فرانس میں پرتشدد مظاہرے: پولیس ناکوں پر اسلحے کا استعمال کیوں کر رہی ہے؟

france

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, لورا گوزی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

پیرس میں پولیس کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں ایک 17 سالہ نوجوان کی ہلاکت فرانس میں پیش آنے والے ایسے ہلاکت خیز واقعات میں سے ایک ہے جن کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

یہ رواں سال میں پولیس ناکوں پر ہونے والی تیسری ہلاکت تھی اور گذشتہ برس اس کے باعث 13 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں سے اکثر عرب یا سیاہ فام تھے۔

ناکوں پر فائرنگ کے بارے میں قانون کیا کہتا ہے؟

سنہ 2017 میں قانون میں تبدیلی کے بعد اب فرانس کی پولیس پانچ موقعوں پر فائرنگ کر سکتی ہے۔

ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب ڈرائیور اور گاڑی میں موجود دیگر مسافر گاڑی روکنے کے حکم کی تعمیل نہ کریں اور وہ پولیس اہلکار یا عام عوام کی زندگی اور تحفظ کے لیے خطرہ بن جائیں۔

فرانس کے انسانی حقوق کے محتسب نے منگل کو ناہیل ایم کی ہلاکت کے خلاف ایک انکوائری کا آغاز کیا ہے۔ یہ گذشتہ برس کے آغاز سے چھٹی ایسی انکوائری ہے۔

اس میں ملوث اہلکار پر قتل کا الزام لگایا گیا ہے۔

police

،تصویر کا ذریعہReuters

فرانس میں پولیس کے اسلحے کے استعمال میں اضافہ کیوں ہوا؟

فرانس میں دور افتادہ علاقوں میں اس سے پہلے پرتشدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔ ان علاقوں میں غربت، بیروزگاری اور جرائم بہت زیادہ تھے اور پولیس کا کہنا ہے کہ یہاں تشدد میں وقت کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

سنہ 2016 میں پیرس سے باہر موجود رہائشی علاقوں میں ایک اہلکار کو جھلسنے کے بعد کوما میں رکھنا پڑا تھا کیونکہ کچھ نوجوانوں نے ان کی گشت پر موجود گاڑی پر پیٹرول بم پھینکے تھے۔

پولیس یونینز کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا اور حکومت سے ایک مضبوط ردِ عمل کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس کے ردِ عمل میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ نے پولیس کے اسلحہ استعمال کرنے سے متعلق قانون میں تبدیلی کا وعدہ کیا تھا اور مارچ 2017 میں تعزیرات فرانس کے آرٹیکل 435 (1) کی منظوری دی گئی تھی۔

ناہیل ایم کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

منگل کو پولیس نے 17 سالہ الجیرین نژاد ناہیل ایم کو اس وقت گولی مار دی جب وہ ایک ناکے سے گاڑی بھگا کر لے گئے۔

فرانس کے علاقے ننتارے کے سرکاری وکیل کے مطابق ناہیل کو اس وقت گولی ماری گئی جب انھوں نے دو افسران کے حکم کے برخلاف اپنی گاڑی نہیں روکی۔

ان افسران نے بعد میں دعویٰ کیا کہ ناہیل کی گاڑی متعدد ٹریفک خلاف ورزیوں میں ملوث تھی اور اس سے پیدل چلنے والے شہریوں کو خطرہ تھا۔

جمعرات کو لارینٹ فرینک لینارڈ کا کہنا تھا کہ ان کے کلائنٹ نے قانون کے دائرے سے باہر نکل کر کوئی عمل نہیں کیا۔

france

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اسلحے سے متعلق قانون پر تنقید کرنے والوں کا کیا مؤقف ہے؟

گذشتہ برس شائع ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قانون کے اطلاق کے بعد سے پولیس کی جانب سے کی گئی ہلاکت خیز شوٹنگز میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔

سنہ 2022 میں پولیس کی جانب سے ہلاک ہونے والے 39 افراد میں سے 13 ڈرائیور تھے جنھیں حکم کی تعمیل نہ کرنے پر ہلاک کیا گیا تھا۔

ان میں ریانا بھی شامل تھیں جو ایک نوجوان خاتون تھی جنھیں پولیس نے اس وقت گولی ماری جب وہ ایک گاڑی میں بطور مسافر سفر کر رہی تھیں اور اس گاڑی کے ڈرائیور نے پولیس کے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں اضافہ آرٹیکل 435-1 کے اطلاق کی وجہ سے ہے اور ان کے نزدیک اس میں ابہام موجود ہے کیونکہ اس سے افسران یہ فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ آیا کوئی شخص خطرہ بن سکتا ہے یا نہیں۔

فرانسیسی این جی او ہیومن رائٹس لیگ کے صدر ہنری لکلیئر کا کہنا تھا کہ یہ قانون افسران کو اپنے اسلحے کے حوالے سے پابندیوں سے بالاتر کرنے کا کام دیتا ہے کیونکہ یہ فائرنگ کرنے کو قانونی تحفظ دیتا ہے۔

کچھ سیاست دانوں نے بھی اس قانون پر نظرثانی کرنے کی بات کی ہے۔ انتہائی بائیں بازو کے سیاست دان جین لک مالینشان نے اس قانون کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’قتل کرنے کا حق دینے والا‘ قانون قرار دیا ہے۔

حکومت کی جانب سے اس قانون پر تنقید کو مسترد کیا گیا ہے اور ملک کے سابق وزیرِ داخلہ نے کہا ہے کہ سنہ 2017 کے بعد سے پولیس نے کم افراد کو قتل کیا تاہم تحقیقاتی رپورٹنگ کرنے والے ادارے باسٹا کی ایک تحقیق کے مطابق یہ دعویٰ غلط ہے۔

ان کے مطابق پولیس نے 2017 میں 27 جبکہ 2020 میں 40 اور 2021 میں 52 افراد کو ہلاک کیا۔

سابق وزیرِ داخلہ نے کہا کہ یہ قانون افسران کو کسی بھی صورت میں گولی چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ انھوں نے کہا کہ پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیت یا ٹریننگ میں کمی کو اس قانون سے نہیں جوڑنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

france

،تصویر کا ذریعہGetty Images

فرانس میں ہلاکتوں کا دیگر ممالک سے موازنہ

سنہ 2021 میں فرانس میں پولیس آپریشنز کے دوران 37 ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں سے 10 گولی مار کر کی گئی ہیں۔ یہ اعداد و شمار پولیس ریگولیٹر آئی جی پی این کی جانب سے شائع کیے گئے ہیں اور یہ میڈیا ادارے باسٹا کی جانب سے جاری اعداد و شمار سے کم ہے۔

یہ اعداد و شمار فرانس میں پولیس کی جانب سے کی گئی ہلاکتوں کو ہر 10 لاکھ میں سے اعشاریہ پانچ پر لے آتا ہے۔

اکثر ممالک ان اعداد و شمار کو مختلف انداز میں رپورٹ کرتے ہیں، اس لیے ان کا موازنہ کرنا ایک مشکل عمل ہے۔ مثال کے طور پر یہاں یہ سوال ہے کہ یہ اموات آپریشن کے دوران ہوئیں یا بعد میں۔

تاہم یہ امریکہ کے مقابلے میں بہت کم ہے ہیں جہاں یہ نمبر 3.5 فی دس لاکھ افراد ہے اور کینیڈا میں یہ 1.5 فی دس لاکھ افراد ہے۔

یہ انگلینڈ اور ویلز سے زیادہ ہے جہاں یہ نمبر 0.2 ہے۔

اضافی رپورٹنگ: اینتھونی روبن

BBCUrdu.com بشکریہ