امیر فرانسیسی بیوہ اور مراکش کا مالی: ایک پراسرار قتل کیس 30 سال بعد دوبارہ زندہ کیوں ہو گیا؟
1991 میں عمر الرعداد کے ہاتھوں 65 سالہ خاتون کے مبینہ قتل کیس نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا تھا
1991 میں عمر الرعداد کے ہاتھوں 65 سالہ خاتون کے قتل مقدمے نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مقتولہ گشلین مارشل ناصرف ایک بیوہ تھی بلکہ امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی جب کہ 29 سالہ تارک وطن ملزم عمر الرعداد کا تعلق مراکش سے تھا جو بطور مالی مقتولہ کے گھر میں کام کرتا تھا۔
1994 میں اس کیس میں عمر الرعداد کی جانب سے الزام کو رد کیے جانے کے باوجود انہیں مجرم قررا دیتے ہوئے 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ لیکن آغاز سے ہی یہ کیس پراسرار اور تنازعات کا شکار رہا جس کی بنیاد مقتولہ کے خون آلود ہاتھوں سے ایک دروازے پر موت سے قبل لکھی گئی یہ تحریر تھی ‘مجھے عمر نے مارا۔’
لیکن اس تحریر میں موجود گرائمر کی ایک غلطی کے ساتھ ساتھ اس کیس میں نسل پرستی کے الزامات نے اسے متنازع بنا دیا جس کے بعد عمر رعداد کو دو سال بعد 1996 میں اس وقت کے فرانسیسی صدر ژاق شیراق نے جزوی معافی دے دی جس کے تحت انہیں جیل سے رہائی تو ملی لیکن ان پر عائد سزا جوں کی توں برقرار رہی۔
30 سال بعد یہ کیس دوبارہ زندہ ہو چکا ہے کیوں کہ 59 سالہ عمر الرعداد کی جانب سے نئے شواہد سامنے آنے پر دوبارہ کیس کھولنے کی درخواست کی گئی جسے منظور کر لیا گیا ہے۔ عمر الرعداد کو امید ہے کہ نا صرف اب ان کی سزا ختم ہو سکے گی بلکہ اس جرم کے اصلی مجرموں کی شناخت بھی ممکن ہو گی۔
گشلین مارشل قتل کیس جس نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیا
1991 میں 65 سالہ گشلین مارشل فرانس کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے فرنچ ریویریا میں اپنے ولا میں تناہ رہتی تھیں۔ عمر الرعداد ان کے باغات کی رکھوالی بطور مالی کیا کرتے تھے۔
ان دونوں کی دنیا بلکل الگ تھی۔ ایک جانب گشلین جس کا تعلق فرانس کے ایک امیر اور مشہور خاندان سے تھا جن کے والدین نے دوسری جنگ عظیم کے دوران فرانس پر جرمنی کے قبضے کے بعد نازیوں کے خلاف مہم میں حصہ لیا تھا۔ گشلین کے دوسرے شوہر ایک بڑی جائیداد ورثے میں چھوڑ گئے تھے۔ دوسری طرف عمر الرعداد تھا جو مراکش میں پلا بڑھا اور ان پڑھ تھا اور فرانیسی زبان سے بھی نابلد تھا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق عمر کے والد بھی فرانس کے اسی علاقے میں بطور مالی کام کرتے تھے جہاں اسے بھی کام مل گیا۔
وقوعہ کے دن گشلین مارشل کو اپنی دوستوں کی طرف جانا تھا۔ جب کافی دیر تک وہ نہیں پہنچیں تو ان کی دوستوں نے ان سے رابطے کی کوشش کی جس کے بعد گشلین کی تشدد زدہ لاش ان کے گھر سے ملی۔ پولیس کے مطابق جائے وقوعہ پر گشلین کی لاش گھر کے تہہ خانے میں موجود تھی جس کا دروازہ اندر سے ایک فولڈ ہونے والے بیڈ کی مدد سے بند کرنے کی کوشش کی گئی۔ دروازے پر فرانسیسی زبان میں خون سے تحریر تھا ‘مجھے عمر نے مارا’۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ تحریر مقتولہ کے اپنے خون سے لکھی گئی تھی۔
