جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

فرانس اور سویڈن میں خواتین کے قتل کی بڑھتی وارداتوں کی وجہ کیا ہے؟

خواتین پر تشدد: فرانس اور سویڈن میں حالیہ مہینوں میں خواتین کے بڑھتے قتل کی وجہ کیا ہے؟

جائے وقوعہ پر پھول رکھ کر مقتولہ کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشن

جائے وقوعہ پر پھول رکھ کر مقتولہ کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا ہے

فرانس اور سویڈن میں حالیہ عرصے کے دوران خواتین کو ان کے پارٹنرز یا سابقہ پارٹنر کی جانب سے قتل کرنے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

رواں ہفتے قتل ہونے والی اکتیس سالہ شینیز فرانس میں اس برس اپنے پارٹنر یا سابق پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونے والی 39ویں خاتون ہیں۔ جبکہ گزشتہ پانچ ہفتوں میں سویڈن میں چھ خواتین کے قتل کی وارداتوں نے ملک میں گھروں میں عورتوں پر مظالم کے موضوع پر ایک عوامی بحث چھیڑ دی ہے۔

فرانس میں عورت کے قتل کی تازہ ترین واردات کے بعد خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متشدد پارٹنرز سے آتشیں اسلحہ واپس لے لیں۔

فرانس سے تعلق رکھنے والی شینیز کے تین بچے ہیں اور انھیں ان کے شوہر نے گولی مارنے کے بعد آگ لگا دی تھی۔ ان کے شوہر کو گھریلو تشدد کے جرم میں سزا ہو چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

فرانس کی وزیر برائے شہریت مارلین شیاپا نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ ان کی ہمدردی مقتولہ کے خاندان کے ساتھ ہے۔

فرانس میں حقوق نسواں کی تنظیم ‘لا فاؤنڈیشن دیس فیمینیس’ کا کہنا ہے کہ اپنے موجودہ یا سابقہ پارٹنر کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین میں ایک تہائی وہ عورتیں شامل ہیں جنھیں آتشیں اسلحے سے قتل کیا جاتا ہے۔

تنظیم نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسلسل خبردار کیے جانے کے باوجود وزارت داخلہ متشدد پارٹنرز سے آتشیں اسلحہ واپس لینے میں ناکام رہی ہے۔

شینیز

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

اِکتس سالہ شینیز کو ان کے شوہر نے قتل کر دیا تھا

شینیزکا قتل کیسے ہوا؟

منگل کو جس وقت شینیز پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تو وہ اپنے شوہر سے پہلے ہی علیحدہ ہو چکی تھیں۔

ان کے شوہر نے جنوب مغربی فرانس میں میریگنیک کے علاقے میں پہلے ان کی ٹانگ پر گولی مار کر انھیں زخمی کیا اور بعد میں آگ لگا دی۔

حکام کے مطابق ملزم کو گزشتہ برس جون میں 18 ماہ قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں سے آدھی سزا کو معطل رکھا گیا تھا۔ اس کی رہائی کی شرائط میں یہ شامل تھا کہ وہ اپنی بیوی یا اس کے گھر کے قریب نہیں جائیں گے۔

لا فاؤنڈیشن دے فیمینیس نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ ملزم کو سزایافتہ افراد کو پہنایا جانے والا الیکٹرانک ٹیگ کیوں نہیں لگایا گیا تھا۔ تنظیم کی صدر این سیسلی میلفرٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس محض 40 الیکٹرانک کڑے تقسیم کیے گئے تھے حالانکہ حکومت متشدد پارٹنرز کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کے استعمال کی منظوری دے چکی ہے۔

خواتین کے خلاف تشدد روکنے کے لیے فرانس کیا کر رہا ہے؟

فرانس میں زن کشی اس وقت عام بحث کا موضوع بنی جب 2019 میں صنف کی بنیاد پر تشدد کے خلاف ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ فرانس کے وزیر انصاف کے مطابق اُس برس 146 خواتین اپنے شوہروں یا پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہوئی تھیں۔

اس کے جواب میں حکومت نے خواتین کو ہنگامی بنیادوں پر رہائش کی فراہمی کا بندوبست اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی منظوری دی تھی۔

گزشتہ برس اپنے رفیق حیات کے ہاتھوں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 90 ہو گئی تھی۔ تاہم حقوق نسواں کی تنظیموں کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ خواتین کے قتل کے رجحان میں مستقل کمی واقع ہوئی ہے۔

