غزہ: ’میں نے اُس بیٹے کو کھو دیا جس کی پیدائش کے لیے ہم نے آٹھ سال انتظار کیا تھا‘

غزہ
،تصویر کا کیپشن

عرفات کی اہلیہ اپنے دو بیٹوں کی ہلاکت کے غم میں نڈھال ہیں

  • مصنف, ایثار شلبی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز عربی

پرانے غزہ میں واقع ’الاہلی ہسپتال‘ میں ہونے والے دھماکے کو ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے مگر عرفات ابو عاصی کو آج بھی وہ لمحات یاد ہیں جب انھوں نے اس حملے کے نتیجے میں اپنے دو بیٹوں، ایک بھائی اور اپنی بہن کے دو بیٹوں کو کھویا۔

عرفات روتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’اُس رات میرے خاندان کے افراد کی ایک بڑی تعداد ہسپتال کے اندر پناہ لینے کے لیے گئی تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ غزہ کے جس محلے میں ہم رہتے ہیں اس پر کسی بھی وقت اسرائیل کی جانب سے بمباری کی جا سکتی ہے۔ ہم نے سوچا ایسی صورتحال میں ہسپتال سب سے محفوظ جگہ ہو گی۔‘

یاد رہے کہ الاہلی ہسپتال انجلیکن چرچ کی مالی معاونت سے چلتا ہے اور ہسپتال انتظامیہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہسپتال غزہ میں کسی بھی سیاسی دھڑے کے اثر و رسوخ سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ انھی وجوہات کی بنا پر عرفات کے خاندان کو اس بات کا ذرا سا شک بھی نہ تھا کہ اس ہسپتال کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

اس دھماکے میں ہلاک ہونے والے عرفات کے بیٹوں احمد اور مازن کی عمریں بالترتیب 13 اور 17 سال تھیں۔ اپنے بیٹوں کو کھونے کی تلخی کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’میری شادی کے آٹھ سال بعد آئی وی ایف علاج کی مدد سے ہمارا بڑا بیٹا مازن پیدا ہوا تھا، جس کی عمر 17 سال تھی۔ اور مازن کی پیدائش کے چار سال بعد احمد کی پیدائش ممکن ہوئی۔‘

ہسپتال پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں اپنے خاندان کے پانچ انتہائی قریبی افراد کی ہلاکت کی خبر موصول ہونے کے بعد عرفات اُن کی ’مسخ شدہ لاشیں‘ دیکھنے نہیں گئے اور اپنی بہن کے شوہر سے درخواست کی کہ وہ ان کے دونوں بیٹوں، چھوٹے بھائی اور دو بھتیجوں کی تدفین کا بندوبست کریں۔

عرفات کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو مارے جانے کے بعد نہیں دیکھا اور نہ ہی میری بیوی نے انھیں دیکھا۔۔۔ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ذہن میں اُن کی آخری تصویر دو کٹی پھٹی لاشوں کی صورت میں بنے۔‘

ہسپتال میں ہونے والے اس دھماکے میں فلسطینی حکام کے مطابق 500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ عرفات اپنی اہلیہ اور سب سے چھوٹے بیٹے، نو سالہ فاراج، کے ساتھ اس وقت ایک ہمسائے کے گھر پر تھے۔

سینٹ جارج کالج یروشلم سے رچرڈ سیول نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ہسپتال میں دھماکہ ہوا اس وقت 600 مریض اور عملہ عمارت کے اندر جبکہ ایک ہزار لوگ دالان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔

اسرائیل
،تصویر کا کیپشن

عرفات اپنے بیٹوں کے بچپن کی تصاویر دیکھتے ہوئے

انھوں نے بتایا کہ ایک وقت میں ہسپتال میں چھ ہزار افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔

الاہلی ہسپتال میں دھماکے کے بعد کی تصاویر میں دیکھا گیا کہ زخمی افراد کو اندھیرے میں سٹریچرز پر باہر نکالا جا رہا تھا جبکہ باہر تباہ شدہ گاڑیاں اور لاشیں موجود تھیں۔

فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ اسرائیلی فضائی حملے کی وجہ سے ہوا جبکہ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ دھماکہ فلسطین اسلامی جہاد نامی تنظیم کی جانب سے داغے گئے راکٹ کی وجہ سے ہوا۔ فلسطین اسلامی جہاد اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

الاہلی ہسپتال کمپلیکس

،تصویر کا ذریعہREFAT ISMAIL DUGHAICH

،تصویر کا کیپشن

دھماکے سے پہلے الاہلی ہسپتال کمپلیکس

الاہلی ہسپتال تین اطراف سے گنجان آباد علاقوں سے گھرا ہوا ہے جن میں زیتون، ال دراج اور شجاعیہ شامل ہیں۔

عرفات کہتے ہیں کہ 17 اکتوبر کو ان تینوں علاقوں کے مکینوں کو خبردار کیا گیا کہ بمباری ہونے والی ہے اسی لیے ہزاروں افراد ہسپتال میں پناہ لینے پہنچ گئے۔

غزہ کی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر اشرف نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ متعدد خاندانوں کے ایک سے زیادہ افراد اس دھماکے میں ہلاک ہوئے۔ عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک خاندان کے 31 افراد اس دھماکے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

’مجھے جلد فیصلہ کرنا تھا کہ کون زندہ بچ سکتا ہے‘

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہDR FADEL NAIM

،تصویر کا کیپشن

آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر فضل نعیم (دائیں) دھماکے کی رات ہسپتال میں کام کر رہے تھے

دھماکہ ہونے سے چند ہی منٹ پہلے تک ہسپتال کے آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر فضل نعیم آپریشن کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اچانک ہمیں ایک دھماکہ سنائی دیا اور آپریشن تھیٹر کی چھت کے ٹکڑے ہمارے سروں پر گرنا شروع ہو گئے۔‘

ان گرتے ٹکڑوں کے باعث ڈاکٹر فضل کے سر پر بھی ہلکی چوٹ آئی۔

دھماکے کے فوری بعد ڈاکٹر فضل باہر بھاگے تو انھوں نے دیکھا ’ہر طرف لاشیں، جسمانی اعضا تھے، زخمی لوگ مدد کے لیے چِلا رہے تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے بہت جلدی فیصلہ کرنا تھا کہ کون زندہ رہ سکتا ہے اور کس کی مدد کرنے کا اب فائدہ نہیں ہو گا۔‘

ماضی میں غزہ میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے والے ڈاکٹر نے کہا کہ دھماکے میں لوگوں کو نہایت گہرے زخم آئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’دھماکے سے دو دن پہلے 15 اکتوبر کو ہسپتال کو اسرائیلی فوج کی جانب سے فون آیا تھا کہ اب تک تنبیہ کے باوجود ہسپتال خالی کیوں نہیں کیا گیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

پانچ سال سے کم عمر بچے

ڈاکٹر عدنان الشفا ہسپتال میں آرتھوپیڈک سرجن ہیں جو الاہلی ہسپتال دھماکے میں زخمی ہونے والوں کا علاج کر رہے ہیں۔

اسرائیل

،تصویر کا ذریعہDR ADNAN AL BURSH

،تصویر کا کیپشن

کنسلٹنٹ آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر عدنان ہسپتال دھماکے میں زخمی ہونے والوں کا علاج کر رہے ہیں

وہ بتاتے ہیں کہ کئی زخمی افراد کی حالت تشویشناک تھی اور ان کے جسم پر تھرڈ ڈگری (تیسرے درجے کے جلنے کے نشان) تھے جنھیں چار مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کی توجہ کی ضرورت تھی۔

انھوں نے بتایا کہ الشفا ہسپتال میں 700 بستر ہیں اور دھماکے کے بعد دو ہزار سے زیادہ زخمیوں کے لیے جگہ نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ بہت سے زخمی ہسپتال پہنچنے ہی مر چکے تھے۔ ان کے مطابق زخمیوں میں 60 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچے تھے۔

ڈاکٹر عدنان بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دھماکے میں غیر معمولیت نوعیت کے زخم لگے جو ماضی کے مقابلے میں زیادہ جان لیوا تھے۔

BBCUrdu.com بشکریہ