کیس کی سماعت کے دوران عمر الرعداد کی ایک تصویر
کیا خون آلود تحریر واقعی گشلین کے ہاتھوں کی تھی؟
اس سوال پر ماہرین خطاطی میں اختلاف موجود ہے۔ لیکن گشلین مارشل کے خاندان نے الزام لگایا کہ یہ قتل واقعی عمر نے ہی کیا تھا جس کو اس بات کا غصہ تھا کہ اس کی جانب سے تنخواہ کی قبل از وقت ادائیگی کے مطالبے کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ گشلین کے خاندان کی جانب سے دعوی کیا گیا کہ عمر نے گشلین کو مارنے کے بعد اس کے پرس سے پیسے چرائے جس کے بعد وہ تہہ خانے سے فرار ہو گیا۔ اسی دوران، گشلین کے خاندان کے مطابق، مقتولہ نے اپنے خون سے قاتل کی نشان دہی کر دی۔
عمر نے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ یہ جرم اس نے نہیں کیا۔ یہ دعوی کیا گیا کہ اصل قاتل نے گشلین کے خون سے دروازے پر یہ تحریر لکھی جس کا مقصد عمر کو پھانسنا اور اصل مجرمان پر پردہ ڈالنا تھا۔ عمر کے وکلا کی جانب سے یہ دعوی بھی کیا گیا کہ گھر سے عمر کا ڈی این اے اور فنگر پرنٹس کا نہ ملنا اس بات کا ثبوت تھا کہ اس قتل میں عمر ملوث نہیں۔ لیکن عمر الرعداد کو سزا سنا دی گئی۔
یہ بھی پڑھیے
ڈریوفس کیس سے مماثلت
اس کیس کی تفصیلات منظر عام پر آنے کے بعد فرانس میں نسلی امتیاز کی بحث چھڑ گئی اور اس کیس کو ڈریوفیس کیس سے مماثلت دی جانے لگی جس میں 1894 میں کیپٹن ڈریوفیس نامی فرانسیسی افسر، جو یہودی تھا، پر غداری کے الزامات لگائے گئے تھے لیکن بعد میں وہ جھوٹے نکلے۔ ڈریوفیس کی حمایت میں اس وقت کے مشہور فرانسیسی مصنف ایملی زولا نے صدر کے نام ایک کھلا خط لکھا اور بعد میں ثابت ہوا کہ ڈریوفیس پر غلط الزام لگا کر سزا سنائی گئی تھی۔
ڈریوفیس کیس میں کہا گیا تھا کہ سزا سنانے کی وجہ یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک تھا جب کہ عمر کے کیس میں اس کا عرب ہونا اس کی سزا کی وجہ بنا۔ اسی کہانی اور کیس پر بحث سے متاثر ہو کر عمر الرعداد کے حق میں فرانسیسی ناول نگار جین میری روارٹ نے ایک کتاب لکھی جس میں دعوی کیا گیا کہ ایک مرتی ہوئی عورت کی جانب سے خون سے قاتل کی نشان دہی افسانوی بات لگتی ہے۔
گشلین مارشل کی بہن
30 سال بعد کیس دوبارہ کیوں کھل رہا ہے؟
اس پرانے کیس کو دوبارہ زندہ کرنے کی وجہ ڈی این اے سے متعلق ایک نئی ٹیکنالوجی بنی۔ 2015 میں جائے وقوعہ سے اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے چار نامعلوم افراد کے نشانات پائے گئے۔ عمر الرعداد کے وکیل کے مطابق یہ نشانات اصل قاتلوں کی نشان دہی کر سکتے ہیں جب کہ گشلین مارشل کی بھتیجی اور وکیل سبین کہتی ہیں کہ 30 سال پرانے جائے وقوعہ پر حاصل کردہ نشانات کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
لیکن عمر کے حامیوں کا خیال ہے کہ اس کیس کو دوبارہ شروع کر کہ عمر کی معصومیت ثابت کی جا سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عمر کو جزوی معافی دے کر اس کیس کا حل نہیں نکالا جا سکتا کیوں کہ اس کیس سے فرانس میں نسلی امتیاز کی بحث بھی جڑی ہے۔
