غزہ کی جنگ ماضی کی جنگوں سے مختلف اور جنگ بندی کا امکان کم کیوں ہے؟

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہISRAEL DEFENSE FORCES

  • مصنف, جیریمی بوین
  • عہدہ, بین الاقوامی مدیر، بی بی سی

غزہ کی پٹی میں چھڑنے والی حالیہ جنگ اگر ماضی کی جنگوں جیسی ہوتی تو شاید اب تک جنگ بندی ہو چکی ہوتی۔

ہلاک ہونے والوں کو دفنایا جا رہا ہوتا اور اقوام متحدہ میں اسرائیل یہ بحث کر رہا ہوتا کہ تعمیر نو کے لیے غزہ کی پٹی میں کتنا سیمنٹ بھجوانے کی اجازت دی جائے۔

لیکن یہ جنگ ماضی کی جنگوں جیسی نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف ہلاکتوں کی تعداد ہی نہیں جس میں پہلے سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل میں زیادہ تر عام شہریوں کو نشانہ بنایا جس کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کے الفاظ میں غزہ کی پٹی سے ’عظیم انتقام‘ لیا گیا جس میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت بھی عام شہریوں کی ہی ہے۔

یہ جنگ باقی جنگوں سے اس لیے مختلف ہے کیوں کہ یہ ایک ایسے وقت میں چھڑی ہے جب مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنے والی لکیریں گونج رہی ہیں۔ کم از کم دو دہائیوں سے خطے میں پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کے شکار سیاسی منظر نامے کی سب سے سنجیدہ دراڑ کے ایک جانب ایران اور اس کے اتحادی ہیں تو دوسری جانب امریکہ کی اتحادی ریاستیں۔

ایرانی نیٹ ورک، جسے اکثر ’مزاحمت کا محور‘ بھی کہا جاتا ہے، لبنان میں حزب اللہ، شام میں بشار الاسد کی حکومت، یمن میں حوثیوں کے علاوہ ان عراقی مسلح لشکروں پر مشتمل ہے جن کو ایران کی جانب سے اسلحہ اور تربیت دونوں ملتے ہیں۔ ایران غزہ کی پٹی میں حماس اور فلسطین اسلامی جہاد نامی تنظیم کی بھی بھرپور حمایت کرتا ہے۔

دوسری جانب ایران نے روس اور چین سے بھی قربت بڑھائی ہے اور یوکرین میں جاری روس کی جنگ میں ایران ایک اہم شراکت دار بن چکا ہے۔ چین ایران سے وافر مقدار میں تیل خریدتا ہے۔

غزہ کی جنگ جتنا عرصہ جاری رہے گی، اور جب تک اسرائیل عام فلسطینی شہریوں کو ہلاک کرتا رہے گا اور ہزاروں مکانات کو تباہ کرتا رہے گا، اس تنازعے میں دونوں اطراف سے مزید اراکین کے شامل ہو جانے کا خطرہ باقی رہے گا۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

اسرائیل اور لبنان کے درمیان سرحد پر بتدریج رفتہ رفتہ تناؤ بڑھ رہا ہے۔ اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ہی ایک کھلی جنگ کے خواہشمند نہیں ہیں۔ تاہم ایک دوسرے پر مکے برساتے ہوئے اس بات کا امکان بڑھ رہا ہے کہ معاملہ کسی بھی وقت بے قابو ہو سکتا ہے۔

یمن سے حوثی اسرائیل کی جانب ڈرون بھیج رہے ہیں اور میزائل بھی داغ رہے ہیں جن کو اب تک اسرائیلی فضائی دفاعی نظام یا بحیرۂ احمر میں موجود امریکی بحریہ کے جنگی جہازوں نے ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی مار گرایا ہے۔

عراق میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں نے امریکی فوجی اڈوں پر حملہ کیا ہے۔ امریکہ نے جوابی کارروائی میں شام میں موجود ان کے چند اڈوں کو نشانہ بنایا ہے۔ تاہم دونوں اطراف تنازعے میں شدت لانے سے گریز کر رہی ہیں جس کے باوجود کسی عسکری کارروائی کی رفتار کو مکمل طور پر قابو میں رکھنا ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔

امریکہ کے ساتھ اسرائیل، مصر اور اردن کے علاوہ مشرق وسطیٰ کی وہ ریاستیں کھڑی ہیں جن کے پاس تیل کی دولت ہے۔ اس دوران امریکہ نے اسرائیل کی مکمل حمایت کی ہے اگرچہ یہ واضح ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیلی کارروائیوں میں اتنی بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت سے بے چین ہیں۔ امریکی سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن نے عوامی سطح پر کہا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں فلسطینی شہری ہلاک ہو رہے ہیں۔

امریکہ کے تمام عرب اتحادیوں نے اسرائیل کی مذمت کرتے ہوئے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ شمالی غزہ سے لاکھوں کی تعداد میں فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے فرار ہوتے دیکھا گیا ہے جو جنوب کی جانب مرکزی شاہراہ پر پیدل سفر کرتے بھی دکھائی دیے۔

ان مناظر نے 1948 میں عرب دنیا کے خلاف اسرائیل کی فتح کی یاد تازہ کر دی ہے جب اسرائیل نے آزادی کا اعلان کیا تھا۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہWAEL HAMZEH/EPA-EFE/REX/SHUTTERSTOCK

