاٹ فلیور ایجاد کرنے کا کریڈٹ نہیں لے سکتے۔
اس ذائقے کی ایجاد میں شامل درجنوں افراد کے انٹرویوز کے مطابق مونٹنیز کی جانب سے اسے کیلیفورنیا میں مینیجرز کے سامنے پیش کرنے سے قبل اس پروڈکٹ کو مڈویسٹ میں بنایا گیا تھا اور اس کا بازار میں تجربہ بھی کیا گیا تھا۔
لین گرین فیلڈ جو اس پروڈکٹ کو تیار کرنے والوں میں سے ایک تھیں نے 2018 سے مونٹنیز کے دوسروں کا کریڈٹ لینے کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔
اس تمام صورتحال میں سنہ 2021 میں پیپسی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم فلیمن ہاٹ چیٹوز اور دیگر مصنوعات کو متعارف کروانے اور ان کی کامیابی کا سہرا رچرڈ مونٹنیز سمیت پیپسی میں کام کرنے والے کئی دیگر لوگوں کو دیتے ہیں۔‘
کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس وقت ’مختلف ڈویژن آزادانہ طور پر کام کر رہی تھیں اور ان کی آپس میں رابطہ کاری بہترین نہیں تھی‘ اس لیے وہ سب ایک ہی وقت میں اسی طرح کے خیالات پر کام کر رہے ہوں گے۔
گیسٹاوو اریلانو جو ایک صحافی اور مصنف ہیں اور میکسیکن امریکی ثقافت میں مہارت رکھتے ہیں کہتے ہیں کہ ’ان کی کہانی اور ان کا کیریئر ناقابل یقین ہے۔ ایک صفائی والے کے طور پر کام شروع کرنے سے لے کر فریٹو لیز کمپنی میں ایگزیکٹو بن جانا بلاشبہ ایک متاثر کن کہانی ہے جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا اور اس کی تصدیق فریٹو لے نے بھی کی ہے۔‘
لاس اینجلس ٹائمز کے کالم نگار سوال کرتے ہیں کہ ’لیکن آج تک انھیں (رچرڈ مونٹنیز کو) اس بات پر اصرار کیوں کرنا پڑتا ہے کہ وہ فلیمین ہاٹ چیٹو کے خالق ہے؟ انھوں نے اتنے برسوں ایسا کیوں کہا؟‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ اس ’شہری لیجنڈ‘ نے فریٹو کمپنی کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ زیادہ ہسپانوی گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرے جو اس کی مصنوعات خریدتے ہیں۔ انھوں نے فریٹ کو لاطینی برادری کو فروغ دینے والا بنا دیا۔‘
اس بارے میں بی بی سی منڈو نے رچرڈ مونٹنیز سے انٹرویو دینے کی درخواست کی مگر اس مضمون کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔
فلیمن ہاٹ کی کہانی پردہ سکرین پر
رچرڈ مونٹیز کی کہانی کے بارے میں لاس اینجلس ٹائمز اور دیگر بڑے امریکی میڈیا کی اشاعتوں سے قبل سنہ 2019 میں ہالی وڈ کے لیے ایک پروڈکشن پہلے سے ہی جاری تھی۔
ایوا لونگوریا نے امریکہ میں لاطینی کمیونٹی کی متاثر کن کہانی کو بڑی سکرین پر لانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔
اریلانو کہتے ہیں کہ ’یہ کہانی سب کو معلوم تھی لیکن رچرڈ مونٹنیز کا نام زیادہ جانا پہچانا نہیں تھا۔ یہ ایسا تھا جیسے وہ کوئی شہری لیجنڈ ہو۔‘
اس فلم کے سکرپٹ کی سربراہی معروف مصنفہ لنڈا یویٹ شاویز نے کی ہے جو خود بھی ایک میکسیکن تارکین وطن کی بیٹی بھی ہیں۔
