غزہ: ’آخر کون سی عید؟ ہماری روزمرہ کی زندگی میں تو کچھ بھی معمول پر نہیں‘
،تصویر کا کیپشنالہام کا کہنا ہے کہ اس برس مشرقی یروشلم میں رہنے والے فلسطینی مسلمانوں میں موجود بے بسی کے احساس کو کوئی چیز خوشی میں نہیں بدل سکتی

  • مصنف, ریحا کنسارا
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • Twitter, @rehakansara
  • 2 منٹ قبل

رمضان کے مقدس مہینے کے اختتام پر دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمان آج عید الفطر منا رہے ہیں تاہم اس برس غزہ میں جاری جنگ میں خاص طور پر فلسطینی علاقوں میں عید کی خوشیاں ماند پڑ گئی ہیں۔ مقبوضہ مشرقی یروشلم کے پرانے شہر کی گلیوں میں اذان کی آواز گونجتی ہے اور پھر یہ ایک اسرائیلی چوکی سے گزر کر 35 برس کی الہام کے گھر کے تک سنائی دیتی ہے۔’کیا آپ اسے سن سکتی ہیں؟‘ وہ پرجوش ہو کر پوچھتی ہیں۔ ’یہ الاقصیٰ (مسجد) سے ہے۔‘مسجد اقصیٰ مذہب اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد الہام کی دہلیز پر ہی واقع ہے۔ یہ متنازع سرزمین بھی ہے اور اسے ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، جو یہودیت کا مقدس ترین مقام ہے۔

