فرانس میں ’میکخواں کا جوا‘ سمجھے جانے والے انتخابات جو پناہ گزین مخالف جماعت کو پہلی بار اقتدار کی دہلیز تک لے آئے
نیشنل ریلی کے 28 سالہ رہنما جارڈن بارڈیلا نے کہا کہ اگر فرانسیسی عوام نے مجھے ووٹ دیا تو میں ان کا وزیراعظم بننا چاہوں گا۔سینیئر مبصر الین ڈومیل نے کہا کہ ’اس سے پہلے انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں فرانسیسی پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کبھی نہیں جیتی تھیں۔ اب ایسا ہوا ہے، یہ تاریخی ہے۔‘فرانس کی 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کے لیے میرین لا پین اور جارڈن بارڈیلا کو 289 نشستیں درکار ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
میکخواں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیوں کیا؟
صدر ایمانوئل میکخواں کو اگلے تین برس تک انتخابات کروانے کی ضرورت نہیں تھی لیکن رواں ماہ نو جون کے یورپی انتخابات میں حکومتی اتحاد کے نتائج کے اعلان کے ایک گھنٹے بعد انھوں نے ٹی وی پر خطاب کے دوران کہا تھا کہ وہ یہ نہیں دکھا سکتے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان کی جماعت اس الیکشن میں تیسرے نمبر پر آئی ہے اور ان کے اتحاد کو انتہائی دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی پارٹی سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انھوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ فرانس کے لوگ اور سیاست دان جو شدت پسندی کے بخار میں مبتلا نہیں ہیں ایک نیا اتحاد بنائیں۔‘ انھوں نے کہا کہ یہی ’سب سے ذمہ دارانہ حل‘ ہے۔چونکہ یہ انتخابات پارلیمان کے لیے کروائے جا رہے ہیں، اس لیے اس سے میکخواں کی مدت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان کی صدارت کی مدت ختم ہونے میں ابھی تین سال باقی ہیں۔بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ میکخواں کے قبل از وقت انتخابات کرانے کے اعلان پر حیران نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ میکخواں کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔وہ دو سال قبل ہونے والے انتخابات میں مکمل اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے تھے جس کی وجہ سے انھیں نئے قوانین اور اصلاحات کی منظوری میں مشکلات کا سامنا ہے۔حالیہ دنوں میں ان کی مقبولیت میں بھی کمی آئی اور قبل از وقت انتخابات سے وہ اتحاد کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے کی امید رکھتے تھے۔،تصویر کا ذریعہReuters
یہ انتخابات کیوں اہم ہیں؟
بی بی سی کے نامہ نگار ہیو سکوفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات نہ صرف فرانس بلکہ یورپ کے لیے بھی تاریخ کا بدلتا ہوا رخ ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصہ پہلے تک یہ تصور نہیں کیا جا سکتا تھا کہ فرانس جیسے ملک میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت جس کا مرکز یہود مخالف نظریہ ہے اور جو بہت سے معاملات پر سخت موقف رکھتی ہے، حکومت بنا سکتی ہے۔‘ایک طرح سے یہ الیکشن یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ ملک دوسری عالمی جنگ کے بعد کے دور سے آگے بڑھنے لگا ہے۔ فاشزم، قدامت پسندی، قوم پرستی اور ریپبلکن فرنٹ جیسے سیاسی الفاظ بحث میں استعمال ہوتے ہیں لیکن ان کے معنی کم ہوتے جا رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
کون سی جماعتیں میدان میں ہیں؟
فرانس کے پارلیمانی انتخابات میں ایک درجن کے قریب جماعتیں اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ تاہم اصل لڑائی تین اہم جماعتوں اور اتحادوں کے درمیان ہے۔نیشنل ریلییہ انتہائی دائیں بازو کی جماعت ہے جو حالیہ یورپی انتخابات میں شاندار کارکردگی کے بعد اس وقت انتخابات میں سب سے آگے ہے۔ حالیہ دنوں میں اس نے اپنے آپ کو یہود دشمنی اور انتہا پسندی کی حمایت کے اپنے بنیادی نظریے سے الگ کر لیا ہے حالانکہ یہ امیگریشن کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔اگر یہ پارٹی اقتدار میں آتی ہے تو وہ غیر ملکی نژاد والدین کے بچوں کے فرانسیسی شہریت کے حق کو خود بخود ختم کر سکتی ہے۔اس کی قیادت 28 سالہ جارڈن بارڈیلا کر رہے ہیں اور اگر پارٹی جیت جاتی ہے تو وہ ملک کے اب تک کے سب سے کم عمر وزیراعظم بن سکتے ہیں۔