غیر ملکی کمپنیاں اربوں ڈالر کا سرمایہ چین سے کیوں نکال رہی ہیں؟

انڈیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایپل نے آئی فونز کی پروڈکشن کو کسی حد تک انڈیا میں منتقل کر دیا تھا

  • مصنف, اینابیل لیانگ
  • عہدہ, بی بی سی بزنس رپورٹر

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں چین میں جتنا پیسہ لگا رہی ہیں اس سے کہیں زیادہ پیسہ وہ چین سے واپس نکال رہی ہیں۔

چین کی سست ہوتی معیشت، کم شرح سود اور امریکہ کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی کشمکش نے چین کی اقتصادی صلاحیت کے بارے میں شکوک کو جنم دیا ہے جس کے بیچ اب سب کی نظریں جمعرات (آج) کو چین کے صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان ہونے والی اہم ملاقات کے نتائج پر ہیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس ملاقات کے دوران کشیدگی کو کم کرنے کی غرض سے امریکہ اور چین نے ’ملٹری ٹو ملٹری کمیونیکیشن‘ یعنی فوجی رابطہ کاری کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ بڑی کمپنیاں اور کاروبار اس ضمن میں پہلے ہی انتہائی احتیاط کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔

اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ سے منسلک تجزیہ کار نک مرو کہتے ہیں کہ ’چین کو درپیش جیو پولیٹیکل خطرات، داخلہ پالیسی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال اور بڑے کاروباروں کی سست شرح نمو جیسے عوامل بین الاقوامی کمپنیوں کو متبادل منڈیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘

چین کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سہ ماہی (تین ماہ) کے دوران چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 11.8 ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ سنہ 1998 کے بعد سے چین میں غیرملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔

ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں چین سے کمائے گئے منافع کی دوبارہ چین میں سرمایہ کاری کے لیے استعمال نہیں کر رہی ہیں بلکہ اس رقم کو چین سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے۔

چین کو ’اصلاحات‘ کرنے کی ضرورت ہے

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صنعتی مشینری بنانے والی سوئس کمپنی ’اورلیکون‘ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’چین کو اس وقت سست رفتار ترقی جیسے مسئلے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے چین کو کچھ اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

یاد رہے کہ ’اورلیکون‘ نے گذشتہ سال چین سے 277 ملین ڈالر کا سرمایہ نکال لیا تھا۔

ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ ’سنہ 2022 میں اورلیکون ان پہلی کمپنیوں میں سے ایک تھی جس نے واضح انداز میں یہ پیش گوئی کی کہ ہمیں توقع ہے کہ چین میں معاشی سست روی ہمارے کاروبار کو متاثر کرے گی۔ نتیجتاً، ہم نے ان ممکنہ منفی اثرات کو کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا۔‘

اورلیکون کے لیے چین ایک بڑی منڈی ہےجہاں اس کی مصنوعات کا ایک تہائی فروخت ہوتا ہے اور اس کمپنی کے چین بھر میں تقریباً 2,000 ملازمین ہیں۔

اورلیکون کا کہنا ہے کہ چینی معیشت میں اب بھی اگلے چند برسوں میں تقریباً 5 فیصد کی شرح نمو متوقع ہے جو ’دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔‘

کورونا کے وبائی مرض کے آغاز کے بعد سے اورلیکون جیسی بڑی بین الاقوامی کمپنیوں نے دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ (چین) میں کام کرنے سے متعلق مسائل کا سامنا کیا ہے۔

چین نے اپنی ’زیرو کووڈ‘ پالیسی کے تحت دنیا کا سخت ترین لاک ڈاؤن کو نافذ کیا تھا اور وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سب کچھ بند کر دیا گیا تھا۔

اس پالیسی کے باعث بہت سی کمپنیوں کی سپلائی چین میں رکاوٹیں آئیں، جیسا کہ ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنی ’ایپل‘ جو اپنے زیادہ تر آئی فونز چین میں بناتی ہے۔ اس لاک ڈاؤن کے دوران پیش آنے والے مسائل کے بعد ہی ایپل نے آئی فونز کی پروڈکشن کو کسی حد تک انڈیا میں منتقل کر دیا تھا۔

اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ سے منسلک تجزیہ کار نک مرو کا خیال ہے کہ رواں برس مزید کمپنیوں نے تنوع کے مطالبات پر توجہ دی ہے، کیونکہ چین اور امریکہ کے درمیان خام مال اور جدید ترین چپس بنانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی پر تازہ برآمدی پابندیوں کے ساتھ تناؤ بڑھ گیا ہے۔

نک مرو کے مطابق ’موجودہ صورتحال میں ہم بڑی تعداد میں بین الاقوامی کمپنیوں کو چین سے اپنا کاروبار سمیٹتے ہوئے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ بہت سی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں کئی دہائیوں سے چینی مارکیٹ میں ہیں، اور وہ اس مارکیٹ شیئر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن نئی سرمایہ کاری کے معاملے میں، خاص طور پر، ہم کچھ ہچکچاہٹ دیکھ رہے ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