سویڈن میں پانچ ہفتوں میں چھ خواتین کا قتل

Kristian Jansson and daughter Emma-Louise Jansson

،تصویر کا کیپشن

ایما لوئی جانسن کہتی ہے کہ اب وہ اکیلے کبھی کبھار ہی باہر جاتی ہے۔

جبکہ دوسری جانب سویڈن میں گذشتہ پانچ ہفتوں کے دوران قتل ہونے والی خواتین تین مختلف نسلوں سے اور تین مختلف علاقوں سے تعلق رکھتی تھیں، لیکن ان تمام واقعات میں ایک بات مشترک ہے: ان کے قتل کے واقعات میں جن مردوں کو گرفتار کیا گیا وہ مقتول عورتوں سے قریبی تعلقات رکھتے تھے۔

قتل کی دو وارداتیں تو سرِعام ہوئیں تھیں۔ ایک ملک کے جنوبی خطے کے دیہی علاقے میں پیش آئی تھی، جبکہ دوسری واردات دارالحکومت کے جنوب میں ایک سٹیشن پر پیش آئی۔

فلیمنگزبرگ، جو کہ کم آمدان کے طبقے کا ایک علاقہ ہے جہاں بہت ساری سادہ اور رنگین بلند رہائشی عمارتیں نظر آتی ہیں، وہاں ایک عورت کو اس فلیٹ میں قتل کر دیا گیا تھا جہاں وہ چار بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔ جس شخص کو اُس کے قتل کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے اُسے مقتول عورت اطلاعات کے مطابق اچھی طرح جانتی تھی۔

’میں محفوظ نہیں ہوں‘

فلیمنگزبرگ کی رہنے والی 51 سالہ کرسٹیان جانسن جو اپنی اٹھارہ برس کی بیٹی ایما لوئی کے ساتھ فلیمنزبرگ کے بازار میں شاپنگ کرنے آئی ہوئی تھیں کہتی ہیں کہ ‘میرا خیال ہے کہ ان واقعات کی گہرائی میں جو باتیں چھپی ہوئی ہیں انھیں سامنے لانے کی ضرورت ہے، کیونکہ عورتوں کے خلاف ایسے تشدد کے واقعات کا ہونا درست نہیں ہے۔’

یہ نوجوان عورت کہتی ہے کہ قتل کے ان حالیہ واقعات نے اس علاقے میں عورتوں میں عدم تحفظ کے احساس کو بڑھا دیا ہے اور اس لیے اب وہ اکیلے باہر کبھی کبھار ہی جاتی ہے۔ ‘میں محفوظ نہیں ہوں۔۔۔ کیونکہ یہاں کئی لوگ قتل ہو رہے ہیں۔’

قتل کی حالیہ وارداتیں ایک ایسے ماحول میں ہوئی ہیں جب سویڈن میں عورتوں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔ سویڈن ایک ایسا ملک ہے جو جنسی برابری کے میعار کے لحاظ سے عورتوں کے لیے دنیا بھر میں ایک محفوظ ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔

سویڈن میں سنہ 2020 میں عورتوں پر ان کے کسی قریبی عزیز کی جانب سے حملے کے 16,461 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ جو کہ سنہ 2019 میں نیشنل کونسل فار کرائم پریونشن کو رپورٹ ہونے والے 14,261 واقعات میں 15.4 فیصد کا اضافہ بنتا ہے۔

’نسائی حکومت‘

سویڈن کی صنفی برابری کی وزیر مرتا ستینیاوی کہتی ہیں کہ وہ تشدد کے حالیہ واقعات کی وجہ سے بہت زیادہ ‘پریشان اور خوف زدہ’ ہوئی ہیں، لیکن حیران نہیں ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم کئی لحاظ سے سویڈن میں صنفی برابری میں بہت ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، لیکن ہم اب بھی ایک ایسے معاشرتی ڈھانچے میں رہ رہے ہیں جہاں عورت کو دبایا جاتا ہے۔’

Jenny Westerstrand

روزمرّہ کے تشدد کے واقعات، اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات سویڈن اور دیگر کئی ممالک کے معاشروں میں بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔

دو ہفتے قبل وزیر برائے صنفی برابری نے کئی سیاستدانوں کی جانب سے قتل کے ان کے واقعات کے مذمتی بیانات کے بعد اس مسئلے پر بات چیت کے لیے ایک کل جماعتی مذاکرات کا اہتمام کیا تھا۔

