فرانس الیکشن: اندازوں کے برعکس انتہائی دائیں بازو کی شکست، عوام نے میرین لی پین کی جماعت کو مسترد کیوں کیا؟
فرانس الیکشن میں کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب وہاں معلق پارلیمان کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کیونکہ فرانس کی 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت سے حکومت بنانے کے لیے 289 نشستیں درکار ہیں۔آر این کے رہنما جارڈن بارڈیلا نے ’غیر فطری سیاسی اتحاد‘ کو ان کی پارٹی کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔گیبریل اٹل کو صدر میکخواں نے صرف سات ماہ قبل ہی وزیر اعظم مقرر کیا تھا۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ صبح اپنا استعفیٰ پیش کریں گے۔ تاہم انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ ان کا اتحاد تین گنا زیادہ نشستیں جیتنے کے لیے تیار ہے۔اپنی رہائش گاہ سے خطاب کرتے ہوئے فرانس کے وزیر اعظم گیریل اٹل نے کہا کہ فرانسیسی ووٹروں نے ایک انتہائی حکومت کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ انھوں نے ان تمام امیدواروں کی تعریف کی جو آر این کو جیتنے سے روکنے کے لیے دوڑ سے دستبردار ہو گئے تھے۔خیال رہے کہ کل 217 امیدوار نے آر این کو روکنے کے لیے دستبرداری کا اعلان کیا تھا جس میں میکخواں کی پارٹی کے ارکان بھی شامل تھے۔گیبریل اٹل نے کہا کہ کل صبح میں اپنا استعفیٰ سونپ دوں گا۔ آج رات سے ایک نیا دور شروع ہو رہا ہے۔‘انتہائی دائیں بازو کے لاکھوں وٹروں کے بارے میں انھوں نے مزید کہا: ’میں آپ میں سے ہر ایک کا احترام کرتا ہوں، کیونکہ فرانسیسی لوگوں کی ایسی کوئی قسم نہیں ہے جو صحیح اور غلط ووٹ دیتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
نیو پاپولر فرنٹ سیاسی اتحاد کیا ہے؟
نیو پاپولر فرنٹ فرانسیسی بائیں بازو کی جماعتوں کا سیاسی اتحاد ہے، جس میں سوشلسٹ، کمیونسٹ، ماہرین ماحولیات (گرین پارٹی) اور لا فرانس انسومیس کے لوگ شامل ہیں۔یہ سیاسی اتحاد فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں کی جانب سے نو جون کو قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔یہ جماعتیں پہلے بھی ایک دوسرے پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ ان کے نظریے اور نقطہ نظر میں بھی کچھ بڑے اختلافات ہیں، لیکن انھوں نے انتہائی دائیں بازو کو حکومت سے دور رکھنے کے لیے ایک بلاک بنانے کا فیصلہ کیا ۔نیو پاپولر فرنٹ نے موجودہ حکومت کی طرف سے منظور کی گئی پنشن اور امیگریشن اصلاحات کو واپس لینے، غیر دستاویزی تارکین وطن کے لیے ایک ریسکیو ایجنسی بنانے اور ویزا درخواستوں میں سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
- فرانس میں ’میکخواں کا جوا‘ سمجھے جانے والے انتخابات جو پناہ گزین مخالف جماعت کو پہلی بار اقتدار کی دہلیز تک لے آئے2 جولائی 2024
- فرانس میں بحر ہند کی جنت جہاں مسلم تارکین وطن پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیں22 اپريل 2023
- اسلام کو ’بحران کا مذہب‘ قرار دینے والے میکخواں دوبارہ صدر منتخب: فرانس کے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہو گا؟25 اپريل 2022
تجزیہ: فرانس نے ایک بار پھر انتہائی دائیں بازو کی سیاست کو رد کر دیا
