غزہ پر حملے کی وجہ سے کیا عرب ممالک پہلے کی طرح مغرب کو تیل فروخت کرنا بند کریں گے؟

تیل عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, الیکسی کالمیکوو
  • عہدہ, بی بی سی روسی سروس

آج سے ٹھیک نصف صدی پہلے عرب ممالک نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ یہ جنگ تاریخ میں ’یوم کپور کی جنگ‘ کے نام سے درج ہے۔ اس جنگ میں امریکہ نے نئی بننے والی یہودی ریاست اسرائیل کا ساتھ دیا تھا۔

عرب ممالک نے انتقامی کارروائی کے طور پر مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دی تھی۔ عرب ممالک کے اس فیصلے نے عالمی معیشت، توانائی کی پالیسی اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا تھا۔

اس واقعے کے پورے 50 سال بعد ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اسرائیل پر حملہ ہوا ہے، امریکہ اس کے ساتھ کھڑا ہے، عرب ممالک ناراض ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بار بھی عرب ممالک مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دیں گے؟

اگر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تیل اور گیس سے مالا مال ممالک ایک بار پھر پیداوار میں کمی اور ’غیر دوست ممالک‘ تک سپلائی محدود کرنے پر راضی ہو گئے تو عالمی معیشت کے سامنے ایک بڑا بحران کھڑا ہو جائے گا۔

عالمی معیشت ابھی تک کووڈ 19 کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، چین کے ساتھ مغربی ممالک کی تجارتی جنگ، روس کے یوکرین پر حملے اور یورپ کے خلاف گیس کی جارحانہ پالیسی سے نبرد آزما ہے۔ کیا تیل برآمد کرنے والے عرب ممالک اور روس ایک بار پھر مغرب کے خلاف اپنا تیل ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا مغربی دنیا اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے؟

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

تیل کی کمی کے سبب کیڈیلک جیسی زیادہ تیل خرچ کرنے والی کاریں بند ہو گئیں

تیل کی سپلائی روکنے کا آپشن

بین الاقوامی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے سربراہ فاتح بیرول کہتے ہیں: ’یوم کی کپور جنگ کے وقت کی صورت حال اور آج مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے درمیان کچھ مماثلتیں ہیں، لیکن کچھ فرق بھی ہیں۔ دنیا کی توانائی کی مارکیٹ ستر کی دہائی کے بعد سے ڈرامائی طور پر بدل چکی ہے اور یہ مسلسل بدل رہی ہے۔‘

عرب ممالک کی جانب سے تیل کی سپلائی روکنے کے فیصلے کے بعد مغربی ممالک نے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی بنائی تھی۔

آئی ای اے کے سربراہ فاتح بیرول کا کہنا ہے کہ ’دنیا پچاس سال پہلے کے مقابلے اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لیے زیادہ تیار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟‘

تاہم اسرائیل کے مخالفین اور فلسطین کے حامیوں نے ابھی تک سرکاری طور پر مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روکنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔

لیکن 7 نومبر کو ایک کانفرنس کے دوران سعودی عرب کے وزیر خالد الفالح سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا ملک جنگ کے خاتمے کے لیے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے لیے تیار ہے؟

تو خالد الفالح نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: ’ہم آج اس آپشن پر غور نہیں کر رہے، سعودی عرب امن مذاکرات کے ذریعے امن حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘

اسرائیل حماس جنگ کے 35 دن بعد 11 نومبر کو ہونے والی عرب اور اسلامی ممالک کی پہلی کانفرنس میں تیل کی سپلائی روکنے پر کوئی بات نہیں ہوئی۔

ان ممالک نے امریکہ اور اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کے لیے بہت کچھ کہا لیکن توانائی کی پابندیوں پر ایک لفظ بھی نہیں کہا۔

