بگرام ایئر بیس: امریکہ نے ’افغانستان کا گوانتانامو‘ کہلائے جانے والا ایئربیس خالی کر دیا، افغان حکومت کا امتحان شروع
امریکہ کے دفاعی حکام کے کہنا ہے کہ امریکہ اور نیٹو کے آخری فوجی دستوں نے افغانستان کی بگرام ایئر بیس کو خالی کر دیا ہے جو گذشتہ 20 سال سے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کا مرکز تھا۔
اس انخلا کا ممکنہ طور پر یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا عنقریب ہونے والا ہے۔
صدر جو بائیڈن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکی افواج 11 ستمبر تک افغانستان سے واپس آ جائیں گی۔
مگر کابل کے شمال میں واقع اس وسیع و عریض فوجی اڈے کو ایسے وقت میں خالی کیا جا رہا ہے جب طالبان افغانستان کے متعدد علاقوں میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔
گیارہ ستمبر کو امریکہ میں سنہ 2001 میں ہونے والے حملوں کے 20 سال مکمل ہو جائیں گے۔ ان حملوں میں تین ہزار کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ حملے افغانستان میں موجود ایک بین الاقوامی جنگجو گروہ القاعدہ نے کیے تھے۔ القاعدہ کو افغانستان میں طالبان کی حمایت حاصل تھی جو 1990 کی دہائی سے ملک کا نظام سنبھالے ہوئے تھے۔
امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے اسی سال کے اواخر میں دونوں گروہوں کو شکست دینے کے لیے افغانستان پر حملہ کر دیا۔
اب امریکہ بے پناہ جانی و مالی نقصان کے بعد اپنی طویل ترین جنگ ختم کر کے افغانستان کی سلامتی افغان حکومت پر چھوڑ کر جا رہا ہے۔
تقریباً ڈھائی سے ساڑھے تین ہزار امریکی فوجیوں کے بارے میں خیال ہے کہ وہ افغانستان میں حالیہ دنوں تک بھی موجود تھے اور اب یہ سات ہزار کے قریب دیگر اتحادی فوجیوں کے ساتھ اپنے ملک واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔
اس کے بعد افغانستان میں ایک ہزار سے بھی کم امریکی فوجی رہ جائیں گے۔
طالبان کا اولین ہدف
تجزیہ، لیز ڈوسیٹ: مرکزی نامہ نگار برائے بین الاقوامی اُمور
بگرام اس بات کی علامت ہے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ امریکی فوجی قوت کی علامت یہ اڈہ کبھی سوویت افواج کے زیر اثر تھا۔ اب افغان سکیورٹی فورسز کے لیے یہ چیلنج ہو گا کہ وہ شہر کے اندر اس شہر کو کیسے قابو میں رکھ سکتی ہیں۔
بگرام اہم ہے، علامتی طور پر بھی اور سٹریٹجک اعتبار سے بھی۔ ملک کے مختلف ضلعوں میں پیش قدمی کر رہے طالبان جنگجوؤں کی نظر اسی انعام پر ہے۔ گذشتہ اکتوبر بھی اس اڈے کے ارد گرد شہر کے لوگوں نے ہمیں بتایا تھا کہ طالبان اُن کے درمیان ہی ہیں۔
فوجی اڈے کے حالیہ دورے میں جب امریکہ اپنا سامان باندھ رہا تھا تو ہم نے سنا کہ افغان سکیورٹی فورسز کیسے اسے ملی جُلی خوشی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
اس اڈے میں فوجی اثاثوں کا ایک خزانہ موجود ہے مگر یہی خزانہ طالبان کا اولین ہدف بھی ہے۔ کرپٹ کمانڈروں اور دیگر لوگوں کی بھی نظریں اس پر ہیں۔
وہ لاتعداد افغان جن کی زندگیاں اور روزگار اس فوجی اڈے سے منسلک تھے، وہ اب خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور ان کے لیے بگرام کا نیا باب فکرمندی کا باعث ہے۔
بگرام اتنا اہم کیوں ہے؟