بی بی سی کے ہو شوفیلڈ نے لکھا کہ فرانسیسیوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اقتدار میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو دیکھنا نہیں چاہتے۔اگرچہ ووٹروں نے انتہائی دائیں بازو کی جماعت کو یورپی انتخابات اور پارلیمانی الیکشن کے پہلے راؤنڈ میں بڑی کامیابی دلائی لیکن جب اصل ووٹنگ کی بات آئی تو وہ صدارتی انتخابات کی طرح ہی پیچھے ہٹ گئے۔ایک ہفتہ قبل نیشنل ریلی کی تقریباً 300 سیٹوں پر فتح یاب ہونے کی پیشین گوئی کی گئی تھی لیکن اب انھیں اس کی نصف سیٹیں ہی ملنے کی امید ہیں اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ ووٹرز انھیں اقتدار میں جانے سے روکنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ دینے کے لیے باہر نکل آئے۔آر این والے کچھ حد تک بجا طور پر یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ ایسا صرف اس لیے ممکن ہوا کیونکہ دوسری پارٹیاں نظام کو چلانے کے لیے اکٹھی ہوگئیں۔ان کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کی مختلف جماعتوں نے اچانک اپنے اختلافات بھلا کر ایک نیا آر این مخالف اتحاد تشکیل دیا اور مزید برآں میکخواں اور بائیں بازو کے لوگ بھی اپنے اختلافات کو بھول گئے۔آر این والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان سیاست دانوں کو (سینٹر رائٹ کے ایڈورڈ فلپ سے لے کر ٹراٹسکی کے بائیں بازو والے فلپ پوٹاؤ تک) آر این کی مخالفت کے سوا کوئی دوسری چیز متحد نہیں کرتی ہے اور یہ کہ یہ مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ فرانس میں زیادہ تر لوگ انتہائی دائیں بازو کو نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ ان کے نظریات کے مخالف ہیں یا پھر وہ اس بدامنی سے ڈرتے ہیں جو لامحالہ ان کے اقتدار میں آنے کی وجہ سے آئے گی۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
بارڈیلا اگر فرانس کے اگلے وزیر اعظم نہیں ہوں گے تو کون ہوگا؟
یہی ایک بات ہے جو شاید کسی کو معلوم نہیں ہے۔ پچھلے فرانسیسی پارلیمانی انتخابات کے بعد ہونے والے کنونشن کے برعکس اس کا جواب ملنے میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔کیونکہ پچھلے چند ہفتوں میں فرانسیسی سیاسی نظام کی نوعیت کو بدلنے کے لیے کچھ شدید قسم کی چیزیں ہوئی ہیں۔جیسا کہ چارلس ڈی گال کے زمانے سے ہر الیکشن پر نظر رکھنے والے تجربہ کار تجزیہ نگار ایلن دوامیل نے کہا کہ ’آج اب کوئی غالب پارٹی نہیں ہے۔ سات سال قبل میکخواں کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہم سیاسی قوتوں میں گراوٹ کے دور سے گزر رہے ہیں۔’شاید اب ہم اپنے ہاں تعمیر نو کا نیا دور شروع کر رہے ہیں۔‘ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اب سیاسی پارٹیوں کا ایک ہجوم ہے۔ تین بڑے سیاسی بلاک (بائیں بازو، انتہائی دائیں بازو اور معتدل نظریاتی کی جماعتیں) ہیں ان کے علاوہ معتدل دائیں بازو کی جماعتیں بھی ہیں۔ اور ان کے اندر مسابقتی رجحانات ہیں۔کوئی بھی پارٹی اسمبلی میں اکثریت میں نہیں ہے کہ وہ اپنی بات منوا سکے اس لیے اب ہنگامہ آرائی کا ایک طویل عرصہ ناگزیر ہے کیونکہ معتدل دائیں بازو کی جماعتوں اور بائیں بازو کی جماعتوں سے ایک نیا اتحاد بننا ہے۔ایک دوسرے کے خلاف جو اب تک واضح نفرت رہی ہے اس کے پیش نظر یہ واضح نہیں ہے کہ یہ نیا اتحاد کس طرح تشکیل پائے گا۔لیکن ہم شرط لگا سکتے ہیں کہ صدر میکخواں کے لیے گذشتہ ہفتوں کے تناؤ کے بعد یہ مفاہمت اور لوگوں کی خواہشات کے احترام کا دور ہوگا۔اور یہ دورانیہ اولمپکس اور گرمیوں کی تعطیلات تک رہے گا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.