،تصویر کا کیپشن

حزب اللہ نے جنگ میں ایک دوسرا محاز کھولنے کی دھمکی دے رکھی ہے

اس وقت سات لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہوئے تھے جن کی اکثریت کو اسرائیلیوں نے بندوق کی نوک پر گھروں سے نکال دیا تھا۔ اس واقعے کو فلسطینی ’نکبہ‘ (یعنی قیامت کبری) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ غزہ کے رہائشیوں کی اکثریت 1948 میں بے گھر ہو جانے والے فلسطینیوں کی اولادیں ہیں۔

ایسے میں یہودی قوم پرست گروہوں کی جانب سے ایسی خطرناک باتیں ہو رہی ہیں جن میں نتن یاہو حکومت کی حمایت کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں پر ایک اور نکبہ نافذ کرنے کا ذکر کیا جا رہا ہے جس سے امریکی کیمپ میں شامل عرب ریاستیں، خصوصا اردن اور مصر، کافی تشویش میں مبتلا ہیں۔

نتن یاہو کی حکومت کے ایک وزیر حماس سے نمٹنے کے لیے غزہ کی پٹی پر جوہری بم گرانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ ان کو اس بات پر تنقید کا سامنا تو کرنا پڑا لیکن انھیں عہدے سے نہیں ہٹایا گیا۔

ان تمام باتوں کو انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اقلیتی انتہا پسندوں کی عقل سے عاری خواہشات قرار دے کر جھٹلایا جا سکتا ہے لیکن اردن اور مصر میں انھیں سنجیدہ لیا جا رہا ہے۔ شاید جوہری ہتھیار کے استعمال کو نہیں، جن کا ایک بڑا غیر اعلانیہ ذخیرہ اسرائیل کے پاس موجود ہے، لیکن لاکھوں فلسطینیوں کی سرحد پار جبری بے دخلی کے امکانات کو ضرور سنجیدگی اور تشویش سے دیکھا جا رہا ہے۔

جہاں تک غزہ کی پٹی میں جنگ کا معاملہ ہے تو اسرائیل کے مضبوط مغربی اتحادی ممالک کے سینیئر سفارت کاروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ اور اس کے بعد کی صورت حال سے نمٹنا ’مشکل اور مسائل سے بھرپور ہو گا۔‘

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہReuters

ایک سفارت کار نے کہا کہ واحد راستہ فلسطینیوں کے لیے ایک سیاسی منظر نامے کی تعمیر نو ہو گا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب اشارہ کر رہے تھے جسے دو ریاستی حل کہا جاتا ہے۔ یہ تصور ناکام ہو چکا ہے جو اب صرف ایک نعرے کی شکل میں ہی زندہ ہے۔

لیکن اسرائیل اور عرب دنیا کے درمیان کسی قسم کی مفاہمت کے پس منظر میں اس تصور کو از سر نو زندہ کرنا اس وقت سب سے بہترین خیال ہے جو آسان کام نہ ہو گا۔ درد، نفرت اور خطرات سے بھرپور موجودہ ماحول میں اس تصور کو زندہ کرنا ہی کافی مشکل کام ہو گا۔ اور یہ اسرائیل اور فلسطین کی موجودہ قیادت کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیے

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے بعد کے منصوبے سے پردہ نہیں اٹھایا لیکن انھوں نے امریکی تجویز کو مسترد کیا ہے جس کے تحت 2007 میں حماس کے ہاتھوں بے دخل ہونے والی فتح تنظیم یعنی فلسطین اتھارٹی کو حکومت لوٹانا ہے جس کے صدر محمود عباس ہیں۔

امریکی منصوبے کا دوسرا حصہ دو ریاستی حل کے لیے مذاکرات ہیں جس کی مخالفت نتن یاہو نے اپنی پوری سیاسی زندگی کے دوران کی ہے۔ نتن یاہو فلسطینیوں کی آزادی کے خلاف ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان کی وزارت عظمیٰ کی بقا کا دارومدار ان یہودی انتہا پسندوں کی حمایت پر ہے جو یہ مانتے ہیں کہ اردن دریا اور بحیرۂ روم کے درمیان کا پورا خطہ خدا نے یہودیوں کو دیا اور اسے اسرائیل کا حصہ ہونا چاہیے۔

بہت سے اسرائیلی ایسے بھی ہیں جو نتن یاہو کو سات اکتوبر کے حملوں کے بعد سکیورٹی اور انٹیلیجنس کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

فلسطینی صدر محمود عباس اب اسی کے پیٹے میں ہیں اور ووٹر کی نظر میں بے وقعت ہو چکے ہیں باوجود اس بات کے کہ 2005 کے بعد سے انھوں نے انتخاب کا موقع نہیں دیا۔ فلسطینی اتھارٹی غرب اردن میں سکیورٹی کے لیے اسرائیل سے تعاون کرتی ہے لیکن اپنے لوگوں کو یہودی آباد کاروں سے نہیں بچا پاتی۔

قیادت کی تبدیلی ناگزیر ہوتی ہے۔ اگر غزہ کی اس ہولناک جنگ نے اسرائیلیوں، فلسطینیوں اور ان کے طاقتور دوستوں کو امن کے لیے ایک کوشش کرنے پر آمادہ نہیں کیا تو پھر جنگ ہی ان کا واحد مستقبل ہو گی۔

BBCUrdu.com بشکریہ