غزہ پر حملے اور جنگ کے خاتمے کے بعد اسرائیل کی مستقبل کی حکمت عملی کیا ہو گی؟
،تصویر کا ذریعہREUTERS
- مصنف, پال ایڈمز
- عہدہ, نامہ نگار برائے سفارتی امور
اسرائیل کے وزیراعظم بینیامن نتن یاہو نے مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کہتے ہیں کہ جہاں تک اسرائیل پہنچ چُکا ہے وہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘
لیکن جب اسرائیلی افواج غزہ کی پٹی پر اپنے حملوں میں اضافہ کر رہی ہیں اور فلسطینیوں کو راستے سے ہٹانے کی بھر پور کوشش میں ہے، تو ایسے میں حالات اور جنگ کا یہ ماحول کیا رخ اختیار کرے گا اور آگے کیا ہو گا؟
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے اسرائیلی حکام مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ وہ غزہ کی پٹی سے حماس کو فوجی اور سیاسی طور پر اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں یعنی اس زمین سے اُن کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
لیکن فوجی طاقت کے بے دریغ استعمال کے علاوہ، اتنے دن گُزر جانے کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول میں کب اور کیسے کامیاب ہو پائے گا؟
تل ابیب یونیورسٹی کے موشے دیان سینٹر میں فلسطینی سٹڈیز فورم کے سربراہ ڈاکٹر مائیکل ملشٹین کا کہنا ہے کہ ’آپ منصوبہ بندی کے بغیر کوئی بھی تاریخی کامیابی کیسے حاصل کر سکتے ہیں۔‘
اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس میں فلسطینی امور کے شعبے کے سابق سربراہ ڈاکٹر ملشٹین کو خدشہ ہے کہ منصوبہ بندی تو ابھی بمشکل شروع ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’آپ کو ابھی اور فی الفور ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مغربی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ ’وہ مستقبل کے بارے میں اسرائیلی حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں اور بات چیت جاری ہے، لیکن ابھی تک کچھ بھی واضح نہیں ہے۔‘
سفارتکاروں میں سے ایک نے بتایا ہے کہ ’کوئی طے شدہ منصوبہ نہیں ہے۔ آپ کے لیے کاغذ پر کچھ خیالات کا اظہار کرنا اور ان کا خاکہ بنانا تو شاید آسان ہے مگر انھیں حقیقت کا روپ دھارنے میں ہفتوں اور کئی مرتبہ مہینوں کی سفارتکاری کی ضرورت ہوتی ہے، یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘
حماس کی فوجی صلاحیت کو کم کرنے سے لے کر غزہ کی پٹی کے بڑے حصے پر قبضہ کرنے تک کے فوجی منصوبے موجود ہیں۔ لیکن جو لوگ ایسے بحرانوں سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جہاں تک منصوبہ بندی کا تعلق ہے، یہی سب کچھ ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل کی غیر ملکی انٹیلی جنس سروس موساد کے ایک سابق سینیئر افسر ہیم تومر کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ہماری افواج کے انخلا کے ایک دن بعد غزہ کا کوئی قابل عمل حل ہے۔‘
اسرائیلی اس بات پر متفق ہیں کہ حماس کو شکست دی جانی چاہیے۔ سات اکتوبر کا قتل عام بہت خوفناک تھا۔ اس تنظیم کو دوبارہ کبھی غزہ پر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
لیکن ڈاکٹر ملشٹین کہتے ہیں کہ ’حماس ایک ایسا خیال اور ایک سوچ ہے جسے اسرائیل اتنی آسانی سے نہیں مٹا سکتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ 1945 میں برلن کی طرح نہیں ہے، جب آپ نے رائخ سٹاگ پر ایک جھنڈا لہرایا تھا اور بس سب کُچھ حاصل کرلیا تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس صورتحال کو آپ 2003 کے عراق سے ضرور ملا سکتے ہیں کہ جہاں امریکی قیادت میں افواج نے صدام حسین کی حکومت کے تمام نشانات کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ’ڈی باتھیفکیشن‘، جیسا کہ اسے کہا جاتا تھا، ایک تباہی تھی۔ اس نے لاکھوں عراقی سرکاری ملازمین اور مسلح افواج کے ارکان کو کام سے محروم کر دیا اور تباہ کن بغاوت کے بیج بوئے۔
