- مصنف, محمود ایل نجار
- عہدہ, بی بی سی عربی، قاہرہ
- 9 منٹ قبل
اگر ایک انٹرنیشنل پاسپورسٹ رکھنے والے غیرملکی کو بم مار کر ہلاک کیا جا سکتا ہے تو سوچیں وہ ہمارے ساتھ کیا کریں گے؟ایک فلسطینی نوجوان محمد ابو رجیلا غزہ کی پٹی میں اپنے کام کے متعلق کچھ ایسے الفاظ میں بات چیت کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ بات چیت پہلی اپریل کو ایک اسرائیلی حملے میں ورلڈ سینٹرل کچن (ڈبلیو سی کے) سات ملازمین کی ہلاکت کے بعد ہو رہی ہے۔مارے جانے والوں میں برطانوی، پولش، آسٹریلین، فلسطینی اور امریکہ و کینیڈا کی دوہری شہریت رکھنے والا شخص بھی شامل ہے۔امداری ادارے کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں جنگ شروع ہونے سے لے کر اب تک ان کے ساتھ کام کرنے والے 196 فلسطینی کارکنان مارے جا چکے ہیں۔
ابو رجیلا ایک کونٹنٹ کریٹر ہیں جو جنگ سے پہلے غزہ اور فلسطینی ثقافت کے متعلق ویڈیوز بناتے تھے۔ سات اکتوبر کے بعد انھوں نے شہریوں کی مدد اور ان تک امداد پہنچانے کے لیے ’غزہ کے نوجوانوں‘ کے نام سے ایک مہم کا آغاز کیا۔ ،تصویر کا ذریعہReuters
شمالی غزہ میں قحط کا خطرہ
ڈاکٹر بشار مراد جو فلسطین میں ریڈ کراس کے ڈائریکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اور طبی عملہ بھی خوفزدہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ طبی قافلوں اور طبی عملے کی حفاظت کے لیے مختلف بین الاقوامی اور قومی اداروں کے ساتھ بات چیت کے باوجود، وہ حفاظتی ضمانتوں کے فقدان کی وجہ سے زخمیوں کو جنوب میں نکال کر شمال لانے سے گریزاں ہیں۔ڈاکٹر مراد نے کہا کہ ڈبلیو سی کے جیسی گاڑی جس پر پہچان والے نشانات تھے اوروہ اسرائیلی فریق کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کے تحت اپنا کام جاری رکھے ہوئے تھے، اس پر حملہ انسانی امداد کے کارکنوں کے لیے ایک مضبوط پیغام ہے۔’مجھے امید ہے کہ یہ حملہ ایک غلطی ثابت ہو گا۔‘اگرچہ غزہ کی زیادہ تر آبادی کئی دہائیوں سے انسانی امداد پر انحصار کرتی رہی ہے، ڈبلیو سی کے نے میری ٹائم کوریڈور اور اس کے ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک کے کھلنے کی وجہ سے تیزی سے اہمیت حاصل کی۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کے ترجمان عدنان ابو حسنہ کا کہنا ہے کہ ڈبلیو سی کے کی جانب سے کام کی معطلی سے غزہ کے شہری بالخصوص شمال میں بہت لوگ زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔’بہت سے غریب افراد ڈبلیو سی کے کی جانب سے دیے جانے والے کھانے پر انحصار کرتے ہیں۔‘’صرف ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی UNRWA کو شمال میں کام کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ غزہ میں سب سے بڑی اور بچ جانے والی امدادی تنظیم UNRWA غزہ کے تمام حصوں میں آزادانہ طور پر کام کر سکے۔ایک اندازے کے مطابق 300000 فلسطینی ابھی تک شمال میں پھنسے ہیں۔UNRWA کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے اسے شمالی غزہ میں خوراک کی تقسیم کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسے صرف وسطی اور جنوبی غزہ میں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔حسنا نے کہا کہ اسرائیلی پابندی ’قحط کی تشویش کو بڑھا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مئی تک شمالی غزہ میں وسیع پیمانے پر قحط پھیل جائے گا۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں داخل ہونے والی کسی بھی امداد کو نہیں روک رہا اور اقوام متحدہ کو اس کی تقسیم میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل نے مارچ میں براہ راست شمالی غزہ تک امداد کی ترسیل کے لیے ایک نیا راستہ شروع کیا، جسے 96 ویں گیٹ کا نام دیا جاتا ہے۔اسرائیلی وزارت دفاع کے ادارے کوگاٹ کا کہنا ہے کہ 20 مارچ تک کم از کم 86 بین الاقوامی امدادی ٹرک نئی کراسنگ کے ذریعے غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔ادھر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اکتوبر سے اب تک غزہ میں غذائی قلت کے نتیجے میں کم از کم 27 بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.