لیکن ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای جو امریکہ اور اسرائیل کے دشمن کے طور پر جانے جاتے ہیں انھوں نے اسرائیل کو تیل کی سپلائی محدود کرنے کی تجویز پیش کی لیکن اسے دوسرے ممالک کی حمایت نہیں ملی۔

اگر عالمی سطح پر دیکھا جائے تو اسرائیل کی درآمدات سمندر میں ایک قطرے کے برابر ہیں۔ یہ روزانہ تین لاکھ بیرل تیل خریدتا ہے اور اسے تیل فراہم کرنے والے ممالک میں قازقستان اور آذربائیجان بھی شامل ہیں۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کی اپیل پر عرب اور اسلامی ممالک نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان کی تنظیم تیل کی فراہمی کے معاملے پر سیاست کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

لیکن اوپیک پلس ممالک اس بارے میں کیا سوچتے ہیں یہ 26 نومبر کو ہونے والے ان کے اگلے اجلاس میں معلوم ہو جائے گا۔

تیل

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

مصر کی تیل ریفائنری جو آگ کی زد میں آئی

جب دو بار تیل کی سپلائی روکی گئی

متنازع فلسطینی سرزمین میں فوجی اور انسانی بحران پیدا ہونے کی صورت عرب ممالک اور ایران میں 1950 کی دہائی سے مغربی ممالک کے خلاف تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے پر بحث کر رہے ہیں۔

اس نے اس مدت میں دو بار تیل کی سپلائی بھی روکی ہے۔ سب سے پہلے 1967 میں چھ روزہ جنگ کے دوران اور پھر 1973 میں یوم کپور جنگ کے دوران۔ پہلی پابندی موثر نہیں تھی لیکن دوسری پابندی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے تھے۔

ان واقعات سے مغرب اور عرب ممالک نے اپنا سبق سیکھا۔ اس لیے اب نہ کوئی تیل کی سپلائی روکنے کی بات کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

پچاس سال پہلے اسرائیل کا خیال تھا کہ اس پر کوئی حملہ نہیں کرے گا اور اسی طرح امریکہ کو لگا کہ عرب ممالک تیل کی سپلائی نہیں روکیں گے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں ہوئیں۔

اسرائیل پر حملے کے دس دن بعد عرب ممالک نے امریکہ، ہالینڈ اور کئی مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی روک دی۔ یہی نہیں خلیج فارس کے شیخ اور ایران کے شاہ نے تیل کی قیمتوں میں 70 فیصد اضافے پر اتفاق کیا۔

ایک طرف تیل کی سپلائی بند ہونے اور دوسری طرف عرب ممالک کی جانب سے پیداوار میں کمی کے باعث تیل کی قیمتوں میں پانچ گنا اضافہ ہوا۔ ان سالوں میں تیل دنیا میں توانائی کا بنیادی ذریعہ تھا اور اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے عالمی معیشت مشکلات کا شکار ہوئی تھی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ، جاپان اور امریکہ کی کرشمائی انداز میں بڑھتی ہوئی معیشتیں ٹھپ ہو گئیں۔

امریکی معیشت 1973 اور 1975 کے درمیان چھ فیصد سکڑ گئی اور بے روزگاری کی شرح نو فیصد تک بڑھ گئی۔ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی بار جاپان کی جی ڈی پی میں کمی آئی۔ لیکن انڈیا اور چین سمیت ایسے ترقی پذیر ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے جو خود تیل پیدا نہیں کرتے تھے۔

کار فری ڈے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

4 نومبر 1973 کو ایمسٹرڈم میں کار فری ڈے کا اعلان کیا گیا

ماضی کے مقابلے اس بار تیل کی سپلائی بند ہونے کے امکانات کم کیوں ہیں؟

ترقی یافتہ مغربی ممالک 1976 میں دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوئے لیکن انھیں آنے والے کئی سالوں تک مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی وجہ صرف تیل کی پابندی ہی نہیں تھی بلکہ جنگ سے پہلے ہی کساد بازاری اور مہنگائی بڑھنے لگی تھی۔ لیکن تیل کی سپلائی بند ہونے سے یہ بحران مزید شدید ہوگیا۔

