غزہ کی خیمہ بستوں کی بیوائیں:’وہ اپنے بچوں کے لیے کھانا لینے نکلا اور کفن میں واپس لوٹا‘

  • مصنف, فرگل کین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم
  • 3 منٹ قبل

جس وقت زوہرہ جب اپنے بچوں کے ساتھ خیمے میں نہیں ہوتیں اس وقت وہ اُس ساحِلِ سمندر کو دیکھ رہی ہوتی ہیں جو مغربی سرحد کی صورت میں وہاں موجود ہے۔ یہاں چمکتے سورج والے دن روشن اور آسمان نیلا ہوتا ہے اور جب دن ڈھلنے کو آتا ہے تو غروب ہوتا سورج سارے افق کو سنہری اور سرخ رنگ میں رنگ دیتا ہے اور ہر طرف خاموشی اور وحشت چھا جاتی ہے۔یہ وہی سمندر ہے جو شمال میں تل ابیب کے ساحلوں کو اپنی لہروں سے سیراب کرتا ہے اور بحیرہ روم کے ساحلوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ مگر یہ ساحل زوہرہ کے لیے وحشت کا باعث بھی ہے کہ یہ وہی ساحلِ سمندر ہے جہاں ایک اسرائیلی فوجی کشتی سے برسائے جانے والے گولے نے اُن کے شوہر کی جان لی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ’وہ سمندر کے کنارے جا رہا تھے جہاں امدادی گاڑیاں اور قافلہ موجود تھا۔۔۔ اس مقام پر بہت بھیڑ تھی، کہ اچانک ایک جانب سے اسرائیلی فوجی کشتیوں نے ان فلسطینیوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔ میرے شوہر بھی زخمی ہونے والوں میں شامل تھے اُن کے بھی سر پر گہرا زخم آیا۔‘

