’فالن گانگ‘: پابندی کا شکار گروہ جس کی تعلیمات کے باعث چینی حکام نے اسے ’برائی کا فرقہ‘ قرار دیا
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ڈینی ونسنٹ
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس، تائی پے
ہانگ کانگ میں چینی حکومت کے دفتر کے باہر ایک اکیلی خاتون ننگے پاؤں پلاسٹک شیٹ کے اوپر کھڑی ہو کر مراقبے میں مصروف ہیں۔ ان کے پاس موجود سپیکر پر روحانی گیت اور خطبے سنائی دے رہے ہیں۔
وہ چینی حکومت کی جانب سے ’فالن گونگ‘ نامی فرقے کے پیروکاروں کے ساتھ غلط سلوک روا رکھے جانے کے خلاف اکیلی احتجاج کر رہی ہیں۔
اس سے پہلے اس مقام پر وہ اکیلی احتجاج نہیں کرتی تھیں بلکہ ان کے ساتھ فالن گونگ فرقے کے کئی پیروکار بھی احتجاج میں حصہ لیتے تھے۔ لیکن چین نے 2020 میں ہانگ کانگ میں قومی سلامتی کا قانون نافذ کر دیا جس کی وجہ سے احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کاروائی کرنا زیادہ آسان ہو گیا اور اس کے بعد فالن گونگ کے پیروکاروں نے نے دوبارہ احتجاج کرنے کی جرات نہیں کی۔ تاہم یہ خاتون اس قانون سے نہیں ڈریں۔
فالن گونگ کے پیروکاروں کے حالات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ آج کل وہ اپنے آپ کو کُھل کر اس فرقے کا پیروکار نہیں بتاتے اور انھیں ڈھونڈنے کے لیے آپ کو ہانگ کانگ سے باہر جانا پڑتا ہے۔
فالن گونگ کی یہ پروکار اکیلی چینی حکومت کے خلاف مظاہرہ کرتی ہیں
تائیوان کے دارالحکومت تائی پے کے مضافات میں ایک رہائشی عمارت کے اوپری حصے میں موجود فلیٹ میں فالن گونگ کے پیروکار مراقبے میں مصروف ہیں۔
وہ یک زبان ہو کر فالن گونگ کے بانی لی ہانگ ژی کی تعلیمات کا ورد کر رہے ہیں۔ کمرے میں دیوار پر اس فرقے کے بانی کی تصویر آویزاں ہے اور ان کے الفاظ اور جملوں کی گونج اس کمرے میں موجود ہے۔
چین کے اثرورسوخ سے دور اس خود مختار ملک میں اس فرقے پر عمل کرنے والے بغیر کسی خوف و خطر زندگی بسر کر رہے ہیں۔
’فالن گونگ پر چین کی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کیے دو دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ چین نے اسے ’برائی کا فرقہ‘ قرار دیا تھا۔
فالن گونگ کا کہنا ہے کہ چین میں ان کے اراکین کو ظم و ستم اور جبری مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ انھیں ان کے اعضا حاصل کرنے کے لیے قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔
چینی حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے لیکن ایک آزاد بین الاقوامی ٹریبونل نے ان الزامات کو ’قابل اعتبار‘ قرار دیا ہے۔
ٹریبیونل کے 2018 میں جاری کردہ ایک عبوری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ٹریبیونل کے اراکین کا بغیر کسی شک کے اس بات پر متفقہ یقین ہے کہ ایک عرصے سے اپنی رائے کا اظہار کرنے والے پرامن قیدیوں کے اعضا کو زبردستی نکالا جاتا رہا ہے اور اس عمل کے متاثرین کی بڑی تعداد ہے۔‘
کہا جاتا ہے کہ فالن گونگ چینی حکومت کا سب سے زیادہ منظم مخالف گروہ ہے۔ لیکن آخر یہ فرقہ ہے کیا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فالن گونگ کے پیروکار اسے ایک روحانی تحریک کہتے ہیں
تائیوان میں فالن گونگ کے مقامی راہنما لی آؤ کہتے ہیں ’یہ ایک روحانی تحریک یا عقیدہ ہے۔ یہ علم اور عمل دونوں پر مشتمل ہے۔‘
اس فرقے کے بانی وانگ فلن گونگ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقامی کاروباری شخصیت مسٹر وانگ کہتے ہیں کہ ’ہمارے نزدیک وہ ایک خدا ہیں۔ میری نظر میں ایسا ہی ہے۔ ہمارے لیے وہ عیسیٰ یا خدا کی طرح ہیں۔ ہمارے خیال میں ان کے علم کی سطح بہت بلند ہے۔‘