یہ فوجی اڈہ 1980 کی دہائی میں سوویت افواج نے افغانستان پر حملے کے بعد قائم کیا تھا۔ یہ کابل سے 40 کلومیٹر شمال میں ہے اور اس کا نام ایک قریبی گاؤں کے نام پر ہے۔
امریکہ کی قیادت میں اتحادی افواج نے دسمبر 2001 میں یہ اڈہ حاصل کیا اور اسے 10 ہزار فوجیوں کی رہائش کے قابل بنایا۔
اس کے دو رن وے ہیں جن میں سے نیا رن وے 3.6 کلومیٹر طویل ہے جہاں بڑے کارگو اور بمبار جہاز لینڈ کر سکتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس میں طیاروں کی پارکنگ کے لیے 110 جگہیں ہیں جن کی حفاظت کے لیے بم پروف دیواریں ہیں، 50 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے، ٹراما مرکز ہے، تین آپریشن تھیٹر ہیں اور ایک جدید دانتوں کا کلینک بھی ہے۔
اس کے ہینگرز اور عمارتوں میں وہ قید خانے بھی ہیں جہاں تنازعے کے عروج کے دنوں میں امریکی فوج کی زیرِ حراست لوگوں کو رکھا جاتا تھا۔
اسے کیوبا میں واقع بدنامِ زمانہ امریکی فوجی جیل کے نام پر ’افغانستان کا گوانتانامو‘ کہا جاتا تھا۔
بگرام اُن سائٹس میں سے ہے جس کا تذکرہ امریکی سینیٹ کی رپورٹ میں کیا گیا تھا جس کے مطابق سی آئی اے ان حراستی مراکز میں مبینہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے افراد سے تشدد کے ذریعے تفتیش کیا کرتی تھی۔
اب آگے کیا ہو گا؟
ایک افغان عہدیدار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ بگرام کی منتقلی کی باضابطہ تقریب سنیچر کو متوقع ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 650 کے قریب امریکی فوجی متوقع طور پر افغانستان میں ہی رہیں گے تاکہ سفارت کاروں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی حفاظت میں مدد دی جا سکے۔
ایئرپورٹ کی حفاظت پر اُن کے ساتھ امریکہ کے نیٹو اتحادی ترکی کے فوجی بھی ہیں اور افغان حکومت کے ساتھ اس کی سکیورٹی کے ایک نئے معاہدے پر کام جاری ہے۔
اس ہوائی اڈے کے لیے امریکی حفاظتی نظام میں راکٹوں اور گولہ باری سے حفاظت کا سسٹم ہے، اسے چلانے والے امریکی فوجی ہیں اور ہیلی کاپٹر سپورٹ ہے۔
دیگر امریکی فوجی کابل میں امریکی سفارت خانے کا تحفظ کریں گے۔
فوجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی بگرام پر کنٹرول برقرار رکھنے کی صلاحیت کابل کا دفاع کرنے اور طالبان کے خلاف مزاحمت کرنے میں اہم کردار کی حامل ہو گی۔
طالبان نے گذشتہ سال فروری میں معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد اتحادی افواج پر حملے تو بند کر دیے تھے تاہم اُنھوں نے حکومتی فورسز کے خلاف حملے جاری رکھے ہیں۔
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے بگرام سے امریکی افواج کے انخلا کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس سے ’افغان اپنے مستقبل کا فیصلہ آپس میں خود کر سکیں گے۔‘
اس جنگ میں اندازے کے مطابق 47 ہزار افغان شہری اور 70 ہزار کے قریب افغان سپاہی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دو ہزار 442 امریکی سپاہی اور 3800 سے زائد امریکی نجی سکیورٹی ٹھیکیدار بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
دیگر اتحادی ممالک کے 1144 فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔
براؤن یونیورسٹی میں کوسٹ آف وار پراجیکٹ نے اس جنگ پر امریکی اخراجات کا تخمینہ 20 کھرب 260 ارب ڈالر کے قریب لگایا ہے۔
Comments are closed.