فرانس کے سکولوں میں عبایہ پہننے پر پابندی: ’لڑکیاں شارٹس پہن سکتی ہیں تو عبایہ کیوں نہیں؟‘

فرانس، عبایہ

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, ہیو شوفیلڈ، خادیدیاتو سیسی اور کین پیری
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، پیرس اور لندن

ایک نوجوان لڑکی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کیوں نہیں کر سکتی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے مگر بظاہر فرانسیسی حکام کو لگتا ہے کہ ان کے پاس اس کا اچھا جواز ہے۔

جو کہ وسیح طور پر یہ ہے کہ وہ بطور فرانسیسی ایک قوم ہیں اور نوجوان اس کا حصہ ہے۔ سیکولرزم کا معاملہ واضح طور پر فرانس کی پہچان ہے جو اسے اپنے پڑوسیوں سے منفرد کرتا ہے۔

لہذا اس ہفتے جب فرانس کے سکولوں میں لڑکیوں کے عبایہ پہننے پر پابندی لگائی گئی تو بیرون ملک لوگوں نے اس اقدام پر حیرت اور برہمی کا اظہار کیا لیکن ایک سروے کے مطابق 81 فیصد فرانسیسیوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔

فرانسیسی مسلم خواتین سمیت باقی دنیا کے نزدیک یہ انسانی آزادی کی صریح خلاف ورزی سمجھی گئی جبکہ فرنس میں اس اقدام کو ریاست کے مساوات کے اقدار کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اس میں کچھ تیسری اقدار اخوت بھی شامل ہے۔ لہٰذا اکثر لوگوں کو اس پابندی میں کوئی بہت بڑا مسئلہ نظر نہیں آیا۔

فرانس، عبایہ

،تصویر کا ذریعہLOIC VENANCE/AFP

عبایہ 30 سال سے زیادہ پرانی بحث کا محض ایک نیا تکرار ہے۔ مسلم لڑکیوں کو ان کے لباس – سر ڈھانپنے – کی وجہ سے سکولوں میں داخلے سے انکار کرنے کا پہلا شائع شدہ کیس 1989 میں پیرس کے قریب کریل قصبے میں ہوا۔

اس واقعے کے بعد سنہ 2004 میں فرانس میں قانون متعارف کروایا گیا جس میں سکولوں میں مذہبی وابستگی کے ’نمایاں‘ مظاہرے پر پابندی لگا دی گئی۔ سنہ 2010 کے قانون میں عوامی جگہوں پر نقاب کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور سنہ 2016 میں برکینی موضوع بحث رہا جس پر پابندی نہیں لگائی گئی۔

گذشتہ عرصے کھیل کے میدان میں سکارف سے سر ڈھنپنے پر بھی کافی زیادہ بحث ہو رہی ہے۔

یہ تازہ تنازعہ حکومتی اعداد و شمار کی وجہ سے شروع ہوا جس سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے تعلیمی سال میں سکولوں میں ’سیکولرزم کی خلاف ورزی‘ کے طور پر بیان کیے جانے والے واقعات میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔

سال 2021 سے 2022 میں ایسے 617 واقعات ریکارڈ ہوئے تھے۔ یہ اب بڑھ کر 1984 ہو گئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت واقعات عبایہ پہنے ہوئے مسلم نوعمر لڑکیوں سے متعلق تھے۔

فرانس، عبایہ

،تصویر کا ذریعہDENIS CHARLET/AFP

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

روایتی طور پر عبایے کا رنگ سیاہ ہوتا ہے لیکن اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور اب یہ مختلف رنگوں اور سٹائل میں دستیاب ہے۔

بہت سی مسلم خواتین کے لیے یہ فیشن کی اتنی ہی علامت بن گئی ہے جتنی اس کی روایتی شناخت۔ لگژری فیشن برانڈ ڈولچے اینڈ گبانا نے سنہ 2016 میں مشرق وسطیٰ میں عبایے کی کولیکشن جاری کی۔

فرانس میں حکومت کا نظریہ یہ ہے کہ سکولوں میں عبایے کا زیادہ تعداد میں نمودار ہونا صرف نوجوانوں کی ثقافتی ورثے میں دوبارہ دلچسپی پیدا ہونے کی کہانی نہیں ہے۔

خیال ہے کہ اس روایت کی ترغیب سے نظام چیلنج ہوتا ہے اور فی الحال اسے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سنہ 2004 کے قانون نے مذہب کی ’نمایاں‘ علامات پر پابندی لگا دی تھی۔ اس میں واضح طور پر اسلامی سکارف شامل تھے، جو اب فرانسیسی سکولوں سے غائب ہو چکے ہیں۔ لیکن کیا اس میں اسلامی طرز کے لمبے لباس بھی شامل تھے؟

سکول کے سربراہ حکومت سے رہنمائی مانگ رہے تھے کیونکہ وہ دیکھ سکتے تھے کہ یہ روش ایک رجحان بنتا جا رہا ہے۔ کچھ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر انفوئنسر اس کی ترغیب دے رہے ہیں اور بعض مذہبی گروہوں کا تعلق اخوان المسلمین سے ہے۔

سابق وزیر تعلیم پاپ ندائے نے اس پر مؤقف اختیار کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے ناقدین کے مطابق، وہ امریکی تعلیمی اداروں میں اس کی تاریخ سے متاثر تھے۔

