غزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘
- مصنف, فرگل کین
- عہدہ, بی بی سی نیوز، یروشلم
- 2 گھنٹے قبل
ایک ماں اپنے لاپتہ بچے کو تلاش کرنے کہیں بھی جائے گی اور جب تک اس کے جسم میں جان ہے، وہ نہیں رکے گی۔ اس کا بچہ زندہ ہے یا نہیں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔چار دن تک کریمہ الراس خان یونس کے النصر ہسپتال میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں میں تمام تر بدبو، مٹی اور آس پاس کے شور کے باوجود اپنے 21 سالہ بیٹے کو تلاش کرتی رہیں۔احمد 25 جنوری کو خان یونس میں ہلاک ہو گیا تھا لیکن اس کی لاش اس وقت سے ہی لاپتہ تھی۔ اور پھر منگل کے دن کریمہ کو اپنا بیٹا مل گیا۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں یہاں اس وقت تک آتی رہی جب تک مجھے اپنا احمد مل نہیں گیا۔ اس نے 12 سال کی عمر میں اپنے والد کو کھو دیا تھا اور میں نے ہی اسے پالا۔‘
قریب ہی دیگر خاندان بھی قبروں کے کونوں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ دنیا کے جنگ زدہ علاقوں میں ایسے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ایک جانب بلڈوزر قبروں میں موجود لاشوں کو نکالنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ زمین کے نیچے سے ایک بازو دکھائی دے رہا ہے۔ چند افراد نکلنے والی لاشوں کو دفنانے کے لیے نئے مقام کی شناخت کر رہے ہیں۔ اور لاپتہ افراد کے خاندان والے اس امید میں کھڑے ہیں کہ ان کے پیارے بھی یہیں کہیں ہوں گے۔،تصویر کا ذریعہEPA
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.