فرانسیسیوں کو اتنا غصہ کیوں آتا ہے؟
- مصنف, عارف شمیم
- عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
تقریباً ایک دہائی قبل ایک فرانسیسی ماہر تعلیم نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا تھا کہ فرانسیسیوں میں اداسی کی وجہ خود ان کی اپنی ثقافت ہے جو انھیں اداس رہنا ’سکھاتی‘ ہے۔
پیرس سکول آف اکنامکس کی پروفیسر کلاڈیا سینک نے لکھا تھا کہ اپنی دولت اور طرزِ زندگی کی وجہ سے جتنا فرانسیسی لوگوں کو خوش رہنا چاہیے وہ اپنے تعلیمی نظام اور ثقافتی ’ذہنیت‘ کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ ناخوش ہیں۔
حالانکہ اگر دیکھا جائے تو فرانس میں عوام کی فلاح و بہبود کا بہترین نظام ہے جس میں مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات تک سب کی رسائی ہے۔
سنہ 2022 کی ورلڈ ہیپینیس رپورٹ میں بھی فرانس ’ہیپینیس‘ میں 20ویں نمبر پر ہے جبکہ پہلے نمبر پر فن لینڈ ہے۔ اس سروے میں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان کا اس میں نمبر 121 واں ہے جبکہ انڈیا 136 ویں نمبر پر آتا ہے۔
پروفیسر کلاڈیا سینک نے اپنی تحقیق سے یہ اخذ کیا کہ اُداسی یا کم خوش رہنے کے یہ رویے بچے سکولوں اور سماجی میل جول کے دوسرے طریقوں سے سیکھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ جو پناہ گزین فرانس میں آتے ہیں وہ وہاں رہنے والے فرانسییسیوں سے زیادہ خوش ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ جب وہ فرانسیسی معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں اور زیادہ دیر تک وہاں رہتے ہیں، وہ بھی کم خوش ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
فرانس کی ثقافت میں ایسا کیا ہے؟
آخر فرانسیسی ثقافت میں ایسا کیا ہے جو دوسرے ممالک سے یہاں آ کر بسنے والوں کو بھی ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد ناخوش یا کم خوش بنا دیتا ہے۔
کلاڈیا سینک نے اپنے ایک اور مضمون میں یہ بھی لکھا کہ جب بھی فرانسیسیوں سے یہ پوچھا جائے کہ کل انھوں نے کیسا محسوس کیا تھا تو ان کے جواب میں بہت زیادہ منفی جذبات نظر آئیں گے جیسا کہ غصہ، پریشانی، یا ذہنی دباؤ وغیرہ۔
اگر آپ انٹرنیٹ پر فرانسیسیوں کے عمومی رویے جاننے کے لیے سرچ کریں تو آپ کو ایسا بہت سا مواد ملے گا جو انھیں غصے سے بھرا ہوا، بد تمیزاور بدتہذیب ثابت کر رہا ہو گا۔ لیکن کیا وہ ملک جہاں رومانس اور محبت کا دارالحکومت پیرس ہے، ایسا ہو سکتا ہے؟
وجہ جاننے کے لیے شاید ذرا ماضی کو کریدنا پڑے۔
متعدد محقق سمجھتے ہیں کہ فرانس نے اپنے نوآبادیاتی دور میں جو کچھ کیا، آج کے فرانسیسی اس کے ’گلٹ‘ (احساس جرم) کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد فرانس نے پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں آ کر بسنے دیا تھا اور پوری دنیا بالخصوص الجیریا، شمالی اور سب صحارا افریقہ سے بڑی تعداد میں پناہ گزین یہاں آ کر بسنے لگے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ملک کی تعمیروترقی کے لیے بھی اُن کی ضرورت تھی۔ تاہم ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کو بڑے بڑے شہروں کے گردونواح میں نئی بستیاں اور فلیٹس بنا کر آباد کیا گیا۔ یہ گنجان آباد بستیاں بڑے شہروں کے عالیشان محلوں سے بہت مختلف تھیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب مثابقت والے نظامِ تعلیم میں ان علاقوں میں رہنے والے بچے آگے نہ جا سکے۔ غربت بڑھی اور اس کے ساتھ ساتھ بیروزگاری بھی، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں جرائم روز مرہ کا معمول بن گئے۔