پانچ ماہ بعد 18 مارچ سنہ 1974 کو یہ پابندی دو اہم وجوہات کی بنا پر ختم کر دی گئی۔

پہلی یہ کہ عرب ممالک یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے تیل کی طلب اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران کی وجہ سے ختم ہو۔

امریکہ اور یورپ نے مشرق وسطیٰ میں تیل کی قلت سے بچانے کے لیے خود کو ڈھالنا شروع کر دیا تھا۔ تیل پیدا کرنے والے ‘اوپیک’ ممالک نے مغربی تیل کمپنیوں کی تیل کی مارکیٹ میں اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا۔ وہ زیادہ قیمتیں پسند کرنے لگے تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گاہک برباد ہوں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ تیل کی پابندی کا بنیادی مقصد کبھی حاصل نہیں کر سکے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کی مدد کرتے رہے۔

مزید یہ کہ امریکیوں نے تیل کی سپلائی بند کرنے کی دھمکی کے دباؤ میں آکر اسرائیل، مصر اور شام کے درمیان امن کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔

تیل کی سپلائی پر پابندی ختم ہوتے ہی اس پورے خطے میں آہستہ آہستہ امن قائم ہو گیا۔ اس کے بعد عرب ممالک نے کبھی اسرائیل پر حملہ نہیں کیا۔

حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ یوم کپور کا دور مختلف تھا۔ اس وقت اور اب کے حالات میں بہت سے فرق ہیں۔

اب اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ تیل پر مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک کے درمیان کوئی لڑائی ہو۔

اس تجزیے میں ہم ان وجوہات پر مزید بات کریں گے جن کی وجہ سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس بار تیل کی سپلائی کے حوالے سے کوئی تنازعہ نہیں ہونے والا ہے۔

رفتار کم

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

تیل کی کھپت کم کرنے کے لیے رفتار کی حد مقرر کی گئی

دنیا اب تیل پر پہلے جیسی منحصر نہیں رہی

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق سنہ 1973 میں عالمی معیشت کو آج کے مقابلے میں اتنی ہی رقم پیدا کرنے کے لیے ساڑھے تین گنا زیادہ تیل درکار تھا۔

انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق سنہ 1973 میں دنیا کی نصف بجلی تیل اور پیٹرولیم مصنوعات سے پیدا کی جا رہی تھی جب کہ آج یہ صرف ایک تہائی ہے۔

مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی بند ہونے سے پہلے پوری دنیا کی معاشی سرگرمی کا انحصار صرف تیل پر تھا۔

اس کے بعد حالات بدل گئے اور اب کوئلہ، گیس اور ایٹمی توانائی بھی یکساں اہمیت اختیار کر گئی ہے۔

مغربی ممالک نے خود تیل پیدا کرنا شروع کر دیا ہے اور یوں انھیں اوپیک کا متبادل مل گیا ہے۔

تیل کے بحران نے وہ نقصان ظاہر کیے جو توانائی کے ذرائع کے لیے دوسروں پر انحصار کرنے کی صورت میں پیدا ہو سکتے تھے۔

یورپ نے فوری طور پر شمالی سمندر میں تیل کی پیداوار بڑھا دی اور امریکہ نے الاسکا میں پائپ لائن بچھائی۔

اس کے ساتھ مغربی ممالک کی کمپنیوں نے مشرق وسطیٰ کے علاوہ ان علاقوں میں سرمایہ کاری شروع کر دی جہاں تیل دستیاب تھا۔

تیل کی سپلائی بند ہونے کا سب سے بڑا جھٹکا ان امریکیوں کو لگا جنھوں نے امریکہ کو تیل کے بل بوتے پر بے پناہ دولت کا مالک بنتے دیکھا تھا۔

