فائزہ شاہین: پاکستانی نژاد سیاستدان جنھیں ’یہودی مخالف‘ مواد لائیک کرنے پر پارٹی ٹکٹ سے محروم کر دیا گیا
- مصنف, خدیجہ عارف
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
- 16 منٹ قبل
’وہ ایک ایسی آواز سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے جو فلسطین پر واضح موقف اور پارٹی میں بائیں بازوں کے خیالات رکھتی ہیں۔۔۔‘42 سالہ پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدان فائزہ شاہین ایک طویل عرصے تک برطانیہ کی بڑی سیاسی جماعت لیبر پارٹی سے منسلک رہیں اور رواں انتخابی دوڑ میں بھی وہ اسی پارٹی کے ٹکٹ پر مشرقی لندن کے حلقے سے الیکشن لڑنے والی تھیں۔ مگر برطانیہ میں چار جون کے اس الیکشن سے چند ہفتے قبل جب اُن کی انتخابی مہم زور و شور سے جاری تھی، لیبر پارٹی نے ان کی بطور انتخابی امیدوار نامزدگی واپس لے لی۔ جماعت کے اس فیصلے سے قبل فائزہ نے سوشل میڈیا پر بعض ایسی پوسٹیں لائیک کی تھیں جو مبینہ طور پر یہودی مخالف تھیں۔سنہ 2019 کے انتخابات میں فائزہ شاہین کا مشرقی لندن کے چنگفرڈ اور ووڈفرڈ گرین حلقے میں 27 سال سے کنزرویٹیو پارٹی کے ایم پی ائین ڈنکن سمتھ سے کانٹے کا مقابلہ ہوا تھا۔ وہ صرف قریب 1200 ووٹوں سے ہار گئی تھیں۔
لندن سکول آف اکنامکس میں پروفیسر فائزہ شاہین کی والدہ کا تعلق کراچی سے تھا اور ان کے والد فیجی جزائر سے 70 کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے۔ ان کے والدین کی ملاقات لندن میں ہی ہوئی تھی۔ فائزہ کی پیدائش اور پرورش لندن میں ہوئی لیکن ان کا کراچی سے گہرا تعلق ہے۔چار ماہ کے بچے کی ماں فائزہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں کئی برسوں سے چنگفرڈ اور ووڈ فرڈ گرین کے حلقے سے لیبر پارٹی کے لیے انتخابات جیتنے کی کوشش کر رہی ہوں اور سنہ 2019 میں جیت کے کافی قریب آگئی تھی۔‘لیبر پارٹی کی جانب سے انتخابی ٹکٹ واپس لیے جانے کے بارے میں فائزہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے صحافیوں کی جانب سے فون پر پیغامات آنا شروع ہوئے کیونکہ مجھے اطلاع دینے سے پہلے لیبر پارٹی نے (اخبار) ’دی ٹائمز‘ سمیت دیگر میڈیا اداروں کو یہ بتا دیا تھا کہ وہ مجھے ’ڈی سلیکٹ‘ کرنے والے ہیں۔‘29 مئی کو فائزہ کو یہ پتا چلا کہ وہ لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات نہیں لڑ سکتی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ ’رات کو نو بجے انھوں نے مجھے ایک ای میل بھیجی جو میں نے ساڑھے نو بجے پڑھی۔ اس میں انھوں نے لکھا تھا کہ سوشل میڈیا پر آپ کی ماضی کی سرگرمیاں ہمارے انتخابات جیتنے کے امکانات کو کم کر رہی ہیں۔ اس لیے آپ کا انتخابی ٹکٹ واپس لیا جا رہا ہے۔‘فائزہ کو اس بات کا افسوس ہے کہ اب وہ اس علاقے میں اس پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑ سکتی ہیں جس کے لیے وہ کئی برسوں سے کام کر رہی تھیں۔تاہم فائزہ نے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا اور اب وہ اپنے ووٹرز سے کہہ رہی ہیں کہ چونکہ وہ کسی بھی پارٹی میں شامل نہیں تو ان کے لیے پارٹی لائن کی بجائے اپنے حلقے کے مسائل کو ترجیج دینا آسان ہو گا۔چنگفرڈ اور ووڈفرڈ گرین مشرقی لندن کا ایک متوسط علاقہ ہے جہاں گذشتہ برسوں میں جنوبی ایشیائی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔چنگفرڈ اور ووڈ فرڈ گرین میں ویسے تو کنزرویٹو پارٹی مضبوط ہے لیکن اس بار لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ انھیں یہاں سے جیتنے کی امید ہے۔
