شاٹ سپوٹر: فائرنگ کے واقعات کا پتہ لگانے والی متنازع کمپنی
- جیمز کلیٹن
- ٹیکنالوجی رپورٹر برائے شمالی امریکہ
شاٹ سپوٹر کمپنی کا حادثے کا جائزہ لینے کے لیے مختص کمرہ کسی بھی کال سینٹر کا منظر پیش کرتا ہے۔
تجزیہ کار ہیڈ سیٹس پہنے کمپیوٹر سکرینز کے سامنے بیٹھے غور سے سننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
تاہم یہاں کام کرنے والے لوگوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد کی گئی ہے۔
انھوں نے اس بات کا حتمی فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کیا کمپیوٹر ایلگورتھم نے فائرنگ کو درست پہچانا ہے اور کیا اس کے پیش نظر موقع پر پولیس بھیجنی چاہیے یا نہیں۔
غلط اندازہ لگانے کے خطرناک اثرات ہو سکتے ہیں۔
شاٹ سپوٹر کو گذشتہ ایک برس کے دوران خاصی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس تنقید میں اس کی ٹیکنالوجی کے درست نہ ہونے کے الزامات اور یہ دعوے شامل ہیں کہ وہ پولیس میں امتیازی سلوک کو بھڑکا رہی ہے۔
ان منفی خبروں کے بیچ اس کمپنی نے بی بی سی نیوز کو حادثات کا جائزہ لینے کے اپنے قومی مرکز تک رسائی دی ہے۔
شاٹ سپوٹر ایک اہم اور حقیقی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس کے چیف ایگزیکٹو رالف کلارک کہتے ہیں کہ ’جو بات اس نظام کو قابلِ اعتبار بناتی ہے وہ یہ ہے کہ 80 سے 95 فیصد گن فائر رپورٹ نہیں ہوتے۔‘
شاٹ سپوٹر کے سربراہ رالف کلارک
لوگ فائرنگ کے بارے میں پولیس کو متعدد وجوہات کی بنا پر اطلاع نہیں دیتے۔ کچھ کو شک ہوتا ہے کہ کیا انھوں نے واقعی گولی چلنے کی آواز سنی تھی، یا وہ سوچتے ہیں کہ کسی اور نے ہنگامی سروسز کو کال کر دی ہو گی، یا پھر اُنھیں پولیس پر اعتماد ہی نہیں ہوتا۔
یہیں سے شاٹ سپوٹر کے بانی کو ایک خیال آیا کہ اگر وہ 911 والے پورے مرحلے کو مکمل طور پر بائی پاس کر لیں تو؟
انھوں نے ایک نظام بنایا جس کے تحت آغاز میں کسی علاقے میں کچھ جگہوں پر مائیکرو فونز لگائے گئے۔
جب ان مائیکس کے ذریعے کسی بھی قسم کے دھماکے کی آواز سنی جاتی ہے تو اس کا کمپیوٹر کے ذریعے جائزہ لیا جاتا ہے کہ آیا یہ کوئی فائر تھا یا کچھ اور۔ پھر ایک ماہر تجزیہ کار اس فیصلے کا جائزہ لیتا ہے۔
حادثات کا جائزہ لینے والے اس کمرے میں ایک سابق ٹیچر جنجر ایمون مجھے اپنے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دیتی ہیں اور ایسے ہی کئی فیصلوں کا اسی وقت جائزہ لیتی ہیں۔
ہر دفعہ جب ایلگورتھم ایک ممکنہ فائر کی اطلاع دیتا ہے تو سسٹم ’پنگ‘ کی آواز نکالتا ہے۔
ایمون پہلے یہ ریکارڈنگ خود سنتی ہیں اور پھر اپنی کمپیوٹر سکرین پر اس کی وجہ سے بننے والے لہر کا جائزہ لیتی ہیں۔
شاٹ سپوٹر کی تجزیہ کار جنجر ایمون
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس آواز کو کتنے سینسرز نے سنا ہے اور کیا ان کے باعث ہمیں اس کی سمت کا اندازہ ہو سکتا ہے کیونکہ عام طور پر ایک گولی ایک ہی سمت میں سفر کر سکتی ہے۔‘
جب ایمون کو یقین ہو جاتا ہے کہ گولی واقعی چلائی گئی تھی تو وہ بٹن دباتی ہیں جس سے پولیس افسران کو جائے وقوعہ پر جانے کے لیے اطلاع ملتی ہے۔
یہ سب کچھ صرف 60 سیکنڈ کے اندر ہوتا ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ ’یہ تو ایسے ہے جیسے آپ کوئی کمپیوٹر گیم کھیل رہے ہوں۔‘ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’یہ بات ہمیں اکثر افراد سے سننے کو ملتی ہے۔‘
شاٹ سپوٹر کی کامیابیاں
ایسی واضح مثالیں موجود ہیں جن کے ذریعے اس بات کا یقین کیا جا سکتا ہے کہ شاٹ سپوٹر کا سسٹم کام کرتا ہے۔
