فرانس میں پُرتشدد مظاہرے: ’گاڑی نہ روکنے‘ پر قتل کیے جانے والے 17 سالہ نوجوان ناہیل ایم کون تھے؟
- مصنف, پال کربی
- عہدہ, بی بی سی نیوز
17 سالہ ناہیل ایم کے قتل کے بعد فرانس کے مختلف شہروں کے ساتھ ساتھ پیرس کے مغربی علاقے نانتیرے میں بھی فسادات پھوٹ پڑے ہیں۔
اس معاملے پر بدھ اور جمعرات کے دوران فرانس کے بڑے شہروں میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔ پیرس میں بس اور ٹرام سروسز معطل کی گئی ہیں۔ ایک پولیس افسر کو گرفتار کر کے ان پر قتل کی فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر ایسے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جن میں گاڑیوں اور املاک کو نذر آتش کیا گیا۔ مظاہروں پر قابو پانے کے لیے 40 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں نے نوجوان کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔
اپنی ماں کی واحد اولاد ناہیل ایم گھروں میں کھانا پہنچانے والے ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے اور رگبی لیگ کھیلتے تھے۔
ناہیل کی تعلیم زیادہ اچھی نہیں تھی۔ انھوں نے الیکٹریشن کی تربیت حاصل کرنے کے لیے سرسنس کے ایک کالج میں داخلہ لیا تھا جہاں وہ رہتے تھے۔
جو لوگ انھیں جانتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ وہ نانتیرے سے بہت پیار کرتے تھے جہاں وہ اپنی والدہ مونیا کے ساتھ رہتے تھے۔ ناہیل بظاہر اپنے والد کو نہیں جانتے تھے۔
ناہیل کا کالج میں حاضری کا ریکارڈ اچھا نہیں تھا لیکن ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ بھی نہیں تھا۔ البتہ پولیس ناہیل کو جانتی تھی۔
انھوں نے گذشتہ روز کام پر جانے سے پہلے اپنی ماں کو بوسہ دیا اور کہا: ’امی، میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔‘
صبح نو بجے کے کچھ ہی دیر بعد پولیس ٹریفک چیکنگ کے دوران گاڑی نہ روکنے پر ان کے سینے میں گولی مار دی گئی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر زیرِ گردش ہے۔
ناہیل کی ماں نے اپنے بیٹے کی موت پر کہا: ’اب میں کیا کروں گی؟ میں نے اپنا سب کچھ اس کے لیے وقف کر دیا تھا۔میرے کوئی دس بچے تو نہیں ہیں، میرا صرف ایک بچہ تھا۔ وہ میری زندگی تھی، میرا سب سے اچھا دوست تھا۔‘
ناہیل کی نانی انھیں ایک اچھا اور مہربان لڑکا کہا ہے۔
سوشلسٹ پارٹی کے رہنما اولیور فورے کا کہنا ہے کہ ‘رکنے سے انکار آپ کو قتل کرنے کا لائسنس نہیں دیتا۔ جمہوریہ کے تمام بچوں کو انصاف کا حق حاصل ہے۔‘
ناہیل نے پچھلے تین سال پائریٹس آف نانتیرے رگبی کلب کے لیے کھیلتے ہوئے گزارے تھے۔ وہ سکول میں مشکل حالات کا سامنا کرنے والے نوجوانوں کی مدد کے پروگرام کا حصہ تھے، جسے اوول سیٹوئن نامی ایک ایسوسی ایشن چلاتی ہے۔
اس پروگرام کا مقصد محروم علاقوں کے لوگوں کو اپرنٹس شپ میں لانا تھا اور ناہیل الیکٹریشن بننا سیکھ رہے تھے۔
اوول سیٹوئن کے صدر جیف پیوچ مقامی طور پر ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو ناہیل کو سب سے بہتر جانتے تھے۔ انھوں نے کچھ دن پہلے ہی ناہیل کو دیکھا تھا اور ایک ایسے بچے کے بارے میں بات کی تھی جو رگبی کا استعمال کرتا تھا۔
پیچ نے لی کو بتایا کہ ’وہ ایک ایسا شخص تھا جو سماجی اور پیشہ ورانہ طور پر معاشرے میں فٹ ہونا چاہتا تھا نہ کہ کوئی ایسا بچہ جو منشیات کا کاروبار کرتا تھا یا جرائم سے لطف اندوز ہوتا تھا۔‘
سوشل میڈیا پر ناہیل کی کردار کشی کے برعکس جیف پیوچ نے ان کے ’مثالی رویے‘ کی تعریف کی۔
جیف پیوچ ناہیل کو اس وقت سے جانتے تھے جب وہ پابلو پکاسو سٹیٹ میں منتقل ہونے سے پہلے نانتیرے کے ویکس پونٹ مضافاتی علاقے میں اپنی والدہ کے ساتھ رہتے تھے۔
البتہ اس بات کو نظرانداز نہیں کیا گیا ہے کہ ناہیل کے خاندان کا تعلق الجزائر سے تھا۔ پارک ڈی پرنسز سٹیڈیم کے باہر پیرس رنگ روڈ پر ایک بینر لہرایا گیا تھا جس پر لکھا تھا کہ ’اللہ ان پر رحم کرے۔‘
فرانس کے ایک اور شہر میں ایک نوجوان نے ناہیل کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ عرب یا سیاہ فام ہیں تو یہاں پولیس تشدد ہر روز ہوتا ہے۔‘
تاہم خاندان کے وکیل یاسین بوزرو کا کہنا ہے کہ یہ نسل پرستی کے بارے میں نہیں بلکہ انصاف کے بارے میں ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہمارے پاس ایک ایسا قانون اور عدالتی نظام ہے جو پولیس افسران کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور اس سے فرانس میں استثنیٰ کا کلچر پیدا ہوتا ہے۔‘
سنہ 2021 سے اب تک ناہیل کو پانچ مرتبہ ایسی پولیس چیکنگ کا سامنا کرنا پڑا ہے جن میں پولیس سے تعاون کرنے سے انکار کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ ہفتے کے آخر میں مبینہ طور پر اس طرح کے انکار پر انھیں حراست میں رکھا گیا تھا اور انھیں ستمبر میں ایک جووینائل عدالت کے سامنے پیش ہونا تھا۔
ناہیل کی موت پر ہونے والے ہنگاموں نے 2005 میں کے ہنگاموں کی یاد دلا دی ہے جب دو نوجوان اس وقت کرنٹ لگنے سے ہلاک ہو گئے تھے جب وہ فٹ بال کے کھیل کے بعد پولیس سے فرار ہو کر پیرس کے مضافاتی علاقے میں بجلی کے سٹیشن میں گھس گئے تھے۔
فرانسیسی ویب سائٹ میڈیا پارٹ سے بات کرتے ہوئے محمد نامی ایک نوجوان نے کہا کہ ‘یہ میں ہو سکتا تھا اور یہ میرا چھوٹا بھائی بھی ہو سکتا تھا۔‘
نائل ایم کی جائے وفات پر پھول رکھے گئے ہیں
Comments are closed.