سیاسی رہنما ایسے جرائم میں ملوث افراد کے لیے سخت سزاؤں کا مطالبہ کر رہے تھے۔

سویڈن کی حکومت جو اپنے آپ کو ایک ‘نسائی حکومت’ (عورتوں کی حکومت) کہتی ہے، دس برسوں سے جاری ایک قومی پالیسی کے پانچ برس گزار چکی ہے جس میں لڑکیوں کے میعارِ تعلیم کو بہتر کرنا ہے اور عورتوں کی حفاظت اور تخفظ کے لیے زیادہ موثر اقدامات لینا ہے۔

اس مہینے کے اختتام پر ایک نیا تشکیل شدہ کرائسِس کمیشن اپنے منصوبے کی پیش رفت کے بارے میں ایک رپورٹ پیش کرے گا، توقع ہے کہ اس میں مجرموں کی سزاؤں میں اضافہ کرنے، ان کی حرکات پر پابندی عائد کرنے اور ان کے پاؤں میں الیکٹرانک ٹیگ (بیڑی) ڈالنے کی تجاویز شامل ہوں گی۔

اس بات کا کم امکان ہے کہ ان تجاویز کی پارلیمان میں کوئی مخالفت کرے گا، تاہم ان سزاؤں میں اتنی زیادہ سختی نہیں کی جائے گی جتنی کہ چند پارٹیاں چاہتی ہیں۔

پولیس نے اس مسئلے پر دوبارہ سے توجہ دیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیشنل پولیس چیف آندرے تھورنبرگ نے عورتوں کے ساتھ گھروں میں ہونے والے تشدد کے واقعات کو ‘ایک بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس پر ایکشن لینے کے لیے اصرار کیا۔’

وہ کہتے ہیں کہ اُن کے محکمے کے افسران عورتوں اور بچوں پر حملے کے واقعات سے نمٹنے کو اپنی ترجیحات میں سرِفہرست رکھ رہے ہیں، اور ان جرائم سے نمٹنے کے لیے محکمے نے 350 نئے افسران بھرتی کیے ہیں۔

لیکن ان کے کہنا ہے کہ تادیبی سزاؤں میں سختی اس مسئلے کے حل کی جانب ‘سفر کا آغاز’ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے سویڈن کے دیگر اداروں، مثلاً محکمہِ صحت، سوشل سروسز، اور عمومی طور پر پورے معاشرے کے اداروں کے درمیان اور زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔

باتوں سے زیادہ عمل کی ضرورت

دارالحکومت سٹاک ہوم میں واقع سویڈن کی نیشنل آرگنائزیشن فار وویمن شیلٹر (بےگھر عورتوں کو گھر مہیا کیے جانے کی قومی تنظیم)، ‘راکس’ کی سربراہ جیانا ویسٹرشٹرانڈ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ماضی میں گھروں میں تشدد کے واقعات پر عوام میں ایک تھکان کا احساس پیدا ہوا ہے، اس معاملے پر بھی دوبارہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’سویڈن میں لوگ تشدد کے موضوع پر بات کرتے ہوئے ایک تھکان محسوس کرتے ہیں یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر بہت بات ہو چکی ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ موضوع ہمیشہ کسی نہ کسی ایجنڈے میں شامل ہوتا ہے، لیکن اصل میں اسے مناسب طریقے سے حل نہیں کیا گیا ہے۔’

تاہم وہ امید کرتی ہیں کہ حالیہ قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان پر سیاسی اور عوامی ردعمل اس معاملے پر دوبارہ سے بات کرنے میں ایک بڑی تبدیلی لائے گا۔

‘اب تک باتیں بہت ہوئی ہیں، لیکن اب پہلے سے زیادہ سخت الفاظ استعمال کیے جا رہے ہیں۔’

’اہم اقدار‘

اس وقت سیاسی طور پر ایک معاملہ یہ ہے کہ کیا تشدد کے واقعات کو سویڈن میں غیر ملکی تاریکین وطن (امیگرنٹس) کی بڑھتی ہوئی لہر سےجوڑنا چاہیے؟ سویڈن کی پولیس مجرموں کے اندراج کے وقت ان کی نسل کا اندراج نہیں کرتی ہے، لیکن سرکاری وکلا کہتے ہیں کہ ان افراد پر جن کے خلاف گھروں میں تشدد کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں ان میں زیادہ تعداد کا سویڈن کا پس منظر نہیں ہے، اور ان معلومات نے امیگریشن کی مخالف سیاسی جماعتوں کی دلیل کو زیادہ مضبوط کیا ہے۔

