نیوزی لینڈ سےتعلق رکھنے والی حاملہ صحافی کو افغانستان میں طالبان سے مدد لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی، اس حوالے سے انہوں نے بتادیا۔
صحافی شارلٹ بیلس نے کہا کہ بچے کی پیدائش کے لیے اپنے ملک میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر انہیں مجبوراً افغان طالبان سے مدد لینا پڑگئی۔
خاتون صحافی نے نیوزی لینڈ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں قرنطینہ کے قواعد و ضوابط کی وجہ سے اپنے ملک جانے سے روکا گیا، جس کے بعد مجھے افغان طالبان سے مدد لینی پڑی۔
نیوزی لینڈ کے ایک میگزین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں انہوں نے لکھا کہ ایک مرتبہ میں نے طالبان سے خواتین کے ساتھ ان کے سلوک سے متعلق سوال کیا تھا، مگر اب ستم یہ ہے کہ وہی سوال مجھے اپنی حکومت سے بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
شارلٹ بیلس پچھلے برس قطر کے نشریاتی ادارے الجزیرہ کے ساتھ منسلک تھی، اس دوران انہوں نے الجزیرہ کے لیے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو رپورٹ کیا تھا، اس کے بعد وہ طالبان رہنماؤں سے خواتین کے ساتھ کیے جانیوالے سلوک کے بارے میں سوال کرنے پر بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔
خاتون صحافی اس وقت افغانستان میں اپنے ساتھی کے ساتھ مقیم ہیں اور وہاں سے نکلنے کے لیے انہوں نے نیوزی لینڈ حکام سے رابطہ کیا مگر ان کی درخواستیں مسترد ہوگئیں۔
اپنے متعلق شارٹ بیلس نے لکھا کہ جب انہیں پتا چلا کہ وہ حاملہ ہیں تو پھر انہوں نے طالبان کے ایک سینیئر رکن سے رابطہ کیا کہ وہ اور جم ہائیلبروک شادی شدہ نہیں ہیں، لیکن ان کے ہاں بچہ ہونے والا ہے۔
خاتون صحافی نے طالبان کو بتایا کہ اس وقت میں نیوزی لینڈ نہیں جا سکتیں، اگر میں کابل آجاؤں تو ہمیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا۔
طالبان سے مدد کی درخواست پر ان کی جانب سے خاتون صحافی کو پیغام دیا گیا کہ وہ کابل میں آکر رہ سکتی ہیں انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
Comments are closed.