مشہور تاریخ دان اور ’ایکسٹریکش: اے ورلڈ ہسٹری آف دی سٹرگل فار آیل، منی اینڈ پاور‘ نامی کتاب کے مصنف ڈینیل یرگن کہتے ہیں کہ ‘1973 میں امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل درآمد کرنے والا ملک تھا۔ اب امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور اہم برآمد کنندہ بھی ہے۔‘

امریکی وزری خارجہ کسنجر نے عرب شیخ سے ملاقات کی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

امریکی وزری خارجہ کسنجر کی عرب شیخ سے ملاقات

ترقی کا دور

1967 سے 1973 تک جاپان اور یورپ کی معیشتوں میں جنگ کے بعد ایک بے مثال ترقی کا دور آیا۔ امریکہ میں توانائی کی طلب بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی۔

تیل کی صنعتوں کو اپنے ذخائر کو خالی کرنا پڑ رہا تھا۔ تمام آئل فیلڈز اپنی صلاحیت کا 100 فیصد پیدا کر رہے تھے۔

مشرق وسطیٰ کی وجہ سے تیل کی سپلائی میں اضافہ ہوا تھا اور اس کی وجہ سے اوپیک کی پوزیشن مغربی ممالک کے مقابلے میں مضبوط ہو گئی تھی۔

اس وقت عالمی معیشت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی شرح نمو جو کہ گذشتہ سال 2.6 فیصد تھی وہ موجودہ اور اگلے سال 1.5 فیصد رہے گی۔

یہ بھی پڑھیے

کاریں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سنہ 1973 میں تیل کے لیے امریکہ میں کاریں قطار میں نظر آئیں

امریکہ میں سیاسی بحران تھا لیکن اب نہیں

اسرائیل اور یوکرین کو دی جانے والی امداد کے بارے میں امریکی کانگریس میں کافی عرصے سے بحث جاری ہے۔

اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ دوبارہ صدر بن جائیں، اور ان کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیا کریں گے۔

لیکن موجودہ صورتحال کا سنہ 1973-74 کے دوران کے امریکہ سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس وقت امریکہ کی اعلی ترین قیادت واٹر گیٹ کی گرفت میں تھی۔

صدر رچرڈ نکسن اس سکینڈل میں اس قدر الجھ گئے کہ انھیں اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ہنری کسنجر تنہا ہی عربوں، اسرائیل اور روس کے ساتھ نمٹ رہے تھے۔

ڈینیل یرگن کہتے ہیں: ’میرے خیال میں ہم نے اس سے یہ سبق سیکھا کہ جب امریکہ بحران کا شکار ہوتا ہے تو دنیا زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔‘

بجلی سے چلنے والے ہیٹر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

تیل کی کمی کے سبب بجلی سے چلنے والے ہیٹرمتعارف کرائے گئے

ایک ساتھ ‘لڑائی’ کی تکنیک

ایک اور سبق جو مغربی ممالک نے اس بحران سے سیکھا وہ یہ ہے کہ ہم مل کر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ عرب ممالک نے تمام ممالک کو تیل کی سپلائی نہیں روکی۔ مثال کے طور پر برطانیہ ان کے ’دوست ممالک‘ کی فہرست میں شامل تھا۔

لیکن اندرونی سیاسی بحران کی وجہ سے برطانیہ کو بھی تیل کی درآمد کم کرنا پڑی۔ اوپیک ممالک کی جانب سے تیل کی برآمدات میں کمی کی وجہ سے مغربی ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ان کی تیل کمپنیاں ترقی یافتہ ممالک میں تیل تقسیم کریں گی تاکہ ان کا کوئی اتحادی عرب شیخوں پر انحصار نہ کرے۔

’ایک ساتھ لڑنے اور مل کر مقابلہ کرنے‘ کی تکنیک جو اس بحران کے دوران اختیار کی گئی تھی یورپ آج تک اس پر عمل پیرا ہے۔

