غزہ کی صورتحال تیل اور گیس کی عالمی سطح پر سپلائی کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, بی بی سی
- عہدہ, عربی
دنیا کے مختلف ممالک کو غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور فلسطینی تحریک حماس کے درمیان تنازع جاری رہنے کے اثرات، تیل اور گیس کی عالمی سپلائی اور اس کی قیمتوں پر پڑنے کے خدشات ہیں۔
7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والے تنازعے کے نتیجے میں اِس وقت عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔
اس تنازعے کی ابتدا کے بعد سے یورپی برینٹ کروڈ کی قیمت میں تقریباً 10 فیصد جبکہ امریکی برینٹ کروڈ کی قیمت میں لگ بھگ 9 فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں برینٹ کروڈ آئل کی قیمت تقریباً 90 ڈالر فی بیرل ہے۔
اس شعبے سے وابستہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہ تنازع جاری رہتا ہے اور مزید شدت اختیار کرتا ہے تو پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی میں خلل پڑ سکتا ہے اور عالمی سطح پر قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ سنہ 1973 میں مصر، اسرائیل جنگ کے نتیجے میں عالمی سطح پر بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا جس کے اثرات سے نکلنے میں دنیا کو کافی وقت لگا تھا۔ 1973 میں عرب ممالک نے یورپی اور دیگر ممالک کو خام تیل کی فراہمی معطل کر دی تھی۔
بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے سربراہ فتح بیرول نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگ پہلے سے دباؤ کی شکار تیل کی منڈیوں کے لیے ’کوئی اچھی خبر نہیں ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ اس تنازعے سے قطع نظر سعودی عرب اور روس نے پہلے ہی تیل کی پیداوار میں کمی کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ چین میں تیل کی مانگ مزید بڑھ رہی ہے۔
تیل کے شعبے کے تجزیہ کار ایڈورڈو کیمپنیلا کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل تیل پیدا کرنے والا ملک نہیں ہے جبکہ غزہ کی پٹی کے قرب و جوار میں تیل کا کوئی بڑا بنیادی ڈھانچہ بھی موجود نہیں ہے۔‘ تاہم، ایک اہم خطرہ ایران کی اس تنازع میں براہ راست مداخلت کا ہے۔ ایران اس اس تنازع میں حماس کے کھلے عام حمایت کرتا ہے اور اسرائیل کو ’مسلم دنیا کا سب سے بڑا دشمن‘ قرار دیتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کا خطہ دنیا میں تیل کی مجموعی سپلائی کے تقریباً ایک تہائی حصے کو کنٹرول کرتا ہے، اور عالمی سپلائی کا تقریباً 20 فیصد تیل آبنائے ہرمز سے گزرتا ہے۔
تیل کے شعبے کے ماہرین کے مطابق فروری 2022 میں یوکرین کے خلاف روسی جنگ شروع ہونے کے بعد اب موجودہ غزہ، اسرائیل تنازع کو توانائی کی عالمی منڈی کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر ایران اور سعودی عرب جیسے ممالک تک یہ تنازع پھیلتا ہے تو اس کے اثرات ہوں گے خاص طور پر اگر ایران آبنائے ہرمز کو تیل کی سپلائی کے لیے بند کر دیتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ایڈورڈو کیمپنیلا کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے خطے کے ممالک میں سے صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس آبنائے ہرمز سے گزرے بغیر خلیج سے یورپی ممالک کو خام تیل کی ترسیل کے لیے پائپ لائنیں دستیاب ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ امریکہ اور اسرائیل کو اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ ایران اس معاملے میں ملوث ہے تاہم اگر آگے چل کر حماس کے ساتھ ایران کو کوئی لنک اسٹیبلیش ہو جاتا ہے تو اس کا نتیجہ ایران پر مزید امریکی پابندیوں کی صورت میں نکل سکتا ہے اور یہ وہ صورتحال ہو گی جس سے تیل کی عالمی منڈی پر دباؤ بڑھے گا۔
