فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان: ناروے، آئرلینڈ اور سپین کے فیصلے سے اسرائیل پر کیا فرق پڑے گا؟
اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ’میں آئرلینڈ اور ناروے کو ایک واضح پیغام دے رہا ہوں کہ اسرائیل ان لوگوں کے خلاف پیچھے نہیں ہٹے گا جو اس کی خودمختاری کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیل اس پر خاموشی اختیار نہیں کرے گا اور اس کے مزید سنگین نتائج ہوں گے۔ اگر سپین نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کو تبدیل نہ کیا تو اس کے خلاف بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جائے گا۔‘اس کے جواب میں ہسپانوی وزیر اعظم پیڈرو سانشیز کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو ’ابھی تک کان نہیں دھر رہے ہیں۔ وہ اب بھی ہسپتالوں اور سکولوں پر بمباری کر رہے ہیں اور خواتین اور بچوں کو بھوک اور سردی میں رکھ کر سزا دے رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’دو ریاستی حل خطرے میں ہے جیسے کبھی موجود ہی نہ تھا۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بارے میں کوئی اقدام اٹھائیں جیسے ہم نے یوکرین کے معاملے پر اٹھائے اور دہُرا معیار نہ اپنائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں انسانی امداد بھیجنے کی ضرورت ہے اور پناہ گزینوں کی مدد کرنے کی ضرورت ہے جو ہم پہلے ہی کر رہے ہی، لیکن مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
فیصلہ ’درست‘ ہے: آئرش وزیراعظم
آئرلینڈ کے وزیراعظم سائمن ہیرس نے اس حوالے سے مؤقف اپنایا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل ہی امن کی طرف ’معتبر راستہ‘ ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد پر عمل کرنے کے لیے ’غیر معینہ مدت‘ تک انتظار نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ ایک درست فیصلہ ہے۔اقوام متحدہ میں اب تک 140 ممالک فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے والوں میں 22 ممالک پر مشتمل عرب لیگ، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم اور 120 ممالک پر مشتمل نان الائنڈ موومنٹ بھی شامل ہے۔امریکہ اور برطانیہ ان ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے باضابطہ طور پر فلسطین کو ایک ریاست تسلیم نہیں کیا۔رواں برس کے آغاز میں برطانوی سیکریٹری خارجہ لارڈ کیمرون نے عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت اور اتحادی ’فلسطین کو بحیثیت ایک ریاست تسلیم کرنے معاملے کو دیکھ سکتی ہے۔‘اسرائیل فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کرتا اور وہاں پر قائم موجودہ حکومت غربِ اردن اور غزہ میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مخالف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی ریاست اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہوگی۔
ناروے اور اسرائیل میں قائم حکومتوں کے درمیان اختلافات
بی بی سی یورپ کے ڈیجیٹل ایڈیٹر پال کربی موجودہ صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسرائیل نے ناروے اور آئرلینڈ کی حکومتوں کے اعلانات پر فوراً ہی ردِعمل دیا اور اپنے سفیروں کو وہاں سے واپس بُلا لیا۔ان کا کہنا ہے کہ ناروے کی حکومت کو اسرائیل کے اس عمل کی توقع ہوگی کیونکہ وہاں قائم جونس گار ستورے کی حکومت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان مثالی تعلقات قائم نہیں ہیں۔پال کربی کے مطابق ناروے کی حکومتیں غربِ اردن میں اسرائیل کے اقدامات کی ناقد رہی ہیں اور وہ 1993 میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کو ہی امن حاصل کرنے کی معتبر حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ان کے مطابق ناروے سعودی عرب کے ساتھ مل کر ایک امن معاہدہ طے کروانا چاہتا ہے اور اس کا ماننا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست کے تسلیم کرنا اس تناظر میں ایک درست عمل ہے۔سعودی عرب کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنا اسرائیل کی پُرانی خواہش ہے لیکن 7 اکتوبر کو حماس کے حملوں کے سبب یہ معاملہ رُک گیا۔پال کربی کے مطابق ناروے چاہتا ہے کہ اسرائیل کی اس خواہش کی تکمیل کو فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے عمل سے منسلک کیا جائے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
ناروے، آئرلینڈ اور سپین کے فیصلے سے اسرائیل پر کیا فرق پڑے گا؟
بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جیمز لینڈیل کے مطابق دنیا میں اکثریتی ممالک پہلے سے ہی فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرتے ہیں۔ رواں مہینے اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے 143 ممالک نے فلسطین کو اقوام متحدہ کا رکن بنانے کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔سفارتی نامہ نگار سمجھتے ہیں کہ یہ ممالک اپنے عمل سے نہ صرف فلسطین کے لیے علامتی حمایت کا اعلان کر رہے ہیں بلکہ ان کے اس فیصلے سے جنگ بندی کے لیے شروع کیے گئے سیاسی عمل کو بھی مدد ملے گی۔متعدد عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ جنگ بندی کے بعد غزہ کی نگرانی کریں گے اور اس کی تعمیر میں بھی مدد کریں گے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس عمل کے بدلے میں مغربی دنیا فلسطین کو ایک ریاست تسلیم کرے۔اس تناظر میں ناروے، آئرلینڈ اور سپین کے اس فیصلے کو ایک سفارتی قدم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اس سے غزہ میں گراؤنڈ پر موجودہ صورتحال نہیں تبدیل ہوگی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.