اپریل 2017 میں ایک سیاہ فام نسل پرست کوری علی محمد امریکی ریاست کیلیفورنیا کے علاقے فریسنو میں ایک قاتلانہ حملہ کرنے گئے۔
انھوں نے اس دوران زیادہ سے زیادہ سفید فام افراد کو ہلاک کرنے کی کوشش کی اور اس دوران انھوں نے ایک مضافاتی علاقے میں چلتے پھرتے لوگوں کو نشانہ بنایا۔
پولیس کو 911 کے ذریعے کالز تو موصول ہو رہی تھیں لیکن وہ تاخیر کے ساتھ تھیں اور جگہ کی نشاندہی بھی نہیں ہو پا رہی تھی۔
تاہم شاٹ سپوٹر نے پولیس کو محمد کے روٹ کے بارے میں بتا دیا۔
تین منٹ، اور تین قتل کرنے کے بعد علی محمد کو حراست میں لے لیا گیا۔ فریسنو کی پولیس کا ماننا ہے کہ شاٹ سپوٹر کے بغیر علی محمد شاید مزید افراد کو ہلاک کر دیتے۔
لیفٹیننٹ بل ڈولی کا کہنا ہے کہ ’شاٹ سپوٹر نے ہمیں وہ راستہ بتایا جس پر وہ موجود تھے۔‘
کمپنی اپنے مائیکروفون منظر عام پر نہیں لانا چاہتی لیکن گمان ہے کہ یہ کچھ ایسے نظر آتے ہیں
کمپنی پولیس کو اپنی ٹیکنالوجی استعمال کرنے پر آمادہ کرنے پر کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ اس کے مائیکروفون امریکہ بھر کے 100 سے زیادہ شہروں میں لگے ہوئے ہیں اور کئی برس تک اس ٹیکنالوجی کو متنازع نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہ سب اس وقت تبدیل ہوا جب جارج فلوئڈ کے قتل کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں نے اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی ظاہر کرنی شروع کی جسے متعدد پولیس فورسز استعمال کر رہی تھیں۔
شاٹ سپوٹر پولیس کے لیے پورے شہر میں استعمال کرنا خاصا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے یہ مائیکس اندرون شہر کے علاقوں میں لگائے جاتے ہیں، جہاں سیاہ فام آبادی اکثریت میں ہوتی ہے۔
تو اگر ٹیکنالوجی اتنے درست نتائج نہیں دیتی جتنا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے تو اس کے ان مقامی آبادیوں پر مضر اثرات پڑ سکتے ہیں۔
اس لیے اچانک شاٹ سپوٹر سب کی نظروں میں ہے۔
درست نتائج کے دعوے سے متعلق خدشات
شاٹ سپوٹر کا دعویٰ ہے کہ ان کے نتائج 97 فیصد درست ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پولیس کو یقین ہونا چاہیے کہ جب بھی شاٹ سپوٹر نے الرٹ جاری کیا ہے، وہ ایک فائرنگ واقعے کا ہی سامنا کر رہے ہیں۔
لیکن وہ دعویٰ مکمل طور پر ایک دعویٰ ہی ہے۔ یہ دیکھنا مشکل ہے کہ شاٹ سپوٹر کو کیسے معلوم ہے کہ یہ بالکل درست ہے۔ کم ازکم یہ اس عوامی معلومات سے تو پتا نہیں چل سکتا جو اس نے جاری کی ہیں۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس کے امریکہ میں انصاف پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
درست فیصلے کے دعوے کے ساتھ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اکثر یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ کیا واقعی فائر کی گئی ہے۔
جب شکاگو کے انسپکٹر جنرل نے اس پر تحقیق کی تو انھیں معلوم ہوا کہ شاٹ سپوٹر کے صرف نو فیصد الرٹس ایسے تھے جن میں گن شاٹ کے شواہد ملے تھے۔
شکاگو کی نائب انسپکٹر جنرل برائے عوامی تحفظ ڈیبورا ویٹزبرگ
شہر کی نائب انسپکٹر جنرل برائے عوامی تحفظ ڈیبورا ویٹزبرگ کا کہنا ہے کہ ’یہ عدد کم ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ شاٹ سپوٹر کے الرٹس کے جواب میں 91 فیصد پولیس کارروائیاں ایسی تھیں جن میں یہ حتمی طور پر کہنا مشکل ہے کہ کیا واقعی فائر ہوا تھا یا نہیں۔
یہ ایسا کہنا نہیں کہ گن شاٹ نہیں ہوا تھا مگر یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ ایسا ہوا تھا۔