لیبر پارٹی نے فائزہ کی جگہ انڈین نژاد شمع ٹیٹلر کو ٹکٹ دیا
لیبر پارٹی نے فائزہ کے ڈی سلیکشن پر بہت زیادہ کچھ نہیں کہا۔ لیکن پارٹی کے ترجمان نے یہ بیان جاری کیا: ’ہم ایک ایسی لیبر حکومت بنانے پر توجہ دے رہے ہیں جو وہ تبدیلی لائے جو چنگفرڈ اور ووڈفرڈ گرین سمیت باقی ملک کے عوام چاہتے ہیں۔‘ لیبر پارٹی نے فائزہ شاہین کا ٹکٹ واپس لینے کے بعد لندن کے علاقے برینٹ سے تعلق رکھنے والی شمع ٹیٹلر کو ٹکٹ دیا ہے۔پیشے کے اعتبار سے ٹیچر اور ایک بچے کی ماں شمع ٹیٹلر کے والدین کا تعلق انڈیا کی ریاست گجرات کے شہر جام نگر سے ہے۔ ان کے والدین 70 کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے۔ شمع کی پیدائش اور پرورش برطانیہ میں ہی ہوئی ہے۔بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے شمع نے کہا کہ انھوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ اپنے خاوند کی کینسر کے سبب موت کے بعد کیا۔ ان کے مطابق ’اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہماری نیشنل ہیلتھ سروس (برطانیہ میں صحت عامہ کا ادارہ این ایچ ایس) کا حال ٹھیک نہیں ہے۔ تب میں نے سوچا کہ شکایت کرنے سے اچھا ہے کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے اور اسی لیے میں لیبر پارٹی میں شامل ہوگئی۔‘اپنے انتخابی حلقے میں وہ تعلیم اور صحت کے نظام میں بہتری لانا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ یہاں کے ہسپتالوں کی تعمیر نو کا ہے۔ ’کنزرویٹیو پارٹی برسوں سے صرف وعدے کر رہی ہے۔ یہ میری پہلی ترجیح ہو گی۔ اس کے علاوہ پولیس کے نظام اور سماج مخالف رویے کو بہتر بنانا بھی میری ترجیحات میں شامل ہے۔‘فائزہ شاہین کی ڈی سلیکشن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس سوال کا جواب لیبر پارٹی ہی دے سکتی ہے۔
لیبر پارٹی پر الزام اور سیاسی گہما گہمی
فائزہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی واحد امیدوار نہیں جنھیں غزہ جنگ پر اپنے موقف کی وجہ سے تنقید اور ڈی سلیکشن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں سے متعلق موقف اور اُس پر موصول ہونے والی شکایات کی وجہ سے لیبر پارٹی نے اپنے سابق صدر جیریمی کوربن اور لوائیڈ رسل موئیل سے بھی انتخابی ٹکٹ واپس لیے ہیں۔ مشہور سیاستدان ڈائین ایبٹ سے بھی انتخابی ٹکٹ واپس لے لیا گیا تھا لیکن شدید تنازع کے بعد یہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا۔اپریل 2023 میں ڈائین ایبٹ کی پارلیمانی رکنیت اس وقت معطل کر دی گئی تھی جب ان کا یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ’یہودی، آئرش اور ٹرویلر‘ لوگوں کے ساتھ جو رویہ روا رکھا جاتا ہے، اسے امتیازی سلوک کہا جا سکتا ہے لیکن نسلی تعصب نہیں۔ڈائین ایبیٹ نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی تھی جس کے بعد ان کی پارلیمانی رکنیت بحال کردی گئی تھی لیکن انھیں لندن کے علاقے ہیکنی جہاں سے وہ سنہ 1987 سے رکن پارلیمان ہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا۔ اس کے بعد میڈیا اور سیاسی حلقوں میں زبردست احتجاج کے بعد ان کو انتخابات لڑنے کی اجازت دے دی گئی۔لیبر پارٹی کا کہنا ہے کہ ہر رکن کا معاملہ مختلف ہے۔