اس لیے فرانسیسی محقق تعلیم کا نظام بدلنے کی بات کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں تناؤ کو کم کیا جا سکے اور لوگ خوش رہنا سیکھیں۔
’فرانسیسی‘ اور ’احتجاجی‘ لازم و ملزوم
ذرا اس چھوٹی سے مثال کو لیں۔ رواں سال مارچ میں فرانس میں بڑے پیمانے پر لگاتار مظاہرے ہوتے رہے۔
مظاہروں کی وجہ وزیرِ اعظم ایمانویل میکخواں کی حکومت کی پینشن کے حوالے سے پالیسی تھی۔ حکومت نے پینشن کی عمر کو 62 سے بڑھا کر 64 کر دیا تھا جس کی وجہ سے ملک بھر میں لاکھوں افراد نے مظاہرے کیے۔
سڑکیں بلاک کر دی گئیں، بجلی کا نظام درہم برہم ہوا، سکول بند ہوئے اور برطانیہ آنے والی یوروسٹار ٹرین بھی منسوخ کرنا پڑی۔
دوسری طرف برطانیہ میں پینشن کی یہی عمر 66 سال ہے جسے سنہ 2026 کے بعد بڑھا کر 67 کر دیا جائے گا۔ تاہم ملک میں شاید کہیں اِکا دُکا احتجاج ہوا ہو لیکن بڑے پیمانے پر کسی بھی احتجاج کی کوئی خبر نہیں آئی۔
ویسے ریکارڈ کے لیے دنیا میں پینشن حاصل کرنے کی سب سے زیادہ عمر یونان میں ہے جہاں عورت اور مرد دونوں کو 67 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد پینشن ملتی ہے۔
اور سب سے کم عمر میں پینشن دینے والے ممالک میں سری لنکا آتا ہے جہاں یہ عمر 55 ہے۔
تو فرانس میں ایسا کیا مختلف ہوا کہ لاکھوں افراد نے احتجاج کیا اور ریلیاں نکالیں۔
اس کا جواب بڑا سادہ سا ہے اور وہ یہ کہ احتجاج فرانس کا کلچر ہے۔
انقلاب فرانس اور عوام کی طاقت
سنہ 1789 میں باسٹیل کے مضبوط قلعہ نما جیل کے آگے سینکڑوں افراد نے احتجاج کیا اور بعد میں اس پر قبضہ کر کے انقلابِ فرانس کا آغاز کیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق اس انقلاب میں 30 سے 40 ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
فرانسیسیوں کو باسٹیل کی اس قلعہ نما جیل پر اتنا غصہ تھا کہ جلانے اور توڑنے کے بعد اس کو مسمار کر دیا گیا اور اب اس کے ایک دو پتھروں کے علاوہ اس کا کوئی نام و نشان تک نہیں ہے۔
سنہ 1789 کے انقلابِ فرانس کے بعد سے اب تک فرانس میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں پُرتشدد مظاہرے ہو چکے ہیں۔
اکیسویں صدی کے پہلے 23 برسوں میں اب تک گذشتہ ہفتے الجیریائی نژاد فرانسیسی شہری ناہیل کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد ہونے والے مظاہروں سمیت، کل 18 پرتشدد مظاہرے ہوئے ہیں۔
عوام غصے میں ہیں اور کسی کو پوری طرح نہیں پتہ کہ غصہ کس پر نکالے۔
نسل پرست پولیس اور ’غیر ملکی‘ فرانسیسی
ناہیل کے قتل کے بعد جو بحث چل رہی ہے وہ پولیس کے نسل پرستانہ رویے کے متعلق ہے۔ فرانس میں پولیس اور جون ڈا مری اور تعصب اور امتیاز کے خلاف کام کرنے والے آزاد ادارے ’دی ڈیفینڈر آف رائٹس‘ کی دو ہزار 2021 میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس بات کا 20 فیصد زیادہ امکان ہے کہ فرانسیسی پولیس ان افراد کو چینکنگ کے لیے زیادہ روکے جو سیاہ فام یا عرب نظر آتے ہیں۔
اور ان میں زیادہ تعداد ان نوجوانوں کی ہوتی ہے جن کے آباؤ اجداد سابق فرانسیسی نو آبادیوں سے آئے ہوئے ہوتے ہیں یا ان سے ان کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔
یہی وہ نوجوان ہیں جو پیرس، مارسیے اور لیون جیسے بڑے شہروں کے نواح میں بنائے گئے ’بانیو‘ (فلیٹس اور کالونیاں) میں غربت میں رہتے ہیں۔ ناہیل بھی نانتیرے کی اسی طرح کی ایک بستی میں رہتا تھا۔
یہ بانیو یا فلیٹس والی عمارتیں دوسری جنگِ عظیم کے بعد 1945 سے لے کر 1975 کے درمیان سوشل ہاؤسنگ کے لیے بنائی گئی تھیں۔پہلے پہل تو یہ مڈل کلاس کے لیے تھیں لیکن الجیریا کی جنگ اور فرانسیسی نو آبدیاتی دور کے خاتمے کے بعد ان میں پناہ گزین آ کر بسنا شروع ہو گئے۔
حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث ان علاقوں میں غربت اور بے روزگاری بڑھتی گئی اور ان علاقوں کو ’مسائل زدہ‘ اور ’ہائی رسک‘ علاقے کہا جانے لگا۔
یہاں کے نوجوانوں کی پولیس سے اکثر لڑائیاں رہتی ہیں اور پولیس نئے قوانین سے لیس اپنی طاقت کا خوب استمعال کرتی ہے۔
بانیو میں سب سے پہلا بڑا پرتشدد واقعہ اس وقت ہوا جب 2005 میں پیرس کے شمال میں واقعہ ایک علاقے میں دو نوجوان پولیس سے بچ کر بھاگنے کی کوشش میں ہلاک ہو گئے۔ یہ احتجاج تین ہفتے جاری اور مظاہرین نے درجنوں عمارتوں کو نظرِ آتش کیا اور پراپرٹی کو نقصان پہنچایا۔
پولیس پر نسل پرستی کا لیبل اس لیے بھی لگایا جا رہا ہے کہ سرکاری اعدادو شمار کے مطا بق صرف 2022 میں پولیس نے 39 افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کیا ہے جن میں سے 13 ایسے تھے جن کی گاڑیوں کو پولیس نے روکا اور وہ نہ رکے، جواباً پولیس نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ غیر سرکاری نمبر اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سال اب تک پولیس کے روکنے پر نہ رکنے والوں کی ہلاکتوں کی تعداد تین ہے۔
جس طرح اس قسم کی ہلاکتوں کے بعد یہ دوسرے ممالک سے آ کر بسنے والے تارکینِ وطن کو غصہ آتا ہے اسی طرح اس غصے کا فائدہ دائیں بازو کی جماعتیں اور اس طرح کے خیالات رکھنے والے دوسرے بھی اٹھاتے ہیں۔
فرانس میں دائیں بازو کی بڑی تحریک جنم لے چکی ہے اور اس کی رہنما لی پین چوتھی مرتبہ پھر فرانس کی صدارت کے لیے انتخابات لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
ناہیل کے قتل کے بعد ہونے والے پرتشدد مظاہروں پر فرانس اور یورپ میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور اٹلی کے انتہائی دائیں بازو کے رہنما اور لی پین کے اتحادی میٹیو سلوینی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’کیا ہم مغرب یا دوزخ میں رہ رہے ہیں؟‘
فرانس میں نسل پرستی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ناہیل کے قتل کے فوراً بعد دائیں بازو کے کیمپ نے اس پولیس آفیسر کے خاندان کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ’گو فنڈ میں‘ پر اپیل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس میں 10 لاکھ سے زیادہ یورو جمع ہو گئے۔
جبکہ اس طرح کا فنڈ اسی پلیٹ فارم پر ناہیل کے خاندان کے لیے بھی بنایا گیا جس میں بدھ تک لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ یورو جمع ہوئے تھے۔
کس کا غصہ کس پر؟
فرانس کے مقبول ترین اخبار لی مونڈ میں گذشتہ سال اکتوبر میں چھپنے والے ایک سروے کے نتائج بتاتے ہیں کہ فرانس میں 36 فیصد افراد نہایت غصے میں ہیں اور شدید اختلاف رکھتے ہیں، جبکہ 58 فیصد فرانسیسی غیر مطعئن ہیں۔
اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں تقریباً 89 فیصد فرانسیسی سمجھتے ہیں کہ وہ ایک پرتشدد معاشرے میں رہ رہے ہیں اور تشدد کا لیول بڑھتا جا رہا ہے۔ تقریباً 26 فیصد افراد نے یہ بھی کہا کہ تشدد بلا جواز نہیں ہے۔ اسی طرح سروے میں شامل 86 فیصد لوگوں نے تسلیم کیا کہ فرانسیسی معاشرے میں نسل پرستی موجود ہے۔
تاہم لی مونڈ میں چھپنے والے سروے میں جو سب سے دلچسپ چیز سامنے آئی وہ یہ تھی کہ فرانسیسیوں کو امیگریشن یا عدم تحفظ پر زیادہ تشویش کی بجائے اکنامک اور سوشل ایشوز پر تھی۔ مہنگائی اور قوتِ خرید پر 54 فیصد کو تشویش تھی جبکہ امیگیریشن اور جرائم پر 18 فیصد۔
عجیب بات ہے 1789 میں باسٹیل کی قلعہ نما جیل کو آگ لگا کر انقلابِ فرانس کا آغاز ہوا تھا اور گذشتہ ہفتے بھی ناہیل کے قتل کے بعد برہم مظاہرین نے پیرس کے جنوب میں واقع ایک علاقے فریسنے میں ایک جیل کو آگ لگانے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی۔
Comments are closed.