تاہم دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایران پر مزید پابندیوں کے خدشات سے سپلائی میں کمی کی بات اس لیے بھی درست نہیں کیونکہ امریکہ یہ پابندیاں اسی وقت عائد کرے گا (اگر کرتا ہے تو) جب وہ سعودی عرب سے تیل کی اضافی پیداوار کی ضمانت لے لے گا، تاہم اس کے بقول ایسا کچھ ہونے کی توقع نہیں ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے واشنگٹن کی ثالثی کا معاہدہ بھی ایک ایسی چیز تھی جو سعودی عرب کی جانب سے تیل کی پیداوار میں اضافے کا باعث بن سکتی تھی، مگر غزہ اسرائیل تنازع کے باعث یہ معاہدہ بھی معطل ہے۔
وال سٹریٹ جرنل نے تقریباً دو ہفتے قبل رپورٹ کیا تھا کہ سعودی عرب نے وائٹ ہاؤس کو آگاہ کیا تھا کہ وہ سعودی عرب، اسرائیل معاہدے کو محفوظ بنانے کی غرض سے اگلے سال (2024) کے شروع میں تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
سعودی عرب اور روس نے اس سے قبل تیل کی سپلائی میں رضاکارانہ کمی کا اعلان کیا تھا، جس کی مقدار یومیہ 1.3 ملین بیرل تھی، اور اس اعلان نے ہی ستمبر کے آخر میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کو رواں برس کے ابتدائی 10 ماہ کی بلند ترین سطح پر دھکیل دیا تھا۔
ایران پیٹرولیم مصنوعات برآمد کرنے والے ممالک (اوپیک) کا رکن ہے اور اس پر برسوں سے عائد عالمی معاشی پابندیوں نے اس کی تیل کی پیداوار کو نقصان پہنچایا ہے۔ تیل کے تجزیہ کار ہیلگے آندرے مارٹنسن کے مطابق گذشتہ 12 مہینوں کے دوران ایران کی تیل کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور عالمی سطح پر ایران پر تیل کی سمگلنگ کا شبہ بھی ہے تاہم بائیڈن انتظامیہ اس معاملے پر جان بوجھ کر اس لیے آنکھیں بند کیے ہوئے ہے تاکہ تیل کی کم سپلائی اور زیادہ مانگ جیسے معاملات سے نمٹا جا سکے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
گیس کی صورتحال
گیس کے حوالے سے نتائج زیادہ تیزی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اکتوبر کے وسط میں، ڈچ گیس فیوچر ٹریڈنگ پلیٹ فارم (ٹی ٹی ایف) پر گیس کی قیمت، جو کہ قدرتی گیس کے لیے یورپی بینچ مارک تھی، حماس کے حملے کے بعد پہلے کے مقابلے میں ایک تہائی بڑھ گئی ہے۔
تجزیہ کار سٹیفن اینس کےمطابق ’جنگ سے علاقائی قدرتی گیس کی مارکیٹ کو شدید خطرہ لاحق ہے، اور اس کا اثر ایل این جی کی سپلائی پر پڑ سکتا ہے۔‘
گیس کے شعبے کے تجزیہ کار گیووانی سٹینوو کہتے ہیں کہ ’اگرچہ گیس کے یورپی سٹاک تقریباً بھر چکے ہیں، لیکن اگر کسی بھی وجہ سے گیس کی سپلائی معطل ہوتی ہے تو یورپی سٹاک موسم سرما گزارنے کے لیے کافی نہیں۔‘
حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی وزارت توانائی نے آف شور تمر گیس فیلڈ سے پیداوار عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کیا تھا اور امریکی کمپنی شیورون نے اسرائیلی حکام کی ہدایات کی بنیاد پر اس فیلڈ میں اپنی سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔
اینس کے مطابق ’یہ فیلڈ دنیا کی مائع قدرتی گیس کی فراہمی کا تقریباً 1.5 فیصد تک کی نمائندگی کرتا ہے، اور یہاں کی سپلائی مقامی طور پر اور مصر اور اردن تک جاتی ہے۔‘
عام اوقات میں اس چھوٹے سائز کے گیس فیلڈ سے سپلائی معطل ہونے پر گیس کی عالمی منڈیوں میں الجھن پیدا نہیں ہوتی لیکن حالیہ برسوں میں روس اور یوکرین جنگ کے بعد عالمی گیس مارکیٹوں کو مزید نازک اور غیر مستحکم بنا دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر غزہ میں جنگ جاری رہتی ہے اور اس کے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
Comments are closed.