گذشتہ سال یورپی یونین کے تمام ممالک نے گیس کے اخراجات میں 15 فیصد کمی پر اتفاق کیا تھا۔ ان میں وہ ممالک بھی شامل تھے جن کو روس نے گیس کی سپلائی نہیں روکی تھی۔

نتیجہ یہ نکلا کہ اس بار یورپی یونین تیسرے موسم سرما میں روس کے ساتھ جاری ‘گیس وار‘ جیتتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ جنگ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملہ کرنے سے صرف ڈیڑھ سال پہلے شروع کی تھی۔

یہ کرائمیا اور روس کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یہ کرائمیا اور روس کے درمیان ایک اہم گزرگاہ ہے

معلومات کی کمی کی وجہ سے ’گھبراہٹ‘

50 سال قبل پیدا ہونے والی صورتحال کے بعد قائم ہونے والی بین الاقوامی توانائی ایجنسی بحران کو روکنے کے لیے مغربی ممالک کے درمیان ہم آہنگی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔

1973 میں مغربی ممالک اچانک ہونے والی پیش رفت کے لیے تیار نہیں تھے۔ نہ ان کے پاس تیل کے ذخائر تھے اور نہ ہی تیل کی سپلائی میں کمی کی صورت میں اٹھائے جانے والے اقدامات کا کوئی منصوبہ۔ ان کے پاس طلب اور رسد کا کوئی تخمینہ بھی نہیں تھا جس کی بنیاد پر وہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو سکیں۔

اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آئی ای اے تشکیل دی گئی۔ یہ ایجنسی بعض اوقات غلط تخمینہ بھی لگاتی ہے، لیکن غلط تخمینہ بھی کوئی تخمینہ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ یہی بات اس یورپی بحران کے دوران بھی درست ثابت ہوئی۔

اب حکومتی عہدیداروں، تاجروں اور مالیاتی اداروں کو اندازہ ہے کہ قیمتیں کیا ہوں گی اور مستقبل میں طلب اور رسد کیسی ہوگی۔ لیکن 1973 میں ایسا نہیں تھا۔

يرگن کہتے ہیں: ’اس وقت ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ قیمت کیا ہوگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر کوئی گھبرا کر کسی بھی قیمت پر کچھ بھی خرید لیتا تھا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ تیل کی سپلائی بند ہونے سے دنیا کی کھپت کا صرف نو فیصد یا منڈی کی کل تجارت کا صرف چودہ فیصد متاثر ہوا لیکن اس کے نتائج بہت بڑے پیمانے پر نظر آئے۔

اب رابطے کا ہر راستہ کھلا ہے اور پیداوار سے متعلق درست معلومات فوری طور پر جمع کی جاتی ہیں۔ لیکن اس کا ایک نقصان بھی ہے۔

1973 کے مقابلے میں اب عرب ممالک کو قیمتوں میں اضافے کے لیے صرف تیل کی سپلائی محدود کرنے کا اشارہ دینا ہے۔ اگر عرب ممالک اس بارے میں کھل کر اور سنجیدگی سے بات کرنے لگیں تو پوری دنیا میں تیل کی قیمتوں کے متاثر ہونے کا سو فیصد امکان ہے۔

اوپیک

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اوپیک کا اجلاس

تیل کے ہتھیار کا اب قیمتوں پر زیادہ اثر نہیں

اب تیل کی بڑھی ہوئی قیمتوں سے ہونے والا نقصان کم ہے کیونکہ 1970 کی دہائی کے مقابلے میں بازار، مرکزی بینک اور معیشتیں مہنگائی کو بہتر طریقے سے برداشت کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

1973-74 میں قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کان کے مزدوروں نے ہڑتال کی اور برطانیہ میں حکومت بدل گئی۔ لیکن اب ٹریڈ یونینوں میں پہلے جیسی طاقت نہیں رہی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے مزدوروں کی اجرت میں مہنگائی کے مطابق اضافہ نہیں ہوا۔