نیا پاپولر فرنٹ الائنسیہ اس وقت بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ہے اور اس میں سوشلسٹ، کمیونسٹ، گرینز اور فرانس اناباؤڈ (ایل ایف آئی) شامل ہیں۔ یہ اتحاد انتخابات میں دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ تمام جماعتیں انتہائی دائیں بازو کو اقتدار سے دور رکھنے کے ارادے سے اکٹھی ہوئی ہیں۔یہ اتحاد موجودہ حکومت کی متنازع پنشن اصلاحات کو تبدیل، کم از کم اجرت میں اضافہ اور غیر دستاویزی تارکین وطن کے لیے ایک ریسکیو ایجنسی بنانا چاہتا ہے۔اینسمبل الائنسیہ سینٹرسٹ پارٹیوں کا اتحاد ہے جو اس نظریے کے لیے اپیل کر رہا ہے، حالانکہ سروے بتاتے ہیں کہ لوگ دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف جھکاؤ شروع کر رہے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس اتحاد کے کچھ امیدوار دوسرے مرحلے تک نہ پہنچ پائیں۔،تصویر کا ذریعہReuters
فرانس میں انتخابات کیسے ہوتے ہیں؟
فرانسیسی پارلیمنٹ میں 577 نمائندے ہیں جنھیں ڈپٹی کے نام سے جانا جاتا ہے اور انھیں منتخب کرنے کے لیے ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر رہے ہیں۔حکومت بنانے یا پارلیمنٹ میں مطلق اکثریت حاصل کرنے کے لیے 289 نشستیں درکار ہوتی ہیں۔ پہلے راؤنڈ میں وہ تمام امیدوار جو ووٹرز سے کم از کم 12.5 فیصد ووٹ حاصل نہیں کر سکے تھے وہ انتخابی دوڑ سے باہر ہو گئے ہیں۔کوئی بھی امیدوار جو 50 فیصد ووٹ حاصل کرتا ہے یا اپنے حلقے میں ووٹروں کی کل تعداد کا کم از کم ایک چوتھائی حاصل کرتا ہے اسے فاتح تصور کیا جائے گا۔ تاہم ایسا بہت کم موقعوں پر ہوتا ہے۔فرانس میں نیم صدارتی نظام ہے جس میں صدر اور وزیر اعظم دونوں بین الاقوامی اور ملکی معاملات کو سنبھالتے ہیں۔وزیر اعظم حکومت کا سربراہ ہے اور صدر مملکت کا سربراہ ہے۔ فرانس میں 2002 سے صدارتی انتخابات کے فوراً بعد پارلیمانی انتخابات کروائے جاتے ہیں۔
کیا میکخواں کا ’جوا‘ فرانس کی سیاسی تصویر بدل دے گا؟
اتوار کو ہونے والی ووٹنگ کے دوسرے مرحلے میں نشستوں کے جائزے کے مطابق اگرچہ میرین لی پین کی پارٹی کو کامیابی حاصل ہو سکتی ہے لیکن وہ قطعی اکثریت سے بہت دور رہ سکتی ہے۔سادہ اکثریت کے بغیر فرانس میں معلق پارلیمنٹ قائم ہو سکتی ہے۔ اس پارلیمنٹ میں نیشنل ریلی اپنی امیگریشن پالیسیوں، ٹیکسوں میں کٹوتیوں اور نئے امن و امان سے متعلق دفعات پر عمل درآمد نہیں کر سکے گی۔یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں نیشنل ریلی کی کامیابی کے بعد صدر ایمانوئل میکخواں نے اچانک انتخابات کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن کہا جا رہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔یہ ان کی جانب سے کھیلا گيا ایک جوا تھا لیکن اب اس کی وجہ سے سیاسی صورتحال بدلنے کا خطرہ ہے۔16 ملین فرانسیسی شہریوں نے نیشنل ریلی کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ کچھ قدامت پسند رپبلکنز نے بھی نیشنل ریلی کی حمایت کی ہے۔1997 کے بعد پہلی بار پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹروں نے ووٹ ڈالے ہیں۔ اس راؤنڈ میں 66.7 فیصد ووٹنگ ہوئی۔ووٹنگ کے پہلے راؤنڈ کے بعد نیشنل ریلی کے 37 ارکان اسمبلی کو آدھے سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ دوسری جانب بائیں بازو کے اتحاد نیو پاپولر فرنٹ کے 32 امیدوار منتخب ہوئے ہیں۔نیشنل ریلی کی کامیابی کے بعد بائیں بازو کے سینکڑوں حامی پیرس کے مشہور سکوائر پلیس ڈی لا ریپبلک پر جمع ہوئے اور اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ وہ نیشنل ریلی کی کامیابی پر سخت ناراض تھے۔صدر میکخواں نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دوسرے دور میں ایک وسیع، مکمل جمہوری اور ریپبلکن اتحاد کو منتخب کرنے کا وقت آ گیا ہے۔کئی دیگر قائدین نے بھی حامیوں سے خطاب کیا۔ تاہم وزیراعظم گیبریل ایٹل نے اپنے حامیوں کے سامنے مختصر تقریر بھی کی۔وہ بائیں بازو کی جماعتوں میں سب سے زیادہ بنیاد پرست جماعت کے رہنما ہیں۔ یہ جماعت بھی نیو پاپولر فرنٹ میں شامل ہے تاہم وہ وزیر اعظم سے متفق ہیں کہ نیشنل ریلی کو اب ایک ووٹ بھی نہیں ملنا چاہیے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.