اسرائیل فلسطین تنازعے میں مارے جانے والے بچے: ’میں نے کہا تھا جب تک تم میرے ساتھ ہو محفوظ ہو، میں نے جھوٹ بولا تھا‘
- جیک ہنٹر
- بی بی سی نیوز
اب تک ہونے والے حملوں اور جوابی حملوں میں غزہ میں تقریباً 61 اور اسرائیل میں دو بچے ہلاک ہو چکے ہیں
اسرائیل فلسطین تنازع کے دوران حالیہ اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں ہلاک ہونے والے 227 فلسطینیوں میں سے کم از کم 63 بچے ہیں جبکہ اسرائیل کے طبی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے راکٹ حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 10 افراد میں سے دو بچے شامل ہیں۔
غزہ میں مارے جانے والے چند بچوں کی کہانیاں۔
الکوالک خاندان کے پانچ سے 17 سال کے بچے
اتوار کے روز نو سالہ یارا (بائیں) اور پانچ سالہ رولا (دائیں) خاندان کے کئی افراد کے ہمراہ ہلاک ہوگئیں
جب اتوار کی صبح وسطیٰ غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے کے دوران الوہدہ گلی نامی علاقے کو نشانہ بنایا تو یہاں بسنے والے الکوالک خاندان کے کم از کم 13 افراد اپنے ہی گھر کے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے۔
ہلاک ہونے والوں میں بہت سے بچے تھے، جن میں سب سے چھوٹے بچے کی عمر فقط چھ ماہ تھی۔
اس خاندان کی زندہ بچ جانے والی ایک خاتون ثنا الکوالک نے ’فلسطین آن لائن‘ کو بتایا ’ہم نے دھوئیں کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔‘
’میں اپنے پاس اپنے بیٹے کو نہیں دیکھ سکتی تھی، میں نے اسے گلے لگا رکھا تھا لیکن مجھے کچھ بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے اس علاقے پر کی جانے والی بمباری کو ’غیر معمولی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فورسز کا عام شہریوں کو ہلاک کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ ایک ترجمان نے بتایا کہ فضائی حملوں کے نتیجے میں ایک سرنگ گر گئی تھی اور مکانات بھی اس کے ساتھ ہی گر گئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں دو بہینں نو سالہ یارا اور پانچ سالہ رولا بھی شامل ہیں۔
ان کی ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’دونوں بہنیں انتہائی مہذب لڑکیاں تھیں جو ہمیشہ اپنا گھر کا کام وقت پر کرتی تھیں۔‘
آن لائن گردش کرنے والی ایک تصویر میں 10 سالہ عزیز الکوالک کو دکھایا گیا ہے، جو اپنے کنبے کے واحد زندہ بچ جانے والے فرد ہیں جو اپنی والدہ کی لاش کے پاس بیٹھے ہیں۔
پانچ سالہ ایدو ایوگل
حماس کے راکٹ حملے میں ہلاک ہونے والے پانچ سالہ ایدو ایوگل
دوسری جانب حماس کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں اسرائیل میں ہلاک ہونے والے بچوں میں سب سے کم عمر ایدو ایوگل ہیں، جو گذشتہ بدھ کے روز جنوبی قصبے سدرت میں ایک حملے میں ہلاک ہوئے۔
وہ ایک قلعہ بند کمرے میں مارے گئے تھے۔ اسرائیل نے اسے ایک ’ناقابل یقین‘ واقعہ قرار دیا تھا۔
ٹائمز آف اسرائیل کی خبر کے مطابق بدھ کی شام جب راکٹ چلنے لگے تو سدرت میں اُن کی والدہ ایدو کو پکڑ کر محفوظ کمرے میں لے گئیں۔
تاہم راکٹ کا ایک ٹکڑا کمرے کی کھڑکی کے سامنے لگی حفاظتی دھات کی تہہ کو چیرتا ہوا اندر آن گرا جس سے ایدو، ان کی سات سالہ بہن اور والدہ زخمی ہو گئیں۔ ایدو کئی گھنٹوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