گزشتہ ہفتے ٹیلی ویژن پر براہِ راست نشر ہونے والے ایک مباحثے میں قوم پرست سویڈن ڈیموکریٹس کے رہنما، یمّی واکےساں نے مطالبہ کیا کہ، بقول ان کے ‘غیر ملکی درآمد شدہ اقدار’ جو عورتوں پر تشدد کی اجازت دیتی ہیں، اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جانی چاہیے۔

سویڈن کی صنفی برابری کی وزیر جیانا ستینیاوی کہتی ہیں کہ سویڈن میں ‘غیرت کا نام پر قتل’ ایک مسئلہ ہے جو خاندان یا برادری کی نام نہاد عزت اور شہرت کو بچانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ تاہم انھیں یقین ہے کہ اسے عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کو تارکین وطن کا مسئلہ کہنا ‘دراصل اس مسئلے کو کم اہم بنانے کے مترادف ہے۔’

2013 میں خواتین کے حقوق کے لیے احتجاج

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

لا فاؤنڈیشن دیے فیمینیس کی این سیسلی میلفرٹ نے حکومت سے ایکشن لینے کا مطالبہ کیا ہے

وہ کہتی ہیں کہ ‘حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد کی جڑیں سویڈن کے اپنے معاشرے میں بہت گہری ہیں۔’

کیا وبا کی وجہ سے تشدد بڑھا ہے؟

جیانا ویسٹرشٹرانڈ کہتی ہیں کہ حالیہ تشدد کے واقعات میں چند ایک کا تعلق موجودہ وبا سے جوڑا جاسکتا ہے۔ سویڈن نے باقاعدہ لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے گریز کیا تھا، لیکن ان کا کہنا ہے حالات کے جبر نے ہر رنگ و نسل اور طبقے کی عورتوں کی اکثریت کو گھروں میں ٹھہرے رہنے پر مجبور کردیا ہے۔

‘اب وہ اپنے معاملات میں دوسروں سے اُس طرح مدد نہیں لیتی ہیں جس طرح وہ معمول کے حالات میں مدد حاصل کر لیتی تھیں۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ اپنے رشتوں میں بندھی ہوں اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہو۔’

سویڈن کے شہر فلیمنگزبرگ کے بڑے شاپنگ سینٹر میں اس موضوع پر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔

ایک 25 برس کی عورت نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ سویڈن کے قوانین کو قبول نہیں کرنا چاہتے ہیں۔’

فلیمنزبرگ کی ایک رہائشی خاتون نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ عورتیں شام کو سات بجے کے بعد باہر نہیں جانا چاہتی ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ویسا لباس نہیں پہن سکتی ہیں جو وہ پہننا چاہتی ہیں۔ اگر آپ رات کو نو بجے کے بعد ایک چھوٹی سے نیکر پہن کر باہر جائیں گے تو خدشہ ہے کہ آپ کو کوئی ریپ کر دے گا۔’

لیکن دیگر خواتین، مثلاً 28 برس کی ساندرا اینگزل کا خیال ہے کہ اس بڑے سماجی مسئلے کے لیے امیگرنٹس کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا ہے۔

‘میں نہیں سمجھتی کہ اس مسئلے کا اس بات سے تعلق ہے کہ آپ کہاں سے آئی ہیں۔ چاہے اُس کا تعلق افریقہ سے ہو، سویڈن سے ہو یا کسی بھی جگہ سے ہو، ایک عورت اُس مرد کے ساتھ محفوظ نہیں ہے جو اس کو مارتا پیٹتا ہے۔’

یورپ کے دوسرے حصوں میں صورتحال کیسی ہے؟

مغربی یورپ میں فرانس وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ خواتین اپنے شوہروں یا پارٹنرز کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں۔ یوروسٹیٹ کے 2017 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تناسب 100,000 میں 0.18 ہے۔

جبکہ سویٹزرلینڈ میں 0.13، اٹلی میں 0.11، اور سپین میں 0.12 ہے، تاہم جرمنی سے کم ہے جہاں تناسب 0.23 کا ہے۔

سپین میں بھی ایک ہزار سے زائد خواتین قتل ہو چکی ہیں۔ اس سلسلے میں وہاں خصوصی عدالتوں کا قیام عمل لایا گیا تھا جن کا کام صرف خواتین پر جنسی تشدد کے مقدمات نمٹانا ہے۔

اس کے علاوہ ازدواجی تشدد کے بارے میں تمام متعلقہ حکام کو، جن میں طبی عملہ، پولیس اور عدلیہ شامل ہے، خصوصی تربیت بھی دی گئی ہے۔ اور پولیس پر لازم ہے کہ وہ اسے 72 گھنٹے کے اندر متعلقہ جج کے علم میں لائے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.