جولائی کے بعد پاپ ندائے کی جگہ صدر ایمانویل میکخواں کے نوجوان اتحادی گیبریل اٹل نے لی اور ان کو اس سے مسئلہ نہیں تھا۔ انھوں نے تعلیمی ٹرم کے شروع ہونے سے پہلے عبایے پر پابندی لگائی۔

فرانس، عبایہ

،تصویر کا ذریعہCAROLINE BLUMBERG/POOL/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

بہت سے فرانسیسی مسلمانوں کے لیے یہ قاعدہ توہین آمیز ہے کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ ان کا مذہب ہے جسے ہمیشہ مخصوص نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اپنی توہین کی وجہ سے فرانس چھوڑنے والی شمالی افریقی نسل کی ایک مسلمان خاتون چیمے نے شکایت کی کہ ’اگر چھوٹی لڑکیاں شارٹس، لیگنگ، ڈریس پہن کر گھوم سکتی ہیں تو انھیں بھی عبایہ پہننے کا حق ہونا چاہیے۔‘

سینیگالی نژاد مسلمان خاتون سوکھنا میمونہ سو، جو 11 سال قبل فرانس میں تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں، کہتی ہیں کہ یہ پابندی بکواس ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ آزاد ملک ہے لیکن آپ کو ایسے کام کرنے کی اجازت نہیں ہے جو آپ کی ثقافت اور مذہب کا حصہ ہیں۔‘

پیرس سے تعلق رکھنے والی 21 سالہ لینا عبایے کو ثقافتی لباس طور پر دیکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’ہر سال جب مسلمانوں کی بات ہوتی ہے تو فرانس ان کے لیے کچھ نیا قانون لاتا ہے۔‘

مصری نژاد فرانسیسی مسلمان خاتون دورا اس بات سے متفق ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کسی بھی دوسرے لباس کی طرح صرف ایک لمبا لباس ہے، تو پھر سکولوں میں اس پر پابندی کیوں؟ میں عبایہ نہیں پہنتی، لیکن مجھے افسوس ہے کہ فرانس اس مقام تک پہنچ گیا ہے۔‘

اس طرح کے خیالات کو سیاسی میدان کے ایک چھوٹے لیکن اہم حصے کی حمایت حاصل ہے، بنیاد پرست بائیں بازو کی حمایت۔

جون لوک میلانشان کی فرانس آسومیس پارٹی نے پابندی کی شدید مذمت کی ہے اور حکومت پر مسلمانوں کے ساتھ ’جنونی‘ ہونے کا الزام لگایا ہے۔

فرانس، عبایہ

،تصویر کا ذریعہAMEER ALHALBI/ANADOLU AGENCY VIA GETTY IMAGES

مگر باقی سیاسی اسٹیبلشمنٹ عوامی حمایت کی عکاسی کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔

بائیں بازو کے ٹیچر یونین بھی اس کی حمایت کرتے ہیں اور یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ حجاب کا مسئلہ سکولوں کے لیے فنڈنگ میں کمی جیسے ’اصل معاملے کو چھپاتا ہے‘۔

غیر مسلم ٹیچر منون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سکولوں میں عبایے پر پابندی ہونی چاہیے کیونکہ جب کوئی کلاس میں آئے تو مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں ہونی چاہیے۔‘

دراصل مسلمانوں سمیت اکثر فرانسیسی شہریوں کا خیال ہے کہ مذہب کو اصولی طور پر سکول سے باہر رکھنا چاہیے۔

جب صدر میکخواں کہتے ہیں کہ طلبہ کو دیکھ کر ان کے مذہب کا پتا نہیں چلنا چاہیے تو اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے۔

ان کا ماننا ہے کہ اس کا سختی سے نفاذ طویل مدت میں انفرادی آزادی کی یقین دہانی کرے گا اور فرانس اس کی بدولت مختلف ’برادریوں‘ میں بٹ نہیں سکے گا۔ وہ اس بات پر بھی حامی بھرتے ہیں۔

فرانس میں اکثر لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ فیمنسٹ (خواتین کے حقوق کی کارکنان) کے مطابق عبایہ کوئی مذہبی لباس نہیں بلکہ جسم کو ڈھانپنے والا روایتی لباس ہے۔

پابندی کے ایک ہفتے بعد اس کے خلاف اتنی مزاحمت سامنے نہیں آئی۔ مگر مظاہرے کی ایک شکل تب سامنے آئی جب 67 لڑکیوں نے سکول کے نئے سال کے آغاز پر عبایہ پہنے رکھا۔

تاہم ادھر کوئی بڑی تحریک کے اشارے نہیں ملتے۔ ایک بار پھر فرانس نے واضح کیا کہ وہ دوسرے ممالک سے مختلف ہے۔

فرانس کی اعلی ترین انتظامی عدالت سٹیٹ کونسل نے پابندی ختم کرنے کے کسی اقدام کو مسترد کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ یہ فرانسیسی قانون پر مبنی ہے اور اس سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

باہر کے لوگ شاید عبایے پر پابندی سے پریشان ہوں مگر بظاہر فرانس کے اندر اس پر زیادہ مزاحمت سامنے نہیں آ رہی۔

BBCUrdu.com بشکریہ