- مصنف, شارلٹ ایڈورڈز
- عہدہ, بی بی سی بزنس رپورٹر
- 2 گھنٹے قبل
لندن سے سنگاپور جانے والی سنگاپور ایئر لائن کی پرواز میں سفر کرنے والے مسافروں کو اس وقت ایک دل دہلا دینے والے تجربے سے گزرنا پڑا جب طیارے کو فضا میں شدید ٹربیولینس، یعنی تیز ہواؤں کی وجہ سے طیارے کو جھٹکے لگنا، کا سامنا کرنا پڑا۔73 سالہ برطانوی شہری، جیف کچن، اسی دوران دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوئے جبکہ متعدد مسافر زخمی ہوئے۔ٹربیولینس اس وقت ہوتی ہے جب بلندی پر اڑتا ہوا ہوائی جہاز ہوا کی لہروں سے ٹکرا کر اچانک بلندی کھو دیتا ہے یا پھر ہوا میں ہی ڈول سکتا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ٹربیولینس میں وقت کے ساتھ اضافہ بھی ہو رہا ہے۔یہ عمل فضا میں ہوا کے سمندر میں لہروں کے اٹھنے جیسے عمل کی مانند ہوتا ہے اور عموماً ایسے مقامات پر پیش آتا ہے جہاں بادل ہوں لیکن اس کی ایک قسم کلیئر ایئر ٹربیولنس بھی ہوتی ہے جب یہ عمل ایسے مقام پر ہوتا ہے جہاں مطلع صاف ہو۔
متعدد پائلٹوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس قسم کی صورت حال بہت زیادہ عام نہیں ہوتی اور ساتھ ہی انھوں نے بتایا ہے کہ ایسی صورت حال میں وہ خود طیارہ اڑاتے ہوئے کیا کرتے ہیں اور کیسے ردعمل دیتے ہیں۔کیپٹن کرس ہیمنڈ ایک ریٹائرڈ پائلٹ ہیں جو 43 سال تک اسی پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئی مسافر بردار طیارہ ایسی صورت حال کا شکار ہو جاتا ہے تو سب سے پہلے پائلٹ کو چاہیے کہ وہ خود کو سیٹ کے سٹریپ (یا ہارنس) کی مدد سے محفوظ بنائیں اور ’اس طرح کا اعلان کرنے کے بارے میں سوچیں جس سے مسافر زیادہ پریشان نہ ہوں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’اگر پائلٹ کو پہلے سے ہی ایسی کسی صورت حال کے پیش آنے کا علم ہو جائے تو باآسانی اس سے نمٹا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ ایئر ٹربیولینس ہے تو پھر معاملہ مختلف ہوتا ہے۔‘
’کلیئر ایئر ٹربیولینس‘، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں بادل نہیں ہوتے اور یہ دیکھی نہیں جا سکتی۔ اسی لیے یہ پریشان کن ہو سکتی ہے کیوں کہ اس کو جانچنا مشکل ہوتا ہے۔ایما ہینڈرسن بھی ایک سابق پائلٹ ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ عام طور پر پائلٹوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ٹربیولینس آ سکتی ہے۔ تاہم ان کے مطابق لندن سے سنگاپور جانے والی پرواز کا معاملہ مختلف تھا کیوں کہ ’ایسا لگتا ہے کہ پائلٹ کو پیشگی اطلاع نہیں تھی۔‘’اس لیے نہیں کہ یہ سمندر کے اوپر اڑ رہا تھا بلکہ اس لیے کیوں کہ اس مقام پر اردگرد زیادہ پروازیں نہیں تھیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.