ٹکٹ واپس لینے پر تنازع
فائزہ شاہین سے ٹکٹ واپس لینے پر میڈیا میں خوب بحث ہوئی اور خود لیبر پارٹی کے بعض ممبران نے بھی اپنا احتجاج درج کرایا اور ان کی حمایت میں لیبر پارٹی کے 50 ممبران نے پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ان 50 ممبران نے ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کہا ’اس میں سب سے تعجب کی بات یہ ہے کہ فائزہ کے ایسے ٹوئٹس کو بھی ان کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے کہ جب وہ پارٹی کی ممبر بھی نہیں تھیں جبکہ گذشتہ چند ہفتوں میں لیبر پارٹی نے پارٹی میں ایسے لوگوں کو جگہ دی ہے جن کا تعلق کنزرویٹو پارٹی سے رہا اور وہ مسلسل ایسے بیانات دیتے آئے ہیں جو لیبر پارٹی کی سوچ کے برعکس ہیں۔‘واضح رہے کہ لیبر پارٹی نے حال ہی میں دو سابق کنزرویٹو پارٹی کے اراکین کو اپنی پارٹی میں شامل کیا ہے۔سابق لیبر چانسلر جان میکڈونل نے بی بی سی کے پولیٹکل ایڈیٹر کرس میسن سے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’لیبر پارٹی کے اندر دائیں بازوں کے بعض لیڈر سینئیر پوزیشن پر پہنچ چکے ہیں اور وہ ایک طرح سے پارٹی کو بائیں بازوں کے ممبران سے پاک کر رہے ہیں۔‘
لیبر پارٹی کا موقف
لیبر پارٹی کے رہنما اور وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار سر کیئر سٹارمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات سے انکار کیا ہے وہ بائیں بازوں کی سوچ رکھنے والے اراکین کو سائڈ لائن کر رہے ہیں یا ان سے جھگڑا مول لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پارٹی صرف بہترین امیدواروں کو موقع دینا چاہتی ہے۔ پارٹی کے رکن اور ان انتخابات میں امیدوار جاش سائمنز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کیئر سٹارمر برابری اور انسانی حقوق کے کمیشن کی سفارشات کو پوری طرح نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر پارٹی میں کچھ لوگ جنھوں نے ٹوئٹر پر یا فیس بک پر بعض ایسی چیزیں لکھیں یا شیئر کی ہیں جو ان معیار پر پورا نہیں اترتیں تو ان کو مستقبل میں لیبر پارٹی کی لیڈرشپ میں شامل ہونے سے روکا جانا صحیح ہے۔‘مگر لیبر پارٹی کیا واقعی بائیں بازوں کے خیالات رکھنے والے اراکین کو سائڈ لائن کررہی ہے؟اس بارے میں بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت لیبر پارٹی کسی بھی حال میں ان انتخابات کو جیتنا چاہتی ہے۔ وہ کوئی بھی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی ہے اور اس لیے وہ محتاط ہے۔چنگفرڈ اور ووڈ فرڈ گرین کا دورہ کرنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فی الوقت وہاں فائزہ شاہین سمیت سبھی امیدوار اپنے اپنے طریقے سے ووٹرز کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ان کے لیے سب سے بہتر متبادل کیوں ہیں؟اس حلقے سے ووٹرز کس پر بھروسہ کریں گے یہ تو نتائج ہی بتائیں گے لیکن ایک بات جو بہت واضح ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف اس حلقے میں بلکہ پوری برطانیہ میں گذشتہ نو مہینوں میں غزہ کی جنگ ایک بہت متنازع موضوع رہا ہے۔ سیاست اور سیاستدانوں پر اس کے اثرات دکھائی دے رہے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.