فضل الرحمان: دنیا کی بلند ترین عمارت اور سعودی حج ٹرمینل بنانے والے ’آئن سٹائن آف انجینیئرنگ‘ جنھوں نے پاکستان کو خیرباد کہا
اس کے علاوہ انھوں نے سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم کنگ عبدالعزیز ایئرپورٹ کا حج ٹرمینل اور کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی بھی ڈیزائن کی تھی۔بیسویں صدی میں بُلند و بالا عمارتیں بنانے میں لوگ زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس پر خطیر رقم خرچ ہوتی تھی اور لوگ سمجھتے تھے کہ ان عمارتوں کی تعمیر سے ماحول پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔بنگلہ دیش کے ’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق فضل الرحمان خان نے انجینیئرنگ کی دُنیا میں’ٹیوب سٹرکچرل سسٹم‘ متعارف کروایا جس کے سبب بُلند عمارتیں بنانے میں کم پیسے خرچ ہونے لگے اور ان عمارتوں کو مختلف اشکال دینا بھی آسان ہوگیا۔بنگلہ دیش کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ڈیپارٹمنٹ اور سِول انجینیئرنگ کے مطابق دبئی میں واقع دُنیا کی بُلند ترین عمارت ’بُرج خلیفہ‘ کا ڈیزائن بھی فضل الرحمان خلیل کے متعارف کردہ سٹرکچرل ڈیزائن کی طرز پر بنایا گیا۔امریکی سٹرکچرل انجینیئر مارک سارکیسین ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’فضل الرحمان خان ایک دور اندیش شخص تھے جنھوں نے شہروں کے اندر بُلند عمارتوں کو بدل کر رکھ دیا لیکن انجینیئرنگ کے اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے۔‘
پاکستان سے امریکہ کا سفر اور بنگلہ دیش کی آزادی کے لیے جدوجہد
فضل الرحمان خان متحدہ ہندوستان میں سنہ 1929 میں ڈھاکہ کے ضلع فرید پور میں پیدا ہوئے تھے اور ان کے والد عبدالرحمان خان ریاضی کے اُستاد تھے۔’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق فضل الرحمان خان نے انجینیئرنگ کی تعلیم موجودہ انڈیا کی ریاست مغربی ریاست میں قائم ’بنگال انجینیئرنگ اینڈ سائنس یونیورسٹی‘ سے حاصل کی۔ہندوستان کی تقسیم کے بعد وہ مشرقی پاکستان آ گئے اور انھیں امریکہ میں فُل برائٹ سکالرشپ مل گئی اور وہ یونیورسٹی آف ایلانائے پڑھے چلے گئے۔فضل الرحمان خان نے اگلے تین برس میں سٹرکچرل انجینیئرنگ اور اپلائیڈ مکینکس میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔انسائیکلوپیڈیا کمپنی بریٹینیکا کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مختصر وقت کے لیے وہ پاکستان واپس آئے اور کراچی ڈویلپمینٹ اتھارٹی میں ملازمت اختیار کی۔،تصویر کا ذریعہSOM
بنگلہ دیش کی آزادی اور فضل الرحمان خان کی خدمات
بنگلہ دیش کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پر فضل الرحمان خان کی زندگی پر چھپے ایک مضمون کے مطابق انھوں نے ملک کی آزادی کی جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ میں بنگلہ دیشی افراد کو متحرک کیا اور انھیں آزادی کے حق میں قائل کیا۔’وہ بنگلہ دیش کے حق میں لوگوں کی رائے بنانے میں مصروف رہے اور شکاگو میں بنگلہ دیش ایمرجنسی ویلفیئر اپیل اور بنگلہ دیش ڈیفنس لیگ نامی تنظیمیں بھی قائم کیں۔‘اس مضمون کے مطابق فضل الرحمان خان نے امریکہ میں پاکستانی سفارت اور قونصل خانوں میں تعینات سفیروں کو بنگلہ دیشی سفارتخانے جوائن کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔’بنگالی سفارت کاروں کی اکثریت پاکستان سفارتخانے چھوڑ کر بنگلہ دیشی سفارتخانے قائم کرنے پر راضی تو تھی لیکن انھیں مالی غیر یقینی کا سامنا تھا۔‘ایسے وقت میں فضل الرحمان خان نے واشنگٹن اور نیویارک میں موجود سفارت کاروں کو مالی مدد کی یقین دہاںی کروائی۔’انسٹٹیوشن آف انجینیئرز‘ کے مطابق ربندراناتھ ٹیگور کی بنگالی شاعری میں دلچسپی رکھنے والے انجینیئر کو بنگلہ دیش کی حکومت نے 1999 میں ’یومِ آزادی ایوارڈ سے بھی نوازا اور ان کے اعزاز میں یادگار سٹیمپ بھی جاری کی۔‘فضل الرحمان خان کو سِول انجینیئرنگ کے لیے ان کی خدمات پر دُنیا بھر میں ایوارڈز سے نوازا گیا۔وہ 27 مارچ 1982 میں صرف 52 برس کی عمر میں سعودی عرب کے شہر جدہ میں انتقال کر گئے اور انھیں شکاگو میں دفنایا گیا۔ان کی موت پر امریکی میگزین ’انجینیئرنگ نیوز ریکارڈ‘ نے لکھا تھا کہ ’ان کی بنائی گئی عمارتیں برسوں کھڑی رہیں گی اور ان کے آئیڈیاز کبھی نہیں مریں گے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.