(’ڈی باتھیفکیشن‘ سے مراد 2003 میں امریکہ کی زیر قیادت حملے کے بعد نئے عراقی سیاسی نظام میں ایک اہم سیاسی جماعت ’باتھ‘ کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے اتحادی عبوری اتھارٹی (سی پی اے) اور اس کے بعد کی عراقی حکومتوں کی طرف سے عراق میں اپنائی گئی پالیسی ہے۔)
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بعض مبصرین کے مطابق اسرائیل اور غزہ کی موجودہ صورتحال کو 2003 کے عراق سے ضرور ملایا جا سکتا ہے، کہ جب بیرونی افواج نے عراق میں صدام حسین کی حکومت کا تختہ اُلٹنے اور لوگوں کی ذہن سازی کی کوشش کی تھی۔
ڈاکٹر ملشٹین کہتے ہیں کہ ’سابق امریکی فوجی اسرائیل میں موجود ہیں اور فلوجہ اور موصل جیسی جگہوں پر اپنے تجربات کے بارے میں اسرائیلی فوج سے بات کر رہے ہیں یا یہ کہہ لیں کے اُنھیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجھے اُمید ہے کہ وہ اسرائیلیوں کو یہ سمجھائیں گے کہ انھوں نے عراق میں کچھ بڑی غلطیاں کی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’مثال کے طور پر حکمراں جماعت کو ختم کرنے یا لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کے بارے میں کوئی غلط فہمی اپنے ذہنوں میں نا رکھیں۔ ایسا کُچھ نہیں ہو گا۔‘
فلسطینی اس سے متفق ہیں۔
فلسطینی نیشنل انیشی ایٹو کے صدر مصطفی برغوتی کا کہنا ہے کہ ’حماس مقامی سطح پر ایک انتہائی مقبول تنظیم ہے۔ اگر وہ حماس کو ہٹانا چاہتے ہیں تو انھیں پورے غزہ کو نسلی طور پر پاک کرنا ہوگا۔‘
یہ خیال کہ اسرائیل خفیہ طور پر لاکھوں فلسطینیوں کو غزہ کی پٹی اور ہمسایہ ملک مصر سے بے دخل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، فلسطینیوں میں ایک نئے خوف کو جنم دے رہا ہے۔
ایک ایسی آبادی جو پہلے ہی زیادہ تر پناہ گزینوں پر مشتمل ہے، وہ لوگ جو اسرائیل کے قیام کے وقت بھاگ گئے تھے یا اپنے گھروں سے بے دخل ہو گئے تھے، ایک اور بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خیال 1948 کے تکلیف دہ واقعات کی یادیں تازہ کرتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
1948 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی شورش کے مناظر
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی سابق ترجمان ڈیانا بٹو کہتی ہیں کہ ’فرار ہونے کا مطلب یک طرفہ ٹکٹ ہے۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ اس میں واپسی کا کوئی امکان نہیں۔‘
اسرائیلی مبصرین، جن میں سابق سینئر حکام بھی شامل ہیں، بارہا اس بات کی طرف اشارہ کرتے رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو عارضی طور پر سرحد کے اس پار سینائی میں رکھا جائے۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ جیورا ایلنڈ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کے پاس غزہ میں اپنے فوجی عزائم کو حاصل کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ شہری غزہ سے نکل جائیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں عارضی یا مستقل طور پر سرحد پار کر کے مصر جانا چاہیے۔‘
فلسطینیوں کے خدشات میں اضافہ امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے 20 اکتوبر کو کانگریس سے اسرائیل اور یوکرین کی مدد کے لیے فنڈنگ کی منظوری کی درخواست میں اضافہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس بحران کے نتیجے میں سرحد پار نقل مکانی اور علاقائی انسانی ضروریات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
آج تک اسرائیل نے یہ نہیں کہا کہ وہ چاہتا ہے کہ فلسطینی سرحد پار کریں۔ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے بارہا شہریوں سے کہا ہے کہ وہ صرف جنوب میں غیر متعین ’محفوظ علاقوں‘ میں منتقل ہوجائیں۔