الہام جانتی ہیں کہ ان کی یہاں رہائش ہونا کتنے اعزاز کی بات ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ایک روحانی تحفہ ہے۔ ہر کوئی اس کے لیے مجھ پر رشک کرتا ہے۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔‘سماجی کارکن الہام تقریباً 450 افریقی فلسطینیوں میں سے ایک ہیں، جو اس پرانے شہر کے مسلمان گھرانوں والے حصے میں آباد ہیں۔سنہ 1917 میں یروشلم پر انگریزوں کی حکمرانی سے قبل ان کے گھر کبھی عثمانیوں کے زیر استعمال جیلیں تھی۔ برسوں بعد جب برطانوی حکام نے یروشلم کے انتہائی متنازع مفتی اعظم شیخ حاج امین الحسینی کو قتل کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے یہ زمین جذبہ خیر سگالی کے طور پر ’افریقی فلسطینی‘ کمیونٹی کو تحفے میں دے دیا۔ایک افریقی فلسطینی گارڈ نے مفتی اعظم کی جان بچائی تھی اگرچہ اس دوران وہ خود قتل ہو گئے تھے۔ اس علاقے میں تین چار نسلوں سے رہنے والی یہ کمیونٹی ’اب الاقصیٰ کے محافظ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ الہام کا کہنا ہے کہ اس برس مشرقی یروشلم میں رہنے والے فلسطینی مسلمانوں میں موجود بے بسی کے احساس کو کوئی چیز خوشی میں نہیں بدل سکتی۔ وہ طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’آپ ’عید مبارک‘ کہہ سکتے ہیں اور اکٹھے ہو کر گھر والوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں لیکن آخر کون سی عید؟‘وہ کہتی ہیں کہ ’کوئی رمضان نہیں، کوئی عید نہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں کچھ بھی تو معمول پر نہیں۔ ہم صرف بیٹھ کر غزہ کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGettyمسجد اقصیٰ جمعے والے روز ہمیشہ ہی کھچا کھچ بھری ہوتی ہے مگر حالیہ برسوں میں اسرائیلی حکام نے ماہ رمضان میں سکیورٹی کو بنیاد بنا کر یہاں تک رسائی محدود کر دی۔ الاقصیٰ کے قریب چھوٹے موٹے واقعات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں مگر یہ ماضی میں رونما ہونے والے واقعات کے مقابلے میں کچھ بھی نہی۔ اس سال غزہ کے تنازعے کے ساتھ خاص طور پر ایسے اندیشے تھے کہ کشیدگی میں اضافہ ہو گا اور اسی تناظر میں یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ صرف 55 سال سے زیادہ عمر کے مردوں اور 50 سے برس سے زیادہ عمر کی خواتین کو داخلے کی اجازت ہو گی۔اس کے باوجود باہر تعینات محافظوں نے اپنی صوابدید پر ہر عمر کے زائرین کو جانے کی اجازت دی اور دسیوں ہزار لوگ اس جگہ پر نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، جہاں سے ان کے خیال میں پیغمبر اسلام جنت کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ الہام خود بغیر کسی مشکل کے اس مسجد میں جاتی ہیں۔ امام خطبہ دینا شروع ہوتے ہیں اور ان کے ذہن میں صرف ایک ہی بات ہے۔’سخت سردی، جان لیوا ٹھنڈ اور ہماری پیاری سرزمین، غزہ سے اعضا اور خون کے چشمے کے مناظر۔۔۔ ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ان دلوں سے جو پتھروں کی طرح سخت ہوں یا اس سے بھی سخت، ہمدردی، رحم اور انسانیت سے عاری۔ اے اہل غزہ خدا تمھارا محافظ ہو۔‘ہر کوئی غزہ کے لیے دعا کر رہا ہے۔ غزہ اب مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ کچھ مسلمان، جنھوں نے پہلے رمضان کے دوران روزے نہیں رکھے تھے، نے اس سال پہلی بار اپنے ساتھی فلسطینیوں کے لیے روزے رکھے۔مسجد میں خطبہ دینے والے پروفیسر مصطفیٰ ابوسوی کہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم کے مسلمان دل شکستہ ہیں۔’رمضان روحانیت، خود شناسی، خیرات اور انسانیت میں اپنے بہنوں اور بھائیوں کی دیکھ بھال کا مہینہ ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں مگر یہ رمضان غزہ میں ایک نسل کشی کے دوران گزرا، جہاں موت، قحط اور درد کے علاوہ ہر چیز کا فقدان ہے۔‘اسرائیل نے کہا ہے کہ نسل کشی کے الزامات ’اشتعال انگیز‘ ہیں اور اس کا بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے لیے ’عزم غیر متزلزل‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا کیپشنالہام کا خاندان
اپنے گھر سے ایک منٹ کے پیدل سفر پر الہام مسلم کوارٹر کی گلیوں میں لگے ہوئے بازار کے سٹالوں سے تیزی سے گزرتی ہیں۔ جیسے ہی وہ اپنے پڑوس میں داخل ہوتی ہیں تو وہ دیکھتی ہیں کہ بہت زیادہ آرٹ ورک سے دیواروں کو آراستہ کیا گیا ہے۔ ایک پینٹنگ میں افریقی براعظم کا خاکہ دکھایا گیا ہے، جس میں مصر کے ساتھ فلسطین کے نقشے کا خاکہ منسلک ہے۔وہ افطار کے لیے وقت پر گھر پہنچ جاتی ہیں۔ یہ کھانا انھیں اپنے خاندان سمیت دن بھر روزہ رکھنے کے بعد نصیب ہو رہا ہے۔ گھر میں خوب چہل پہل ہے اور یہاں ان کی والدہ اور خالہ گپ شپ کر رہی ہیں۔ جب وہ کھانے کے لیے تیاری کر رہے ہوتے ہیں تو بات چیت مسلسل خبروں سے سماجی مسائل کی طرف نکل جاتی ہے، ان کا دن، ان کی نماز کی عادات سے لے کر غزہ تک کے موضوع پر بات ہوتی ہے۔ پھر بات چیت کا موضوع غزہ کی جنگ بن جاتا ہے۔ الہام کی خالہ نے کہا کہ ’اے خدا، ہم ایک ہی چھت کے نیچے کھا رہے ہیں۔ اے خدا، ہم یہاں مزے میں۔‘اس عید پر افریقی فلسطینی کمیونٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں رہنے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار عید بس برائے نام ہی منائی جائے گی۔الہام کہتی ہیں کہ ’کوئی خوشی نہیں۔‘ ان کے مطابق ’ہم نے اپنے گھروں کو سجایا نہیں، ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آئے ہیں۔ صرف رمضان کی روحانی اور رسمی علامات ہی ہیں۔‘اضافی رپورٹنگ یاسمین ایاد
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}