ایسے میں پٹرول یا گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے کارپوریٹ یا سرکاری لیبر کے اخراجات میں فوری اضافہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ، افراط زر اب اس رفتار سے نہیں بڑھتا جو 1970 کی دہائی میں تھا۔ اس کے علاوہ مرکزی بینک اب مالیاتی پالیسیاں بناتے وقت قیمتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جب کہ اس وقت زیادہ توجہ بے روزگاری پر تھی۔

جو بائیڈن اور شہزادہ محمد بن سلمان

،تصویر کا ذریعہANADOLU AGENCY

،تصویر کا کیپشن

جو بائیڈن اور شہزادہ محمد بن سلمان

سعودی عرب کا کردار

مشرق وسطیٰ کی جانب سے سعودی عرب کے بغیر تیل برآمد کرنے والے ممالک کی جانب سے تیل کی سپلائی پر لگائی جانے والی کوئی پابندی موثر نہیں ہوگی۔ 1973 میں سعودی عرب نے ہچکچاتے ہوئے ان پابندیوں کی حمایت کی تھی۔ اب معاملہ بالکل بدل چکا ہے۔

ٹیکسس کی اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے پروفیسر گریگوری گوس نے فارن افیئرز میگزن میں شائع اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’اس وقت سعودی عرب کے مصر اور شام کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جنھوں نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا۔ اب ان ممالک کی حماس کے ساتھ ہمدردی نہیں ہے کیونکہ یہ اخوان المسلمون سے علیحدہ ہو کر اب ایران کی پناہ میں ہے۔‘

مزید برآں، سعودی عرب نے قیمتوں کو گرنے سے روکنے کے لیے روس کی طرح تیل کی پیداوار پہلے ہی کم کر دی ہے۔

گوس لکھتے ہیں: ’سعودی عرب کو مزید پیداوار کم کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ نہ صرف امریکہ بلکہ چین سمیت دیگر صارفین کو اپنے خلاف کر لے گا۔ سعودی عرب کا دنیا کی دو بڑی اقتصادیات اور فوجی طاقتون سے لڑنا عرب شہزادہ ولیعہد محمد بن سلمان کے منصوبوں میں شامل نہیں۔‘

پروفیسر گوس لکھتے ہیں: ’وہ نہیں چاہیں گے کہ سعودی عرب کو ایک ایسی جگہ کے طور پر دیکھا جائے جہاں سیاست کو منافع سے زیادہ ترجیح دی جائے، خاص طور پر جب اس کا بنیادی مقصد ملک میں اقتصادی اصلاحات لانا ہے۔‘

شیخ

،تصویر کا ذریعہAFP

توانائی کے متبادل ذرائع

عرب ممالک کی طرف سے تیل کی سپلائی روکنا وہ چنگاری تھی جس نے توانائی کے عالمی انقلاب کو بھڑکا دیا۔ دنیا نے تیل کی زخیرہ اندوزی شروع کر دی اور تیل کے متبادل کی تلاش شروع کر دی تھی۔

اس بار مشرق وسطیٰ میں یہ بحران ایک ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے جب مغربی ممالک محجر ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی طرف بڑھنے کی دھن میں ہیں۔

آئی ای اے کے سربراہ فاتح بیرول کہتے ہیں: ’بہت سے ممالک نے 1970 کی دہائی میں صفر سے شروعات کی تھی۔ تیل کے جھٹکے نے انھیں توانائی کے تحفظ اور جوہری توانائی کی طرف دھکیل دیا۔ تاہم اس میں وقت لگا اور دیگر ٹیکنالوجیز جیسے کہ ہوا اور شمسی توانائی بھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھی۔‘

وہ کہتے ہیں: ’آج سولر پینل، ونڈ ٹربائنز اور الیکٹرک کاریں آسانی سے دستیاب ہیں۔ اب ہمارے پاس نئے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے طویل المدتی حل موجود ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