آئی ڈی ایف کے ترجمان ھدائی زلبرمین نے اس واقعے کے بارے میں بتایا کہ ’یہ راکٹ کا ایک ٹکڑا تھا جو ایک بہت ہی خاص زاویہ پر، ایک بہت ہی خاص رفتار اور ایک مخصوص جگہ پر جا لگا۔‘
ایدو کے والد آصف ایویگل نے چینل 13 کو بتایا کہ ’ہم گھر پر تھے اور بچے تھوڑے بور ہو گئے تھے، لہذا میری اہلیہ ان کے ساتھ دو عمارتوں کے فاصلہ پر اپنی بہن کے گھر گئی تھی۔‘
آصف ایویگل نے اپنے بیٹے کے جنازے کے موقع پر کہا ’مجھے افسوس ہے کہ راکٹ کا یہ ٹکڑا تمھاری جگہ مجھے کیوں نہیں لگا۔ کچھ دن پہلے تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ ابا، اگر ہمارے باہر ہوتے ہوئے سائرن بجے تو کیا ہو گا؟’ میں نے کہا تھا کہ جب تک تم میرے ساتھ ہو تم محفوظ ہو۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔‘
کچھ مہینے پہلے آصف ایویگل اور ان کی اہلیہ بات کر رہے تھے کے ’ایدو ایک ہونہار بچہ ہے، گویا وہ ایک پانچ سالہ بچے کے جسم میں 50 سالہ شخص ہے۔‘ وہ اکثر اپنے والد سے گزارش کرتا تھا کہ وہ کمپیوٹر چھوڑ دیں اور اس کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں۔ وہ کہتا ’بہت ہو گیا سکرین ٹائم، اب میرے ساتھ وقت گزاریں۔‘
ایدو کی والدہ اب بھی ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
16 سالہ نادین اعواد
عرب اسرائیلی سکول کی 16 سالہ طالبہ نادین اعواد گذشتہ بدھ کی صبح اپنے 52 سالہ والد کے ساتھ تھیں جب ایک راکٹ ان کی کار اور گھر سے ٹکرایا جس سے وہ دونوں ہلاک ہو گئے۔ طبی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ جو کار میں سوار تھیں شدید زخمی ہوئیں۔
نادین کے کزن احمد اسماعیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے تل ابیب کے قریب لود شہر میں اپنے گھر کے اندر سے راکٹ ٹکرانے کی آواز سنی، اس علاقے میں عرب اور یہودی اسرائیلی ایک ساتھ رہتے ہیں۔
انھوں نے پبلک براڈکاسٹر کان کو بتایا کہ ’یہ اتنی جلدی ہوا۔ یہاں تک کہ اگر ہم کہیں بھاگنا چاہتے تو بھی ہمارے پاس محفوظ موقع نہیں ہوتا۔‘
انھی کے جاننے والوں کے مطابق ہائی سکول کے اپنے پہلے سال تعلیم حاصل کرنے والی نادین ایک ‘بہت ہی خاص لڑکی’ تھیں جنھوں نے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رکھا تھا۔
ان کے سکول کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ ان کا ’دنیا کو تبدیل کرنے کا خواب تھا۔‘
ٹائم آف اسرائیل کی خبر کے مطابق شیریں ناتور حفی نے مقامی ریڈیو کو بتایا کہ ‘وہ ایک خاص اور ایسی باصلاحیت لڑکی تھی، جو دنیا کو فتح کرنا چاہتی تھی۔‘
محترمہ حفی نے بتایا کہ نادین اس علاقے کے یہودی سکولوں کے ساتھ سائنس سے متعلق متعدد سماجی منصوبوں میں شامل رہی تھیں اور ان کا بائیو میڈیکل سٹڈیز پروگرام میں حصہ لینے کا ارادہ بھی تھا۔
الحدیدی خاندان کے چھ سے 13 برس کے بچے
ننھا عمر اس کے خاندان میں واحد فرد تھا جو اس حملے میں زندہ رہا جس نے اس کی ماں اور بہن بھائیوں کو ہلاک کیا
جمعہ کے روز محمد الحدیدی کے چار بچے 13 سالہ صہیب، 11 سالہ یحییٰ، آٹھ سالہ عبدالرحمان اور چھ سالہ اسامہ اپنے بہترین کپڑے پہنے عید منانے کے لیے غزہ شہر کے باہر واقع شٹی پناہ گزین کیمپ میں اپنے کزنز سے ملنے گئے تھے۔
ان کے 37 سالہ والد نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’بچوں نے عید کے کپڑے پہنے، کھلونے لیے اور عید منانے کے لیے اپنے چچا کے گھر روانہ ہو گئے۔ انھوں نے رات وہیں گزارنے کی درخواست کی اور میں نے اجازت دے دی۔‘