وانگ اور ان کی شریک حیات چن ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اس فرقے سے منسلک ہیں۔
چن کہتی ہیں ’فالن گونگ ایک معجزہ ہے۔‘ چن میں دو دہائی قبل ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص ہوئی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ فالن گونگ کی محفل میں جانے کے بعد ان کے ساتھ کچھ ایسا ہوا جو طبی ماہرین بھی سمجھ نہیں سکے۔ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے جسم پر خارش والے سرخ چھوٹے دھبے نکلے اور جب وہ غائب ہوئے تو ان کی بیماری بھی ختم ہو گئی۔
وہ کہتی ہیں ’مجھے محسوس ہوا کہ ماسٹر لی (فرقے کے بابی) نے میرا جسم پاک کر دیا۔ میں ان کی بہت شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے شفا دی۔ کینسر کے شکار سمیت دیگر کئی مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔‘
تاہم ایسے کوئی طبی شواہد موجود نہیں ہیں جو فالن گونگ کے بیماریوں کے بارے میں دعوؤں کی تصدیق کر سکیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لی ہونگ ژی نے اس فرقے کی بنیاد چین میں رکھی
’وہ لوگ جو عمل کرتے ہیں بیمار نہیں ہوتے۔ جنابِ لی ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم بیماری کی وجہ سے بیمار نہیں ہوتے بلکہ یہ مکافات عمل ہے۔ آپ کو دوا لینے کی ضرورت نہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘
چینی حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرز کی تعلیمات (جیسا کے بیماری کی صورت میں دوائی لینے سے انکار) فالن گونگ کو بہت خطرناک بناتی ہیں۔
فالن گونگ تحریک کا کہنا ہے کہ انھیں ریاستی سطح پر پراپیگنڈے کا شکار کر کے بدنام کیا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری جانب فرقے کے بانی لی ہانگ ژی کی صحت اور طب کے بارے میں تعلیمات پر تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس فرقے کے سابق رکن سیم (فرضی نام) نے بی بی سی کو بتایا ’انھوں (بانی) نے اپنا نقش ایسا بنایا ہے کہ وہ لوگوں کی بیماریاں دور کر سکتے ہیں۔ وہ بیماری کو زندگی موت کے امتحان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اگر لوگ بیماری سے بچ جاتے ہیں تو ان کا ایمان پختہ ہو جاتا ہے کہ انھوں (بانی) نے ان کو شفا دی۔ اور جب دوسرے افراد مر جاتے ہیں تو اس سے بھی ان کے یقین کو تقویت ملتی ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو مضبوط کریں ورنہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا ’میں متعدد ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر فالن گونگ کی یہ تعلیمات نہ ہوتیں تو ان میں سے کئی افراد آج بھی زندہ ہوتے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
شیگونگ جسم کی حالت و حرکت، سانس لینے اور مراقبے کا روایتی چینی طریقہ ہے
فالن گونگ کی بنیاد شمال مشرقی چین میں 1992 میں رکھی گئی تھی۔ ایک وقت تھا جب اس تحریک کو عوامی صحت کے لیے مددگار مانا جاتا تھا اور اسے چینی حکام کی حمایت بھی حاصل تھی۔
ابتدا میں اس تحریک میں موجود ’شیگونگ‘ کی وجہ سے یہ پورے ملک میں پھیل گیا۔ شیگونگ جسم کی حالت اور حرکت، سانس لینے اور مراقبے کا روایتی چینی طریقہ ہے۔
نوے کی دہائی کے اواخر میں فالن گونگ کا دعویٰ تھا کہ ان کے پیروکاروں کی تعداد چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین سے بھی زیادہ ہیں۔ سنہ 1999 میں فالن گونگ کے بانی نے اندازہ لگایا تھا کہ دنیا میں ان کے 10 کروڑ پیروکار ہیں۔