یہ واقعہ 9 فروری کو پیش آیا لیکن زوہرہ، جو اب بیواؤں اور یتیموں کی خیمہ بستی کے ایک حصے میں زندگی گُزار رہی ہی ہیں، کو فوری طور پر نہیں پتہ چل سکا کہ اُن کے شوہر کے ساتھ کیا ہوا ہے۔اس 26 سالہ بیوہ ماں نے حال ہی میں اپنے چوتھے بچے کو جنم دیا تھا۔پہلے تو جو نوجوان جو جائے وقوعہ پر موجود تھے اور حقیقت جانتے تھے، انھوں نے زوہرہ تک یہ خبر نہیں پہنچنے دی تھی، اور بس اُن سے کہہ دیا کہ محمود کو آنے میں کُچھ وقت لگے گا۔لیکن اندر ہی اندر زوہرہ کو یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ کچھ گڑبڑ تو ضرور ہے۔ اتنے میں زوہرہ کے دیور چیختے چلاتے اُن کے پاس پہنچے اور روتے ہوئے کہنے لگے کہ ’محمود مر گیا ہے۔‘یہ خبر کس حد تک سچ تھی، یہ جاننے کے لیے زوہرہ شدید بے چینی کے عالم میں ہسپتال پہنچیں اور وہ ہر طرف محمود کو ڈھونڈ رہیں تھیں۔اور بلآخر وہ انھیں مل گئے۔۔۔ زوہرہ آگے جھکتی ہیں، اپنا سر جھکا لیتی ہیں اور روتی ہیں۔ اپنی ماں کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کی تین سالہ بیٹی لانہ آہستہ سے اپنی ماں کے بازو کو چھوتی ہے۔ پھر وہ اپنی ماں کی گود میں سوئے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی محمد کے جسم کو آہستہ سے تھپتھپاتی ہے۔ شاید وہ یہ سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ وہاں سب ہو کیا رہا ہے۔ زوہرہ نے پھر سے بتانا شروع کیا ’ان کا (محمود) پورا جسم مشینوں سے جڑا ہوا تھا اور برف کی مانند ٹھنڈا تھا۔ میں ان سے بات نہیں کر پا رہی تھی وہ خاموش تھے۔ میں نے کئی بار کوشش کی، لیکن کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔۔۔ محمود کے پاس میرے کسی سوال کا جواب نہیں تھا، ہر بار اُنھیں پُکارنے پر بس ایک دل خراش خاموشی تھی۔‘’یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پُرسکون انداز میں سو رہے تھے۔۔۔ وہ اپنے بچوں کے لیے کھانا لینے گیا اور کفن میں واپس لوٹا‘۔ان کا پورا خاندان جنگ سے بکھر گیا ہے۔ وہ پہلے غزہ شہر میں رہتے تھے مگر لڑائی شروع ہونے کے بعد جان بچانے کے لیے وہ غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع النصیرات کے پناہ گزین کیمپ کی طرف بھاگ نکلے۔ یہ محمود کی غزہ میں پائینیر فوڈ کمپنی میں مزدور کے طور پر کام کرنے والی ملازمت کا خاتمہ تھا۔لیکن انھیں ایک بار پھر النصیرات سے نکلنا پڑا، یہاں سے وہ جان بچا کر رفح کی طرف نکلے کیونکہ اسرائیلی دفاعی افواج نے اعلان کیا تھا کہ یہ ایک محفوظ علاقہ ہے۔آج کل زوہرہ المواسی پناہ گزین کیمپ کے ایک حصے میں دوسری بیواؤں کے ساتھ رہتی ہیں جو کہ خواتین اور بچوں کے لیے مختص ہے۔ خان یونس کے قریب ان کے گھر پر اسرائیلی فضائی حملے میں ان کی پڑوسی امینہ نے اپنے شوہر اور تین بچوں کو کھو دیا۔آمنہ اور ان کے پانچ سالہ بیٹے ابراہیم جو کہ معذور بھی ہیں، کو اُس ملبے سے زندہ نکالا گیا جہاں اُن کے خاندان کے باقی افراد دفن تھے۔ایک اور بیوہ، 32 سالہ امانی جاسر الخاور، اکتوبر میں وسطی غزہ میں ایک فضائی حملے میں اپنے شوہر، ایک پولیس اہلکار اور اپنے پانچ بچوں کو کھو بیٹھیں اور اب زنک پینلز سے بنی ایک پناہ گاہ میں رہتی ہیں۔زوہرہ اور اس کے بچوں کو پناہ دینے والے اس خیمے میں تیز ہوا اس کے پینلز کو ایسے ہی ہلاتی ہے جیسے وہ پلاسٹک کی چادر یا کپڑے پر کوڑے مار رہی ہو۔وہ مشکل میں ہیں۔ ان کی پناہ گاہ مضبوط نہیں ہے اور مکھیاں مستقل طور پر بچوں پر جمی رہتی ہیں، یہاں زمین دھنس گئی ہے اور خاندان کے کپڑے باہر تاروں پر لٹک رہے ہیں۔زوہرہ اپنے مرحوم شوہر کی تصاویر دکھاتی ہیں جسے دیکھ کر ایک ایسے خوبصورت اور مضبوط عصاب کے آدمی کا احساس ہوتا ہے جو اپنے خاندان کا محافظ تھا۔زوہرہ کہتی ہیں کہ ’میں نہیں جانتی کہ میں محمود کے بغیر کیا کروں گی۔ انھوں نے مجھے کبھی کسی کا محتاج نہیں ہونے دیا۔۔۔ اب کسی کو ہماری پرواہ نہیں ہے۔‘یہ زندگی بیواؤں کے لیے تکالیف اور مُشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ زوہرہ کو اپنے معذور بیٹے مصطفیٰ کے لیے نیپیوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اپنی ان مُشکلات کے بارے میں مسلسل ذکر کرتی رہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میرا بچہ کچھ بھی دیکھتا ہے تو اُسے حاصل کرنے کی ضد کرتا ہے۔ وہ روتا رہتا ہے اور خود کو زمین پر پٹختا رہتا ہے، ضد کرتا رہتا ہے، مانگتا رہتا ہے، لیکن میں اسے وہ نہیں دے سکتی جو وہ مانگتا ہے۔‘زوہرہ کہتی ہیں کہ ’مصطفیٰ کی بہت سی ضروریات ہیں جو میں برداشت نہیں کر سکتی۔ یہ وہ چیزیں مانگتا ہے جو میں اسے نہیں دے سکتی، وہ کھانا، جوس، سیب اور پھل مانگتا ہے جو میں فراہم نہیں کر سکتی۔‘کچھ دن پہلے قریب ہی خیمہ بستی میں ایک اور خاندان کسی طرح ایک مرغی تلاش کرنے میں کامیابی ہو گیا۔ زوہرہ کے بچوں نے یہ سب دیکھ لیا۔ وہ اپنی ماں کے پاس اُمید بھری نظروں اور معصوم خواہش کے ساتھ پہنچے۔تین سالہ لانہ رونے لگی لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتی تھیں۔۔۔ دوسرے لوگ خوش قسمت تھے یا شاید کچھ پیسے والے تھے کہ وہ یہ سب کھانے کے قابل تھے۔المواسی کی بیوہ لاوارث خواتین اور ان کے بچوں کے لیے نئے کیمپ کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔ وہ جنگ زدہ ماحول سے دور ایسی جگہ کے خواب دیکھ رہی ہیں جہاں انھیں بہتر خوراک مل سکے۔ وہ اپنے دلوں میں یہ بھی امید لیے ہوئے ہیں کہ یہ جنگ اور قتل و غارت کا زمانہ جلد اپنے اختتام کو پہنچے گا تاکہ انھیں مزید کسی اور صدمے یا نقصان کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}