شاویز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ کس طرح انھوں نے فلیمین ہاٹ چیٹو کے پیٹنٹ کے تنازعے سے ہٹ کر رچرڈ مونٹنیز کی زندگی کی عکاسی کرنے کی کوشش کی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میرے لیے یہ مشکل تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ آسان بھی کیونکہ میں رچرڈ ہوں، میں نے ان جیسی زندگی کو مشکلات اور خوابوں کے ساتھ گزارا ہے، میں نے انھیں وہاں تک پہنچانا بھی تھا جہاں میں بطور ہالی وڈ مصنف ہوں۔ ایسا آسان نہیں تھا اور اسی وجہ سے میں اس کی کہانی سمجھ گئی۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ہم میں سے زیادہ تر مزدور یا معمولی ملازمتیں کرنے والے ہیں، ہم (امرا) کے ایک فیصد میں بھی نہیں ہے۔ اور ہمارے بھی خواب ہیں اور یہ ہی میں نے ان کی کہانی میں جانا اور دیکھا ہے۔‘
ایک مرتبہ جب فلیمن ہاٹ چیٹوز کے آغاز کے متعلق تحقیقات شروع ہوئی تو اس فلم نے کچھ معمولی معمولی تبدیلیاں کی۔
لیکن وہ اس بات کا دفاع کرتی ہیں کہ یہ فلم ایک محنت کرنے والے لاطینی شخص کی کہانی پر ہے جس نے بدقسمتی اور برے حالات پر سبقت حاصل کر لی ہے۔
شاویز کہتی ہیں کہ ’کئی مرتبہ ایک ہی کہانی کے کئی رخ ہوتے ہیں، بہت سے سچ ہوتے ہیں اور بہت مرتبہ جس کے پاس طاقت ہوتی ہے وہ کہانی لکھتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ یکطرفہ ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے جو زندگی گزاری ہے، اس سے میں ہی جانتی ہوں کہ خاموش رہنا، مظلوم ہونا، کنٹرول کیے جانا کیسا ہوتا ہے، اور میں لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتی تھی کہ یہ کیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو عام سے خاص بن گیا۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’ یہ اس کی تاریخ ہے اور کوئی بھی اس کی تردید نہیں کر سکتا، یہ بہت واضح تھا اور یہ وہ راستہ تھا جس پر وہ چلا۔‘
اریلانو اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی بھی مونٹنیز کی کامیابی کی کہانی کو رد نہیں کر سکتا۔ ایک صفائی والا جس نے ایک بڑی فرم میں اعلیٰ ایگزیکٹو بننے کے لیے زندگی بھر کام کیا۔ لیکن ان کا ماننا ہے کہ سچی کہانی پر مبنی یہ فلم حقائق سے غافل نہیں ہو سکتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ بہت اچھی فلم ہے، اداکاروں نے بھی اچھا کام کیا ہے۔ ایوا لونگوریا نے بھی پہلی بار اچھی فلم بنائی لیکن فلم کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہے۔‘
شاویز کے مطابق نو جون کو اپنے پریمیئر کے بعد سے فلم کو بہت اچھا رسپانس ملا ہے خاص طور پر امریکی لاطینی کمیونٹی میں جنھیں ہمیشہ ہالی وڈ میں اپنی کہانیوں کے لیے جگہ نہیں مل پاتی ہے۔
فلم کی سکرین رائٹر کا کہنا ہے کہ ’آج لوگ رچرڈ سے بہت متاثر ہیں۔ ہم نے وائٹ ہاؤس میں اس کا تجربہ کیا اور لوگ اس بات کا جشن منا رہے تھے کہ آپ بھی ترقی کر سکتے ہیں۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس وقت اس کی ضرورت ہے جب ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’کسی ایسے شخص کو ترقی کرتا دیکھنا جو آپ جیسا دکھتا ہے، جس نے ویسی ہی مشکل زندگی گزاری ہو جیسی آپ نے گزاری ہے، جو برے لوگوں سے نکل کر ترقی کر گیا ہوں۔ یہ بہت متاثر کن ہے۔‘
Comments are closed.