امریکی غیر سرکاری تنظیم فریڈم ہاؤس کے مطابق آج بھی یہ مانا جاتا ہے کہ اس تحریک کے دو سے چار کروڑ پیروکار ہیں جبکہ چین میں اس فرقے کی تعلیمات پر چھپ کے عمل کیا جاتا ہے۔
چین میں ہزاروں افراد نے اس گروہ کے معاملات میں ریاستی مداخلت اور فرقے کے اراکین پر مبینہ ظلم و ستم کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف ریاست کی طرف سے شدید کریک ڈاؤن ہوا۔
چینی حکام نے دعویٰ کیا کہ یہ تحریک معاشرے کے لیے حظرناک ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکام کو فالن گونگ کے بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اثرورسوخ سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا اور وہ اس روحانی گروہ کو ختم کرنے کے لیے پرعزم ہو گئے تھے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فالن گونگ کا الزام ہے کہ ان کے ارکان کو چینی ریاست نے منظم طریقے سے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ہے
فالن گونگ کا دعویٰ ہے کہ ان کے پیروکار 70 ملکوں میں ہیں اور ان کی تعلیمات کا 40 زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے لیکن جس ملک میں اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی وہاں ان کے اراکین پریشان ہیں۔
وینگ کہتے ہیں ’ہمارا یقین ہے کہ کمیونسٹ پارٹی ایک برائی ہے۔ اسے لیے وہ فالن گونگ کو دباتے ہیں۔‘
فالن گونگ چینی حکام کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ یہ تحریک خطرناک ہے کیونکہ یہ اپنے ارکان کو ادویات لینے سے روکتی ہے۔
مقامی لیڈر لی آؤ کہتے ہیں ’بیماری کے بارے میں ہمارے خیالات باقی لوگوں سے مختلف ہوں گے لیکن ہماری کوئی ایسی تعلیمات نہیں ہیں جو یہ کہتی ہیں کہ آپ کو ہسپتال نہیں جانا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا ’بیماری مکافات عمل کا نتیجہ ہے اور یہ تب ہوتا ہے جب آپ کسی کے ساتھ کچھ بُرا کرتے ہیں، یا کچھ ایسا کیا جاتا ہے جو اخلاقی طور پر نہیں کرنا چاہیے۔ تو دوا لینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فالن گونگ کے ارکان ہانگ کانگ میں کھلے عام مشق کرتے تھے لیکن 2020 کے قومی سلامتی کے قانون نے بڑی حد تک گروپ کی عوامی موجودگی کو ختم کر دیا ہے
سیم کہتے ہیں کہ یہ دو غیر معتبر تنظیموں کے درمیان کا معاملہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چینی حکام نے شروع میں فولن گونگ پر صحیح تنقید کی لیکن بعد میں وہ ان چیزوں میں چلے گئے جن پر وہ یقین نہیں کر سکتے۔
وہ کہتے ہیں ’فولن گونگ اپنے آپ کو صحت کے بارے میں شعور نہ رکھنے والے لوگوں کے گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بس اپنی مرضی سے چیزیں کرنا چاہتے ہیں اور روحانی طور پر ترقی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن فالن گونگ ایسی تنظیم نہیں ہے۔ یہ ایسی تنظیم ہے جس میں بہت سختی ہے۔‘
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ تحریک کے بانی لی ہونگ ژی اس وقت امریکہ میں رہائش پزیر ہیں۔ سیم ان پر بھی تنقید کرتے ہیں اور وہ اس میں تنہا نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لی ہونگ ژی کی زیادہ تر تعلیمات سائنس فکشن سے اٹھائی گئی ہیں۔
فالن گونگ کی اعلیٰ تعلیمات درحقیقت زمین پر غیر ارضی زندگی کی بات کرتی ہیں۔ ان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے اراکین واپس ’خلا‘ میں جانے کے سفر میں ہیں۔
لیکن پیروکاروں کے لیے یہ سفر شاندار یا اچھا نہیں ہے۔
لی آؤ کہتے ہیں ’زمین وہ منزل نہیں ہے جہاں سب کو ہمیشہ رہنا چاہیے۔‘
Comments are closed.