غزہ پر اسرائیل کا ممکنہ زمینی حملہ: گنجان آباد علاقوں میں جنگ کے دوران کیا خطرات ہوتے ہیں؟

حماس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, فراس کیلانی
  • عہدہ, بی بی سی عربی

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر ہزاروں فوجی ممکنہ زمینی حملے کے لیے جمع کر رکھے ہیں تاہم جب یہ فوجی غزہ میں داخل ہوں گے تو انھیں ایک گنجان آباد شہری علاقے میں حماس کا سامنا کرنا ہو گا۔

پانچ سال قبل شمالی غزہ کے ایک پناہ گزین کیمپ کے سفر کے دوران مجھے ایک عجیب سی آواز آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جہسے ہم زمین کے بجائے کسی پل پر سے گزر رہے ہیں۔

میرے ساتھ موجود کیمرہ مین نے بتایا کہ اس آواز کی وجہ وہ زیر زمین سرنگیں ہیں جو سطح کے نیچے کھودی گئی ہیں۔ یہ سرنگیں سینکڑوں کلومیٹر طویل بتائی جاتی ہیں جن کی مدد سے حماس خاموشی سے سازوسامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے سات اکتوبر کے حملوں کے بعد حماس کو تباہ کرنے کا اعلان کیا ہے اور اسرائیلی فضائیہ کی بمباری میں اب تک چار ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی حکمت عملی کا اگلا قدم زمینی حملہ ہو گا جس کے دوران حماس ان سرنگوں کو استعمال کرے گا۔

حماس اب تک خوراک، پانی اور اسلحہ زخیرہ کر چکی ہو گی۔ جب اسرائیلی فوجی غزہ میں داخل ہوں گے تو حماس ان سرنگوں کے ذریعے ان پر حملہ آور ہو گی۔

اسرائیل کا اندازہ ہے کہ حماس کے پاس 30 ہزار جنگجو ہیں تاہم کہا جاتا ہے کہ فلسطین اسلامی جہاد سمیت دیگر تنظیموں کے جنگجو بھی حماس کی مدد کریں گے۔

حالیہ تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ کسی گنجان آباد علاقے میں جنگ خطرناک ہوتی ہے جو میں نے خود بھی دیکھا ہے کہ کیسے ایک تربیت یافتہ فوج جب ایسے ماحول میں پرعزم دشمن کو گھیرنے کی کوشش کرے تو اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گلی گلی لڑائی

حماس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

2016 میں جب عراقی سپیشل فورسز موصل شہر پر حملہ کرنے والی تھیں تو میں ان کے ہمراہ تھا۔

جس دن عراقی فوج موصل میں داخل ہوئی تو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کی جانب سے بہت زیادہ مزاحمت کی گئی۔ فائرنگ کے علاوہ ایک چال یہ بھی تھی کہ بہت زیادہ اشیا کو دھماکہ خیز مواد سے بھر دیا گیا تھا جو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انھیں ’بوبی ٹریپ‘ کہا جاتا ہے جو مکانات میں موجود ریفریجریٹر، ٹی وی سیٹ سمیت سونے کے زیورات اور زمین پر پڑے اسلحے تک میں نصب تھے۔

کسی بھی ایسی چیز پر پیر رکھنا یا اسے اٹھانا موت کو دعوت دینا تھا۔ کچھ ایسے ہی خطرات غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں کا انتظار کر رہے ہوں گے۔

موصل کی جنگ کے حتمی لمحات میں لڑائی اتنی شدید تھی کہ ایک موقع پرعراقی فوجی صرف اپنے تحفظ کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔ ایک اور خطرہ سنائپر تھے جو عمارات اور کھنڈرات میں چھپ کر عراقی فوجیوں کو نشانہ بناتے اور ان کو روکنے کے لیے اکثر فضائی بمباری کی مدد لی جاتی۔

اسرائیلی فوج کو بھی حماس کے تربیت یافتہ نشانہ باز جنگجوؤں کے خلاف ایسی ہی حکمت عملی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

ہم موصل میں جس قافلے میں سفر کر رہے تھے اسے متعدد کار بموں سے بھی نشانہ بنایا گیا اور پانچ فوجی ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

حماس کار بم استعمال نہیں کرتی لیکن خودکش بمبار اس کی حکمت عملی میں شامل ہیں۔ اس طرح کا حملہ کسی بھی سکیورٹی فورس پر ڈرامائی حد تک اثر انداز ہو سکتا ہے جب فوجی اپنے جاننے والوں کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کے حواس پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ غزہ پر اسرائیل کا زمینی حملہ کتنی دیر تک جاری رہ سکتا ہے تاہم موصل میں شدید مزاحمت کی وجہ سے عراقی فوج کو شہر پر کنٹرول حاصل کرنے میں نو ماہ کا وقت لگا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

محفوظ راستہ

2017 میں شام کے رقہ شہر میں شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد ایک گنجان آباد علاقے میں محصور ہو گئی تھی۔ اس بار امریکی حمایت یافتہ کرد فوج اور اتحادیوں نے شدت پسندوں کو شہر چھوڑنے کا راستہ دیا۔

مجھے کرد فوج کے ایک سربراہ شام میں ایک امریکی کمانڈر سے خفیہ ملاقات کے لیے لے کر گئے جنھوں نے مقامی عرب سربراہوں کی جانب سے درخواست پر دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو اپنے خاندانوں کے ساتھ رقہ سے جانے کی اجازت دی۔

اس معاہدے کی بدولت شہر تباہ ہونے سے بچ گیا اور موصل کے مقابلے میں فوجی اور عام شہریوں کی اموات بہت کم ہوئیں۔ شدت پسندوں کے جانے کے ایک دن بعد عام شہری گھروں سے باہر نکلے تو انھوں نے زندہ بچ جانے پر شکر ادا کیا کیوں کہ ان کو خوف تھا کہ شہر میں ہونے والی لڑائی میں ان کی تباہی ہو گی۔

تاہم غزہ کا جغرافیہ دیکھتے ہوئے ایسا کوئی معاہدہ ممکن نظر نہیں آتا۔ رقہ شام میں ایک دور دراز مقام پر واقع تھا اور دولت اسلامیہ کے جنگجو قریبی علاقوں کی طرف جا سکتے تھے۔ غزہ کی پٹی کافی چھوٹی ہے اور حماس کے پاس کہیں اور جانے کی جگہ نہیں ہو گی۔

فارس
،تصویر کا کیپشن

فارس کی موصل کی لڑائی کے دوران لی جانے والی تصویر

جلاوطنی

1982 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو جب اسرائیلی فوج نے لبنان میں گھیرے میں لے لیا تو وہ بیروت چھوڑ کر جانے پر رضامند ہو گئے تھے اور مختلف ممالک چلے گئے۔

پی ایل او کے سربراہ تیونس چلے گئے جبکہ دیگر اراکین شمالی افریقہ اور مشر وسطی کے دیگر ممالک منتقل ہوئے۔

ایسا معاہدہ غزہ میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روک سکتا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ اسرائیل کی حکومت حماس کو تباہ کرنے کا اعلان کر چکی ہے اور حماس کی لیڈرشپ کو غزہ چھوڑنے کی اجازت دیکر اسے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم کسی اور راستے کی غیر موجودگی میں شمالی غزہ ایک خونیں میدان جنگ بن سکتا ہے جس میں ہزاروں عام شہری نقصان اٹھائیں گے۔

BBCUrdu.com بشکریہ