- مصنف, میرلن ٹامس اور جیک ہارٹن
- عہدہ, بی بی سی ویریفائی
- ایک گھنٹہ قبل
غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔اس لڑائی میں شہری ہلاکتوں کی وجہ سے جہاں اسرائیل کو عالمی تشویش کا سامنا ہے وہیں اس حوالے سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ دکھائے کہ اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں۔بی بی سی ویریفائی نے اس سلسلے میں حماس کے جنگجوؤں کی ہلاکتوں کے بارے میں دعوؤں کا جائزہ لیا ہے۔اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں 1200 افراد کی ہلاکت کے جواب میں اب تک حماس کے 10 ہزار جنگجو فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔اسرائیلی فوج نے مسلسل اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور مُصر ہے کہ وہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھتے ہوئے صرف حماس کے جنگجوؤں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔حماس نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک خبر میں حماس کے اہلکار کے حوالے سے چھ ہزار جنگجوؤں کی ہلاکت کی بات کی لیکن تنظیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تردید کی۔غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادوشمار غزہ کی وزارت صحت جاری کرتی ہے جو حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کہ مطابق یہ اعدادوشمار قابل اعتماد ہیں لیکن یہ شہری اور جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ تاہم اس ڈیٹا کے مطابق جنگ کی ابتدا سے اب تک مارے جانے والے افراد میں 70 فیصد خواتین اور بچے تھے۔بی بی سی ویریفائی نے متعدد بار اسرائیلی فوج سے کہا ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ انھوں نے حماس کے جنگجوؤں کی ہلاکت کے اعدادوشمار کیسے جمع کیے لیکن انھوں نے اب تک اس متعلق جواب نہیں دیا۔ہم نے اسرائیلی فوج کے میڈیا کو جاری کیے گئے بیانات اور سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹس میں مارے جانے والے حماس کے جنگجوؤں کے حوالوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔19 فروری کو اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ حماس کے 12 ہزار جنگجوؤں کو مار دیا گیا ہے۔ ہم نے یہ اعداد و شمار اسرائیلی فوج کے سامنے رکھے تو انھوں نے دو مختلف جوابوں میں پہلے کہا ‘تقریباً 10 ہزار’ اور پھر کہا ’10 ہزار سے زیادہ۔’جنوری کے وسط میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کی دو تہائی ریجمنٹس کو ‘تباہ’ کر دیا ہے لیکن انھوں نے مرنے والے جنگجوؤں کی تعداد نہیں بتائی تھی۔ جنگ سے پہلے اسرائیلی فوج کے تخمینے کے مطابق غزہ میں حماس کے 30 ہزار جنگجو تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- اسرائیل کے عالمی دباؤ کے شکوے کے بیچ غزہ میں جنگ بندی کی امید، یہ معاہدہ کیسا ہو سکتا ہے؟6 گھنٹے قبل
- خاندان کے 103 افراد کھونے والے فلسطینی نوجوان: ’میری بیوی جانتی تھی کہ وہ مر جائے گی۔۔۔ یہ ہماری آخری فون کال تھی‘28 فروری 2024
- اسرائیل اور حماس: غزہ میں جنگ نے خطے میں تشدد کو کیسے ہوا دی ہے؟1 فروری 2024
پرتشدد نتازعوں میں متاثرین کے اعدادوشمار جمع کرنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم ایوری کیزوئلٹی کاؤنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریچل ٹیلر کے مطابق یہ اندیشہ ہے کہ ‘شہریوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔’غزہ کی تقریباً نصف آبادی 18 سال سے کم عمر کی ہے اور جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں 43 فیصد بچے بھی شامل ہیں۔ ریچل ٹیلر نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اموات عام آبادی کی آبادیات کے کافی قریب ہے جس سے ‘اندھادھند قتل کی نشاندہی ہوتی ہے۔’انھوں نے کہا ‘اس کے برعکس 2014 میں ‘لڑنے کی عمر’ کے مردوں کا ہلاک ہونے والوں میں تناسب کافی زیادہ تھا لیکن یہ آج بہت کم واضح ہے۔’غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تنازعے کے آغاز سے لے کر اب تک ہر روز اوسطاً 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔بظاپر ایسا لگتا ہے کہ اکتوبر سے دسمبر تک کے جنگ کے شروع کے مراحل کے مقابلے میں اب ہلاکتوں کی رفتار میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کا اصل تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ بہت سے ہسپتال اب کام نہیں کر رہے ہیں اور عام طور پر وہاں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔’یہ اعدادوشمار صرف فوجی کارروائی میں مرنے والے افراد کے ہیں اور ان میں بھوک یا بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں جن کے بارے میں عالمی امدادی ادارے تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔بیت المقدس میں کام کرنے والی حقوقِ انسانی کی تنظیم بیت السلم کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ماضی میں ہونے والی لڑائیوں سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ تنظیم کے ترجمان درور سیدوت کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو ہم نے غزہ یا دیگر علاقوں پر ماضی میں ہونے والی کارروائیوں یا حملوں میں نہیں دیکھے‘۔انھوں نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان کردہ نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جنھوں نے کہا تھا کہ ‘نقصان کے دائرہ کار کے ساتھ صحیح اہداف کو نشانہ بنانے میں توازن کرتے ہوئے، ابھی ہم اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نقصان کس چیز سے ہو گا۔’
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.