گن فائر کی آواز کسی کریکر یا کسی گاڑی کے بیک فائر سے بہت ملتی جلتی ہوتی ہے۔
چنانچہ میں نے شاٹ سپوٹر کے رالف کلارک سے پوچھا کہ کہ شاٹ سپوٹر کو کیوں اپنے تقریباً سو فیصد درست ہونے کا اعتماد ہے؟
انھوں نے بتایا کہ وہ زمین پر موجود ایجنسیوں پر انحصار کرتے ہیں کہ وہ اُنھیں بتائیں کہ وہ کب اس کو جان نہیں پائے، کب اس کا کھوج نہیں لگا پائے یا کب اُنھوں نے اس کا اندراج نہیں کیا۔
لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ اس کے طریقہ کار میں بنیادی جھول ہے۔ اگر پولیس کو اس بارے میں یقین نہیں ہے کہ یہ فائر تھا تو وہ کمپنی کو نہیں بتائے گی کہ وہ غلط ہے۔
دوسرے لفظوں میں ناقدین کہتے ہیں کہ کمپنی ’ممکنہ، معلوم نہیں، یا شاید‘ کو بھی ’صحیح‘ قرار دے رہی ہے۔
شکاگو کے وکیل دفاع برینڈن میکس کہتے ہیں کہ کمپنی کی جانب سے درستگی کا دعویٰ کرنا ’نامعقول تشہیر‘ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صارفین کی رائے پر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ لوگ پیپسی پسند کرتے ہیں یا کوک۔
’مگر اس سے یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی سائنسی طریقہ کار صحیح ہے یا نہیں۔‘
نگرانی کی ویڈیوز پر تحقیق کرنے والی تنظیم آئی پی وی ایم سے منسلک کونر ہیلے کو بھی اس کے 97 فیصد درست ہونے پر شک ہے۔
’غلط الرٹ کی بھی رپورٹ کرنے کی ذمہ داری پولیس پر ڈال دینا ایسا ہی ہے کہ جیسے آپ ان سے توقع کریں کہ وہ اس واقعے کی رپورٹ کریں جو ہوا ہی نہیں، اور اس کا امکان نہیں ہے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’یہ خیال کرنا درست ہے کہ اگر شاٹ سپوٹر کے پاس اپنے دعووں کی حمایت میں ٹھوس آزمائشی ڈیٹا ہے تو پھر ان کو اس ڈیٹا کو ریلیز کرنے کا فائدہ بھی ہے۔‘
گن کے ذریعے ہونے والے واقعات بڑھ رہے ہیں
میں نے فریسنو میں رات کے وقت پولیس اہلکار نیٹ پالومینو کے ساتھ سفر کیا۔
فریسنو ریاست کیلیفورنیا میں آتشیں اسلحے سے جرائم کے حوالے سے بدترین علاقوں میں شامل ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں دیگر بہت سے امریکی علاقوں کی طرح یہاں بھی صورتحال ابتر ہوئی ہے۔
ایسا واقعی ہوتا ہے کہ شاٹ سپوٹر کا الرٹ آتا ہے۔ مگر جب ہم جائے وقوعہ پر پہنچتے ہیں تو ہمیں گولیوں کے کوئی خول نظر نہیں آتے اور نہ فائرنگ کے ثبوت دکھائی دیتے ہیں۔
پالومینو نے مجھے بتایا کہ آڈیو ریکارڈگ فائر جیسی ہی تھی اور غالب امکان ہے کہ ایسا ہی تھا لیکن اس کو ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
پولیس افسر نیٹ پالومینو گن شاٹ کے واقعے کی اطلاع کے بعد علاقے میں سرچ کرتے ہوئے
وہ کہتے ہیں کہ یہ صورتحال عام ہے۔
شاٹ سپوٹر کی درستگی بغیر کسی شک کے ہونی چاہیے۔
ملک بھر کی عدالتوں میں اسے وکیل صفائی اور استغاثہ بطور ثبوت استعمال کرتے ہیں۔
خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ دعوے جتنی درست نہ ہوئی تو شاٹ سپوٹر ایک پولیس افسر کو موقع پر فائرنگ کی غلط توقع کے ساتھ بھیج رہی ہے۔
شکاگو میں شاٹ سپوٹر کے خلاف سرگرم کارکن الیگزینڈر گاڈؤن نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ پولیس سمجھتی ہے کہ اس قسم کی صورتحال تشویشناک ہو سکتی ہے۔
’وہ توقع کرتے ہیں کہ جہاں انھوں بھجوایا جاتا ہے وہاں بندوق ہوگی، چنانچہ وہ توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ کوئی سیاہ فام یا گندمی رنگت کا حامل شخص بندوق چھپا رہا ہے۔‘
لیکن شاٹ سپوٹر کا کہنا ہے کہ اس نظریے کی حمایت میں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔
کلارک کہتے ہیں کہ ’آپ ایسی صورتحال بیان کر رہے ہیں جس میں پولیس اہلکار کسی موقعے پر جائیں اور بس غیر مسلح لوگوں پر گولیاں چلائیں۔‘
’یہ محض قیاس آرائی ہے ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔‘
لیکن بظاہر وہ بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کمپنی کے درستگی کی جانچ کے طریقے کی اپنی حدود ہیں۔
کلارک کہتے ہیں کہ ’یہ شاید ایک درست تنقید ہے۔‘
شکاگو میں وکیل میکس کہتے ہیں کہ شاٹ سپوٹر کی رپورٹس کو عدالت میں تب تک بطور ثبوت پیش کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جب تک یہ کمپنی اپنے دعوے کی بہتر طور بنیاد نہ بنا سکے۔
وکیل دفاع برینڈن میکس
ان کا کہنا ہے کہ ’میں گذشتہ چار پانچ مہینوں کے دوران شاٹ سپوٹر کے ثبوتوں کی بنا پر شکاگو کے درجنوں شہریوں کی گرفتاری کے حوالے سے آگاہ ہوں۔‘
’مجھے یقین ہے کہ ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسا ہوا ہوگا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ کمپنی کو چاہیے کہ وہ اپنے نظام کو بہتر نظرِثانی اور جائزے کے لیے عام کرے۔
مثال کے طور پر کون ان تجزیوں پر آزادانہ نظرِ ثانی کر رہا ہے؟ اور ایسا کتنی مرتبہ ہوتا ہے کہ ایلگورتھم انسانی تجزیے سے مختلف ہوتا ہے؟
شاٹ سپوٹر کے ریویو سینٹر میں اپنے وقت کی بنا پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یقینی طور پر بہت مرتبہ ایسا ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کو کمپیوٹر کے فیصلے سے اختلاف کرتے دیکھنا عام ہے۔
مگر ایمون کہتی ہیں کہ ’ہم جو بھی دیکھتے ہیں یہ اسے فلٹر کرتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دیانت داری سے بتاؤں تو میں تو (کمپیوٹر کی درجہ بندی کو) دیکھتی ہی نہیں کیونکہ میں سینسرز کے رجحانات دیکھنے میں بہت مصروف ہوتی ہوں۔‘
یہ ایک دلچسپ اعتراف ہے۔
کبھی کبھار ٹیکنالوجی کو ہر چیز دیکھنے والی، ہر معلومات رکھنے والی چیز سمجھا جاتا ہے، جیسے کمپیوٹر نہایت درست طور پر فائر کا پتہ لگا لیتا ہے۔
مگر حقیقت میں تجزیہ کاروں کا کردار میری توقع سے کہیں زیادہ ہے۔
برینڈن میکس جیسے وکیل اس حوالے سے مزید معلومات کے حصول کے لیے کوشاں ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی عدالت میں کیا کردار ادا کرتی ہے۔
زندگیاں بچانے والا نظام
گذشتہ برس سے اب تک شاٹ سپوٹر کو بہت تنقید کا سامنا رہا ہے جس میں سے تمام تنقید جائز بھی نہیں۔
زیادہ تر کوریج میں اس حقیقت سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے کہ پولیس اس ٹیکنالوجی کے مؤثر ہونے کے بارے میں مثبت رائے دیتی ہے۔
امریکہ کے کئی شہروں میں سماجی کارکنان حکام پر زور دے رہے ہیں کہ شاٹ سپوٹر کے معاہدے ختم کیے جائیں۔
مگر کچھ دیگر جگہوں پر اس کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے۔
فریسنو کے پولیس چیف پیکو بالڈرامہ اس کمپنی کی خدمات کا دائرہ کار بڑھانا چاہ رہے ہیں جس پر سالانہ 10 لاکھ ڈالر خرچ ہوں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کیا ہو گا کہ اگر شاٹ سپوٹر نے سال میں فقط ایک ہی زندگی بچائی ہو؟ کیا یہ 10 لاکھ ڈالر جتنی قیمتی ہے؟ میں کہوں گا کہ ہاں ایسا ہی ہے۔‘
شاٹ سپوٹر پر بحث بہت پیچیدہ ہے اور امریکہ میں کمیونٹی پولیسنگ پر اس کے ممکنہ اثرات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔
اور جب تک اس کی ٹیکنالوجی اور ڈیٹا کا آزادانہ تجزیہ نہ کیا جائے، تب تک یہ اثرات دور نہیں ہوں گے۔
Comments are closed.