- مصنف, ایتھر شلیبے
- عہدہ, بی بی سی عربی
- 53 منٹ قبل
انتباہ: اس مضمون میں پیش کی جانے والی تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔یہ خبر دوپہر 2 بجے کے قریب آئی۔ غزہ میں طبی عملے کے رُکن محمود المصری اور اُن کی ٹیم کے ارکان شمالی غزہ کے العودہ ہسپتال میں ایمرجنسی کال کا انتظار کر رہے تھے۔اس دوران اعلان کیا گیا کہ ’ایمبولینس 5-15 کو نشانہ بنایا گیا ہے۔‘ یہ وہی ایمبولینس تھی کہ جس میں محمود کے والد اور اُن کی ٹیم کے ارکان سوار تھے۔ محمود کے والد بھی طبی عملے کے رُکن تھے۔محمود اور اُن کے ساتھی یہ دیکھنے کے لیے اُس جانب نکل پڑے کہ آخر ہوا کیا ہے۔
جب وہ وہاں پہنچے، تو انھوں نے دیکھا کہ ایمبولینس سڑک کے کنارے متعدد ٹُکڑوں میں بکھری پڑی تھی۔ محمود گاڑی کے ملبے کی طرف بھاگے، لیکن اس ایمبولینس کے اندر موجود تمام افراد ’بُری طرح جل چُکے تھے اور اُن کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے‘ ہو چُکے تھے۔ اسرائیل کے غزہ پر حملوں کے پہلے مہینے میں غزہ میں موجود طبی عملے کے کام پر مبنی بی بی سی عربی کی ایک دستاویزی فلم میں محمود کے اُس ردعمل کو دکھایا گیا ہے جو انھوں نے اپنے والد اور ان کے ساتھیوں کی موت کے موقع پر دیا۔محمود نے روتے ہوئے کہا کہ ’اُن کا چہرہ قابلِ شناخت نہیں رہا تھا۔‘،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
- غزہ سے نقل مکانی: ’میں نے 10 لاشیں دیکھیں، ایک سر کٹی لاش کے ہاتھوں نے ابھی تک کار سٹیئرنگ تھام رکھا تھا‘21 دسمبر 2023
- غزہ میں زیرِ تحویل فلسطینیوں کو برہنہ کرنے کی ویڈیو: ’اسرائیلی فوجیوں نے گولی مارنے کی دھمکی دی تھی‘8 دسمبر 2023
- غزہ کے یتیم بچے:’میں نے اپنی ٹانگ اور اپنا خاندان کھو دیا لیکن میرے پاس اب بھی کچھ خواب موجود ہیں‘6 دسمبر 2023
علاء نے کہا کہ ’ان کے چچا کے گھر کو دو روز قبل اسرائیلی حملے میں نشانہ بنایا گیا تھا لیکن ہلاک ہونے والے کچھ افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان کے کزن کی لاش نکال لی گئی تھی اور وہ اسے ہسپتال لے جانے کی کوشش میں تھے۔‘جیسے ہی وہ ایک تنگ گلی میں داخل ہوئے، جہاں لوگوں کا ایک گروپ کنکریٹ کے ڈھیر کو ہٹانے کی کوشش کر رہا تھا، ایک رشتہ دار نے انھیں بتایا کہ ’ایک لڑکی ہے، یا تو اس کا آدھا یا پورا جسم ہے۔‘وہ رک گئے، ایک گہری سانس لی، اُن کا چہرہ جزوی طور پر ان کے میڈیکل ماسک کے پیچھے چھپا ہوا تھا، انھوں نے کہا کہ ’لڑکی کے اعضا اس کے ساتھ ہی رکھ دیں۔‘اسی دن علاء ایک ایسے گھر میں پہنچے جہاں بُری طرح جھلسے ہوئے پانچ مردہ بچوں کو رکھا گیا تھا۔ انھوں نے ایک ٹیم کو ہدایت کی کہ بچوں کو پلاسٹک کے کفن میں اُن کی ایمبولینس میں رکھ دیں۔انھوں نے کہا کہ جب آپ کسی بچے کے جسم کے اعضا کو پکڑتے ہیں تو سب سے پہلے جو چیز ذہن میں آتی ہے وہ آپ کے اپنے بچے ہوتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہFeras Al Ajrami
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.