فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے نتائج پاکستان کے لیے کیا ہوں گے؟
- سارہ عتیق
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پاکستان کے متعدد شہروں میں مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے پرتشدد مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہرین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ متنازع خاکوں کی اشاعت پر فرانس کے سفیر کو ملک بدر اور فرانس کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔
پاکستان کی وفاقی حکومت نے 16 نومبر 2020 کو اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے مطالبے کے ساتھ دھرنا دینے والی تحریک لبیک پاکستان کے سابق سربراہ خادم حسین رضوی سے چار نکات پر معاہدہ کیا تھا جن کے تحت حکومت کو دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو واپس بھیجنا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں فرانس میں تاریخ کے ایک استاد کو اپنی کلاس میں پیغمبر اسلام کے متنازع خاکے دکھانے پر قتل کر دیا گیا تھا، جس کے بعد فرانسیسی صدر ایمینوئل میکخواں نے ملک کی سیکولر اقدار کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔
فرانس نے مبینہ اسلامی شدت پسندی کے خلاف جو موقف اپنایا تھا اس کی عالمی سطح پر بہت سے لوگوں نے حمایت کی لیکن عالم اسلام میں اکثریت نے اس پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان سمیت متعدد اسلامی ممالک کی عوام کی جانب سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا گیا جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے فرانس کے پاکستان میں سفیر کو طلب کر کے شدید احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
تاہم مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا اصرار ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ لیکن اس کے سفارتی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے نتائج کیا ہوں گے؟
یہ بھی پڑھیے
فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے نتائج پاکستان کے لیے کیا ہوں گے؟
فرانس کے سفیر کی ملک بدری کا معاملہ نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ پاکستان کی بین الاقوامی ساخت اور تعلقات پر اس کے براہ راست اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
فرانس میں پاکستان کے سابق سفیر غالب اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان اور فرانس کے تعلقات ماضی میں بہت اچھے تھے لیکن گذشتہ کچھ عرصے میں دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہوئے ہیں جس کی ایک اہم وجہ فرانس اور انڈیا کے تعلقات میں بہتری اور قربت ہے۔
’اگر آج پاکستان مذہبی جماعت کے دباؤ میں آ کر فرانس کے سفیر کو ملک سے نکال دیتا ہے تو نہ صرف اس کے اثرات پاکستان اور فرانس کے دو طرفہ تعلقات پر پڑیں گے بلکہ مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی جیسا کہ سلامتی کونسل اور یورپی یونین جن کا فرانس مستقل رکن ہے، پاکستان کے لیے مشکلیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
سابق سفیر غالب اقبال کا کہنا ہے کہ فرانس کے سفیر کی ملک بدری پر نہ صرف فرانس بلکہ دیگر مغربی ممالک کی جانب سے سخت ردعمل آئے گا کیونکہ کوئی بھی ملک جو ایک گروہ کے دباؤ میں آ کر ان کے مطالبات مان لیتا ہے تو اس کے لیے آزادانہ خارجہ اور داخلہ پالیسی کا حصول بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
اسلام آباد کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ اگرچہ دہشتگردوں کو مالی معاونت روکنے والے ادارے ایف اے ٹی ایف کی جانب سے جن شدت پسند تنظیموں پر اعتراضات کیے گئے ان میں تحریک لبیک کا ذکر نہیں ہے لیکن فرانس ایف اے ٹی ایف کا اہم رکن ہے اور اس کے سفیر کی ملک بدری کا اثرا یقیناً پاکستان کی پوزیشن پر پڑے گا۔
خیال رہے کہ رواں سال فروری میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان کو جون تک کی مہلت دی تھی کہ وہ تجویز کردہ 27 میں سے بقیہ تین سفارشات پر مزید کام کرے۔
فروری میں ہونے والے اجلاس میں فرانس نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کی سخت مخالفت کی تھی۔
فرانس میں پاکستان کے سابق سفیر غالب اقبال بھی سمجھتے ہیں کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی صورت میں پاکستان کو نہ صرف ایف اے ٹی ایف میں بلکہ دوسرے ممالک کے ساتھ لین دین میں شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ڈاکٹر خرم اقبال کے مطابق ’فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے اور یورپ پاکستان کی مصنوعات کی اہم منڈی تو اس فیصلے کے پاکستان کے لیے معاشی نتائج بھی ہو سکتے ہیں جبکہ فرانس پاکستان میں متعدد ترقیاتی منصوبے بھی چلا رہا ہے جو اس فیصلے سے متاثر ہو سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ یورپ خاص طور پر فرانس میں رہنے والے پاکستانیوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
فرانس کے سفیر کی ملک بدری کے علاوہ پاکستان کیا کر سکتا ہے؟
اگرچہ مذہبی جماعت تحریک لبیک پاکستان کی قیادت کا اصرار ہے کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے اور خارجہ پالیسی ماہرین کے مطابق اس فیصلے پر عمل کرنے کی صورت میں پاکستان کو سنگین سفارتی نتائج کا سامنا ہو سکتا ہے تو پاکستان کے پاس اس مسئلہ کے حل کے لیے کیا آپشنز دستیاب ہیں؟
سابق سفیر غالب اقبال کا کہنا ہے کہ اس وقت فرانس میں پاکستان کا کوئی سفیر موجود نہیں ہے لیکن اگر کوئی سفیر ہوتا تو اس کو چند ماہ کے لیے واپس بلا کر مشاورت کی جا سکتی تھی جس کے شاید فرانسیسی سفیر کے بلک بدری جتنے سنگین نتائج نہ ہوتے۔
غالب اقبال کا کہنا ہے کہ ‘حکومت عوام کو پرامن رکھنے کے لیے ان کے ساتھ مشاورت ضرور کرے لیکن اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ سفارت کاری میں آپ کھبی لوگوں کو خوش کرنے کے لیے فیصلے نہیں کرتے بلکہ وہ فیصلے لیتے ہیں جو آپ کے لیے فائدہ مند ہوں اور آپ کو بلکل کاروباری طریقے کے ساتھ سفارت کاری کرنا پڑتی ہے۔ آپ کو یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آیا یہ فیصلہ آپ کے ملک کے لیے اچھا ہے یا نہیں اگر یہ آپ کے ملک کے لیے اچھا ہے تو سنگین نتائج سے قطع نظر آپ کو اسے لینا چاہیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ یہ نہیں کر سکتے کہ آپ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کر دیں اور پھر دنیا کو کہیں کہ ہم مجبور تھے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ آپ کے لیے ٹھیک ہے تو اسے پاکستان کے پارلیمان میں لے کر جائیں اور اس کے مطابق اس پر عمل کریں۔‘
ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت جہاں اپنے سیاسی دفاتر کا استعمال کرتے ہوئے مغربی ممالک خاص طور پر فرانس کی حکومت کو اس مسئلے سے متعلق پاکستانی عوام کے جذبات سے آگاہ کر سکتی ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حکومت تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں کے خلاف نفرت اور تشدد پر اکسانے جیسے قوانین کے تحت کارروائی کرے تاکہ آئندہ ایسے گروہ قانون ہاتھ میں نہ لیں اور پاکستانی معاشرے میں شدت پسندی کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔
Comments are closed.