گرائمر کی غلطی کا معمہ
اس کیس کی ایک اہم بات جو خون آلود تحریر سے جڑی تھی وہ اس میں گرائمر کی غلطی تھی۔ اس تحریر میں ماہرین کے مطابق گرائمر کا غلط استعمال کیا گیا تھا جس سے یہ بحث شروع ہوئی کہ کیا ایک متمول پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی خاتون ایسی معمولی سی غلطی کر سکتی ہے۔
یہ سوال عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران بھی زیر بحث رہا جہاں عمر کے وکلا کی جانب سے بھی یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ایسی غلطی کوئی ایسا شخص ہی کر سکتا ہے جو کم پڑھا لکھا ہو۔
اینا بیل فرانسیسی زبان کی گرائمر کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ فرانس میں زبان کے درست استعمال کا تعلق بھی کسی حد تک اشرافیہ سے ہے کیوں کہ ماضی میں عام تاثر یہ تھا کہ محنت کش طبقے اور اشرافیہ کی زبان میں فرق ہونا چاہیئے۔
گشلین مارشل کی بھتیجی اور وکیل سبین کہتی ہیں کہ مقتولہ کسی یونیورسٹی سے نہیں پڑھی ہوئی تھیں اور ‘اس وقت وہ جس کیفیت سے گزر رہی تھیں اس میں گرائمر کی غلطی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔’
یہ بات بھی اہم ہے کہ فرانس میں اس گرائمر کی غلطی ایک عام بات ہے۔ ناول نگار جین میری روارٹ بھی اس سے متفق ہیں کہ فرانس میں بہت اعلی پائے کے لکھاری بھی ایسی غلطی کر جاتے ہیں۔ لیکن یہ غلطی اس کیس کی ایک شہ سرخی بنی رہی اور اسے اس کیس میں غلط سزا اور انصاف کے نظام کے جھول کے ساتھ جوڑا گیا۔
گشلین مارشل کی بھتیجی اور وکیل سبین کہتی ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقتولہ کے خاندان نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لی تھی کیوں کہ عام عوام اس کیس میں یکطرفہ رائے بنا چکے تھے۔
عمر کی جیل سے چھوٹنے کے بعد تصویر
‘عمر اب تک تکلیف میں ہے’
عمر الرعداد کے وکیل سلوی نیویکووچ کہتی ہیں کہ اس کیس میں سزا کے بعد جزوی معافی کے باوجود وہ آج تک تکلیف میں ہیں۔ ‘وہ گھر سے باہر نہیں نکل سکتا۔’ سلوی کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے تازہ ترین شواہد کو ازسر نو دیکھنے کی اجازت نے انہیں ایک نئی امید دی ہے۔
‘ہمیں امید ہے کہ اس کیس کو دوبارہ کھولنے سے بیسویں صدی کے سب سے غلط عدالتی فیصلے کو درست کیا جا سکے گا۔’
گشلین مارشل کے خاندان کا اب بھی خیال ہے کہ ان کا قاتل عمر ہی تھا۔ ان کی رائے میں جائے وقوعہ سے ملنے والا نیا ڈی این اے کیس میں سزا ختم کرنے کے لیے کافی نہیں۔
سبین کہتی ہیں کہ وہ اپنی آنٹی سے بہت قریب تھیں اور قتل سے تین دن پہلے ان سے فون پر ہونے والی بات چیت آج بھی ان کے کانوں میں گونجتی ہے۔
گشلین کے قتل میں 1994 میں وکیل ہینری لیکریک کا کہنا ہے کہ ‘آج جب بھی کسی سے سوال کیا جائے کہ غلط عدالتی سزا کی کوئی مثال دیں تو وہ عمر کا نام لیتا ہے۔ عوامی رائے کو بدلنا مشکل ہوتا ہے۔’
Comments are closed.