فرانس میں پُرتشدد مظاہرے: 17 سالہ ناہیل کی نمازِ جنازہ کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان دوبارہ جھڑپیں
فرانس میں پُرتشدد مظاہرے: 17 سالہ ناہیل کی نمازِ جنازہ کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان دوبارہ جھڑپیں
- مصنف, جارج رائٹ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
فرانس میں پولیس کی فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کے بعد مارسے شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ملک میں پانچ روز سے پُرتشدد واقعات جاری ہیں مگر وزیر داخلہ کے مطابق گذشتہ شب مظاہروں کے اعتبار سے قدرے خاموشی رہی۔
فرانسیسی حکام کا کہنا ہے کہ سنیچر کی شب ملک بھر سے 719 مشتعل مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جبکہ جھڑپوں میں 45 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور مظاہرین نے 800 مقامات پر آتش زنی کی۔
اب تک جنوبی شہر مارسے سے کم از کم 56 افراد کو گرفتار ہوچکے ہیں۔ ویڈیوز میں پولیس کو آنسو گیس استعمال کرتے دیکھا جاسکتا ہے
مگر مرکزی پیرس میں پولیس کی بھاری نفری نے بظاہر وہاں احتجاجی مظاہروں کو روک دیا ہے۔
17 سال کے ناہیل ایم کی آخری رسومات میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ناہیل کو ٹریفک لائٹ پر نہ رکنے پر ایک پولیس اہلکار نے گولی چلا کر مار دیا تھا۔
منگل کو پیرس کے نواحی علاقے نانتیرے میں اس ہلاکت کے بعد سے فرانس کے کئی شہروں میں افراتفری کا ماحول ہے۔
ایک ٹویٹ میں وزیر داخلہ جیرالڈ ڈرمانن نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ’ٹھوس اقدام‘ اور اس کی بدولت ’پُرامن رات‘ کو سراہا۔
سنیچر کی شب ملک بھر میں قریب 45 ہزار پولیس اہلکاروں کو سکیورٹی بڑھانے کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
وزارت داخلہ کے مطابق سنیچر کو 486 افراد گرفتار ہوئے جبکہ جمعے کی شب تک 1300 سے زیادہ اور جمعرات کو 900 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
مارسے میں سنیچر کی شب پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ آن لائن گردش کرنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس شہریوں پر آنسو گیس استعمال کر رہی ہے۔
فرانسیسی میڈیا کے مطابق یہ چھڑپیں مارسے کے مرکز میں واقع اہم مقامات پر ایک گھنٹے سے زیادہ دیر تک جاری رہیں۔
سوشل میڈیا پر لوگوں سے مطالبہ کیا جاتا رہا کہ مظاہرین پیرس میں جمع ہوں تاہم پولیس کی بھاری نفری نے احتجاج کو محدود رکھا۔
پیرس کی پولیس کے مطابق اس نے 194 گرفتاریاں کی ہیں۔ شہر میں لگاتار دوسری رات بس اور ٹرام سروس معطل رکھی گئی۔
اطلاعات کے مطابق فرانس کی وزیر اعظم الزبتھ بورن نے پیرس میں پولیس کے کمانڈ روم اجلاس میں شرکت کی تاکہ امن و امان کو برقرار رکھنے کی کوششوں کا جائزہ لیا جا سکے۔
جنوبی پیرس کے نواحی علاقے کے میئر نے کہا کہ مشتعل حملہ آور کی گاڑی ان کے گھر سے ٹکرائی اور اس گاڑی کو نذر آتش کیا گیا۔ اس حملے میں ان کی بیوی اور ایک بچہ زخمی ہوا ہے۔
شمالی شہر للی میں پولیس کی سپیشل فورسز سڑکوں کا گشت کر رہی تھیں۔ شہر سے ایسے مناظر کی تصاویر سامنے آئی ہیں جن میں فائر فائٹر مظاہرین کی جانب سے نذرِ آتش کی گئیں گاڑیوں کی آگ بجھا رہے ہیں۔
لیون میں 21 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ نیس اور سٹراسبرگ میں بھی جھڑپیں ہوئیں۔
حکام کو امید ہے کہ ٹرننگ پوائنٹ آن پہنچا ہے اور مظاہرین اپنی توانائی کھو رہے ہیں کیونکہ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کر رکھا ہے اور مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ کی مذمت کی جا رہی ہے۔
تاہم جب تک مزید دن امن قائم نہیں رہتا، کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
ناہیل کی آخری رسومات سنیچر کو نانتیرے کی ایک مسجد میں ہوئیں جہاں ہزاروں شرکا نے ’ناہیل کے لیے انصاف‘ کے نعرے لگائے۔ ان کی میت کے گرد نوجوان جمع تھے۔ فرانسیسی میڈیا کے مطابق مسلمانوں نے ان کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی۔
خاندان نے نیوز میڈیا کو اس کی کوریج سے دور رکھا تھا۔ وہاں ویڈیو بنانے اور فون استعمال کرنے پر پابندی تھی۔ شرکا سے کہا گیا تھا کہ کوئی بھی سنیپ چیٹ یا انسٹاگرام استعمال نہ کرے۔
ناہیل پر اس وقت گولی چلائی گئی جب انھوں نے ٹریفک چیک پر رکنے سے انکار کیا۔ امدادی ٹیم کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ دم توڑ چکے تھے۔
ناہیل کی موت کے بعد شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو پولیس افسران نے گاڑی روکنے کی کوشش کی اور ایک موقع پر ایک پولیس اہلکار اپنی بندوق کا رُخ ڈرائیور کی جانب کرتے ہیں۔
واقعے میں ملوث پولیس اہلکار کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے اور ان پر جان بوجھ کر قتل کرنے کا الزام عائد ہے۔ انھوں نے خاندان سے معذرت بھی کی ہے اور ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ انھیں اس ہلاکت پر دُکھ ہے۔
ناہیل کی موت نے فرانس میں پولیس کے تشدد پر بحث دوبارہ چھیڑ دی ہے۔ 2017 سے نافذ آتشیں اسلحے سے متعلق قوانین میں پولیس کو یہ اجازت ہے کہ اگر کوئی ڈرائیور گاڑی نہیں روکتا تو وہ گولی چلا سکتے ہیں۔
اس تناظر میں پولیس پر نسل پرستی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہے کہ فرانس میں بدامنی سے یہ موقع ملا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں نسل پرستی کے مسئلے کو حل کیا جائے۔
صدر ایمانویل میکخواں نے جمعے کو پُرتشدد واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ تشدد کے لیے ناہیل کی موت کو جواز کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ نوجوان کی موت کا استحصال ناقابل قبول ہے۔
Comments are closed.