لیکن مصر کے صدرعبدالفتاح السیسی نے متنبہ کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ ’شہری باشندوں کو مجبور کرنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔۔۔ کہ مصر کی طرف ہجرت کرو۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فرض کریں کہ غزہ کی پٹی میں اب بھی غزہ کے باشندے موجود ہیں جب یہ سب ختم ہو جائے گا، تو ان پر کون حکمرانی کرے گا؟
ڈاکٹر ملشٹین کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کو ایک نئی انتظامیہ کے قیام کی حمایت کرنی چاہیے جو غزہ کے باشندوں کے زیر انتظام ہو، جس میں مقامی رہنماؤں کی موجودگی ہو، اور امریکہ، مصر اور شاید سعودی عرب کی حمایت بھی اس سب میں شاملِ حال ہو۔‘
اس میں فلسطینی گروہ ’فتح‘ کے رہنما بھی شامل ہونے چاہئیں، جنھیں حماس نے 2006 کے انتخابات جیتنے کے ایک سال بعد غزہ سے پرتشدد طریقے سے بے دخل کر دیا تھا۔
’فتح‘ فلسطینی اتھارٹی کو کنٹرول کرتی ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر ’رام اللہ‘ میں واقع ہے۔
لیکن پی اے اور اس کے عمر رسیدہ صدر محمود عباس مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں فلسطینیوں میں بے حد غیر مقبول ہیں۔
ڈیانا بٹو کا کہنا ہے کہ ’پی اے خفیہ طور پر غزہ واپس جانا چاہتا ہے، لیکن اگر اس کا مطلب ’اسرائیلی ٹینک کی پشت پر سوار ہونا‘ ہے تو نہیں۔‘
اور تجربہ کار فلسطینی سیاست دان حنان اشراوی، جنھوں نے 1990 کی دہائی میں پی اے میں مختصر مدت کے لیے خدمات انجام دیں، اس خیال پر برہم ہیں کہ ’اسرائیل سمیت بیرونی لوگ اور دُنیا ایک بار پھر اس بات کا تعین کرنے کی کوشش کریں گے کہ فلسطینی اپنی زندگی کیسے چلائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ سوچتے ہیں کہ یہ شطرنج کا بورڈ ہے اور وہ کچھ مہروں کو یہاں اور وہاں منتقل کرسکتے ہیں اور آخر میں ایک چیک میٹ حرکت کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونے والا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو شاید کچھ ساتھی مل جائیں، لیکن غزہ کے لوگ اس سب کے بعد کبھی بھی ان کے ساتھ نرمی سے پیش نہیں آئیں گے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جو لوگ پہلے بھی غزہ کی جنگوں سے نمٹ چکے ہیں، اگرچہ اس پیمانے پر نہیں، ان میں گہرے خدشات اور اس بات کا احساس پایا جاتا ہے کہ تقریبا ہر چیز کو پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے، مگر اس کا فائدہ ابھی تک نظر نہیں آیا ہے۔
موساد کے سابق افسر ہیم ٹومر کا کہنا ہے کہ ’وہ یرغمالیوں کو پہلے نکالنے کی کوشش میں ایک ماہ کے لیے فوجی کارروائیاں معطل کر دیں گے۔‘
سنہ 2012 میں غزہ میں لڑائی کے ایک دور کے بعد وہ موساد کے ڈائریکٹر کے ساتھ خفیہ مذاکرات کے لیے قاہرہ گئے تھے جس کے نتیجے میں جنگ بندی ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حماس کے نمائندے ’سڑک کے دوسری طرف‘ موجود تھے اور مصری حکام درمیان میں تھے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اسی طرح کا طریقہ کار دوبارہ استعمال کیا جانا چاہیے اور اسرائیل کو یقینی طور پر اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے پرواہ نہیں ہے کہ ہم حماس کے دو ہزار قیدیوں کو رہا کرتے ہیں۔ میں اپنے لوگوں کو گھر واپس آتے دیکھنا چاہتا ہوں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس کے بعد اسرائیل یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ مکمل طور پر فوجی کارروائیاں دوبارہ شروع کرے یا طویل مدتی جنگ بندی کا انتخاب کرے۔‘
لیکن وہ اس علاقے کو اسرائیل سے الگ کرنے اور اسے بحیرہ روم میں گھسیٹنے سے گریز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل غزہ کی پٹی سے غیر معینہ مدت کے لیے نمٹنا چاہتا ہے۔‘
’یہ ہمارے گلے کی ہڈی کی طرح ہے۔‘
Comments are closed.