فرانس میں افطار کے لیے فٹ بال میچ میں وقفہ کی ممانعت: ’کھیل کے ضابطوں میں اس کی اجازت نہیں‘

فٹ بال

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@FRENCHTEAM

فرانس کی فٹ بال فیڈریشن نے ریفریوں کو ہدایات دی ہیں کہ رمضان کے دوران مسلمان کھلاڑیوں کو روزہ افطار کرنے کی اجازت دینے کے لیے میچ نہ روکا جائے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق متعدد میڈیا اداروں نے جمعرات کو ریفریز کو اس سلسلے میں بھیجی گئی ایک ای میل کی تصدیق کی ہے۔

فرانس کے برعکس انگلینڈ کی پریمیئر لیگ نے مسلمان کھلاڑیوں کو روزہ افطار کے وقت وقفہ کی اجازت دی ہوئی ہے اور وہ اس معاملے میں فرانسیسی فٹ بال فیڈریشن کے قوانین کی تقلید نہیں کرتے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانس کی فٹ بال فیڈریشن کے نوٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ رمضان میں روزے کی افطاری کے باعث جاری میچوں میں خلل پڑ رہا تھا۔

فٹ بال فیڈریشن کے فیڈرل ریفری کمیشن کے سربراہ ایرک بورگھینی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ کھیل کود کرنے کا اپنا وقت ہے جبکہ اپنے مذہب پر عمل کرنے کا بھی وقت ہوتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’فیڈریشن کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ محدود تعداد میں شوقیہ سطح کے اجلاس کو اس لیے روک دیا گیا ہے تاکہ روزہ دار کھلاڑیوں کو پانی کمی سے بچنے اور خود کو ‘ہائیڈریٹ رکھنے کی اجازت دی جا سکے۔‘

ایرک بورگھینی کے مطابق ’کھیل کے طے شدہ ضابطوں میں اس کی اجازت نہیں ہے، جبکہ فٹ بال کے قوائد میں سیکولرازم کے اصول کا سختی سے احترام شامل ہے۔‘

دوسری جانب انگلش فٹ بال لیگ نے ماہ رمضان میں مسلمان کھلاڑیوں کے لیے فرانس کے برعکس فیصلہ کیا ہے۔

انگلش فٹ بال نے پریمیئر لیگ کے میچز کو رمضان کے مہینے میں روکنے کی اجازت دی ہے جس دوران مسلمان طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں۔

فرانس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

اس حوالے سے فٹ بال کلب نائس کے کوچ ڈیڈیر ڈیگارڈ نے بتایا کہ ٹیم میں شامل کئی مسلمان کھلاڑیوں نے بغیر کسی پریشانی کے اپنے مقدس مہینے کو منایا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ بہتر ہو گا کہ اگر فرانس روزہ افطار کے وقت وقفے کی اجازت دے، تاہم اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو کوئی ان کو اس کے لیے مجبور نہیں کر سکتا کیونکہ وہ مسلمان ملک نہیں اور آپ کو اس ملک کے قوائد کو قبول کرنا ہوگا جس میں آپ رہتے ہیں۔‘

واضح رہے کہ فرانس کے قوانین کے تحت ملک میں مردم شماری کے دوران لوگوں سے ان کے مذہب کے بارے میں نہیں پوچھا جاتا اور اس کی مذہب کی بنیاد پر گنتی نہیں کی جاتی۔

تاہم رائے شماری کرنے والی تنظیمیں اور غیر سرکاری ادارے جیسے بروکنگز انسٹٹیوٹ اور پیئو ریسرچ کے مطابق فرانس میں 57 لاکھ سے زیادہ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 30 سے 35 لاکھ افراد الجزائر یا مراکش نژاد شہری ہیں۔

چھ کروڑ سے زیادہ کی آبادی والے ملک میں اس اعتبار سے مسلمان ملک کی دوسری سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