کم شرح سود

بڑی کمپنیاں چین میں کم شرح سود کے اثرات پر بھی غور کر رہی ہیں۔ دنیا بھر کے بہت سے ممالک نے گذشتہ سال سود کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا تھا تاہم چین کم شرح سود کے رجحان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

امریکی فیڈرل ریزرو اور یورپ کے بڑے مرکزی بینک افراط زر جیسے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں: قرض لینے کی زیادہ قیمت، جو زیادہ منافع کا وعدہ کرتی ہے اور غیر ملکی سرمائے کو بھی اپنی طرف راغب کرتی ہے۔

دریں اثنا چین میں پالیسی سازوں نے اپنی معیشت اور مشکلات کا شکار پراپرٹی کی صنعت کو سہارا دینے کے لیے قرض لینے کی لاگت میں کمی کر دی ہے۔ انہی مسائل کے باعث رواں سال ڈالر اور یورو کے مقابلے یوآن کی قدر میں 5 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔

چین میں یورپی یونین کے چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ چین سے کمائے جانے والے منافع کو چین ہی میں دوبارہ لگانے کے بجائے، بڑے کاروبار اور کمپنیاں یہ پیسہ کہیں اور خرچ کر رہے ہیں۔

مائیکل ہارٹ چین میں امریکی چیمبر آف کامرس کے صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’چند کمپنیوں نے طویل المدتی سوچ کے تحت اپنا منافع چین سے نکالا ہے کیوں کہ ان کا منصوبہ ہی یہ تھا کہ جب ان کے منصوبے ایک خاص حد تک منافع کمانے لگیں گے تو وہ سرمایہ نکال لیں گے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ منافع نکالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کمپنیاں چین سے ناخوش ہیں۔

مائیکل ہارٹ کہتے ہیں کہ ’یہ حوصلہ افزا ہے کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں چین کے آپریشن کو عالمی آپریشن کے ساتھ ضم کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔‘

کینیڈا کی ایئرو سپیس الیکٹرانکس کمپنی فیرن ٹیکنالوجی گروپ نے گذشتہ دہائی کے دوران چین میں تقریبا 10 ملین کینیڈیئن ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی اور گذشتہ سال میں 2.2 ملین کینیڈین ڈالر سرمایہ ملک سے نکالا ہے۔

کمپنی کے صدر اور چیف ایگزیکٹیو بریڈ بورن کہتے ہیں کہ ’ہم چین سے مکمل طور پر نکل رہے ہیں۔ ہم سرمایہ لگا رہے ہیں اور اپنا کاروبار پھیلا رہے ہیں لیکن اضافی سرمایہ دنیا میں کسی اور جگہ سرمایہ کاری کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے پاس چین میں اضافی پیسہ موجود ہے اور اس کی مدد سے امریکہ میں سرمایہ کاری ایک دانشمندانہ فیصلہ تھا۔‘

چین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چین نے جرمینیئم نامی دھات کی برآمد پر حد مقرر کر دی ہے جو چپ بنانے کے لیے درکار ہوتا ہے

غیر یقینی صورتحال

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت غیر یقینی کا ہے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات کے ساتھ ساتھ شرح سود کے حوالے سے بھی۔

ہانگ سینگ بینک کی چیف اکانومسٹ ڈان وانگ کہتی ہیں کہ چین کا سینٹرل بینک رواں سال معیشت کو سہارا دینے کے لیے شرح سود مذید کم کر سکتا ہے۔

تاہم ایسا کرنے سے پہلے سے ہی کمزور ہوتی مقامی کرنسی پر دباو بڑھے گا۔ ڈان نے کہا کہ اس وقت کرنسی پر دباؤ کی وجہ سے بہت محدود مواقع ہیں۔

’اگر معاشی حالات آئندہ ماہ بہتر ہوئے تو چین شرح سود کم کرے گا۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر سینٹرل بینک کو ایک مشکل فیصلہ کرنا ہو گا۔‘

ای آئی یو کے مسٹر مارو کہتے ہیں کہ کاروباری لوگ چینی اور امریکی صدر کے بارے میں محتاط انداز میں پرامید ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں صدور میں براہ راست ملاقات باہمی تعلقات کے لیے استحکام بخش ثابت ہوتی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ گزشتہ دو ماہ میں سفارتی سرگرمیاں بھی تیز ہوئی ہیں جن کی وجہ سے یہ احساس جنم لے رہا ہے کہ دونوں اطراف تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں۔‘

’لیکن پھر بھی حالات کو بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ جب تک کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو پختگی کے ساتھ آگے بڑھنے کا اطمینان نہیں ہو گا، چین میں بیرونی سرمایہ کاری اسی طرز پر چلے گی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