اگلے دن جس عمارت میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے اس پر بمباری ہو گئی۔ اس حملے میں صرف ان کے بھائی کا پانچ ماہ کا بچہ عمر بچ گیا جسے ملبے سے نکالا گیا جہاں وہ اپنی مردہ ماں کے پاس تھا۔
محمد اپنے بچوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ’وہ اپنے گھروں میں محفوظ تھے، ان کے پاس ہتھیار نہیں تھے، انھوں نے راکٹ فائر نہیں کیے تھے۔ وہ اس کے مستحق نہیں تھے، ہم عام شہری ہیں۔‘
ملبے میں ان بچوں کے کھلونے، منوپلی گیم کا بورڈ اور باورچی خانے کے کاؤنٹر پر پڑی کھانے کی پلیٹیں ملی تھیں۔
’جب میرے بچے سو گئے تو وہ امید کر رہے تھے کہ جب وہ بیدار ہوں گے تو یہ سب ختم ہو جائے گا۔ لیکن وہ اب چلے گئے ہیں۔ میرے پاس صرف ان کی یاد ہے اور میرے گھر میں ان کی خوشبو ہے۔‘
14 سالہ ابراہیم المصری
اطلاعات کے مطابق ابراہیم المصری غزہ کے ایک شمالی محلے میں گذشتہ ہفتے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ گھر کے اگلے صحن میں کھیل رہے تھے جب فضائی حملہ ہوا۔ ابراہیم اور ان کے بھائی مروان اور متعدد دیگر رشتہ دار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
ان کے والد یوسف المصری نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا کہ ’رمضان المبارک میں وہ ہر روز افطاری سے پہلے اس وقت گلی میں کھیلتے تھے۔ ہم نے اسے آتے نہیں دیکھا، ہم نے صرف دو بڑے دھماکے سنے ہیں۔۔۔ ہر کوئی گلی میں دوڑ رہا تھا، بچوں کا خون بہہ رہا تھا، مائیں رو رہی تھیں اور ہر طرف خون ہی خون تھا۔‘
ان نے بھائی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا ’ہم ہنس رہے تھے اور لطف اندوز ہو رہے تھے جب اچانک انھوں نے ہمارے اوپر بمباری شروع کی تو ہمارے آس پاس کی ہر چیز کو آگ لگا دی۔ میں نے اپنے کزنوں کو جلتے اور ٹکڑے ٹکڑے ہوتے دیکھا۔‘
12 سالہ حمزہ نصر
اطلاعات کے مطابق حمزہ نصر گذشتہ بدھ کی شام کچھ سبزیاں لینے غزہ میں اپنے گھر روانہ ہوئے تھے تاکہ ان کی والدہ رمضان کے افطار کے لیے کھانا تیار کر سکیں۔ لیکن وہ کبھی گھر نہیں لوٹ سکے۔
الجزیرہ کے مطابق ابو الکاس قبرستان کے قریب اسرائیلی حملے میں وہ ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کے والد نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’حمزہ ایک اچھا بچہ اور ایک بہترین طالب علم تھا۔‘
13 سالہ طلہ ایمن ابو العوف
طلہ ایمن ابو العوف اپنے 17 سالہ بھائی کے ساتھ ہلاک ہوگئی
وہی فضائی حملہ جس نے الکوالک کے گھر کو نشانہ بنایا اسی میں ان کی 13 سالہ ہمسائی طلہ ایمن ابو العوف اور اس کے 17 سالہ بھائی توفیق کی جان بھی لی۔
اس حملے میں ان کے والد ڈاکٹر ایمن ابو العوف بھی مارے گئے تھے۔ وہ غزہ سٹی کے شفا ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن کے سربراہ تھے، جہاں وہ کورونا وائرس رسپانس کے انچارج تھے۔
ان کے خاندان کے دوستوں نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے سے پہلے کئی دن سے ڈاکٹر ابو العوف ہسپتال میں زیادہ سے زیادہ گھنٹے کام کر رہے تھے۔
طلہ کی اساتذہ جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں نے بتایا کہ وہ ساتویں جماعت کی ایک ‘بہترین طالب علم’ تھیں۔
ان کی استانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طلہ کو دینی کلاس میں دلچسپی تھی اور وہ قرآن پڑھنا اور حفظ کرنا پسند کرتی تھی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ ہمیشہ امتحانات کے لیے تیار رہتی تھیں۔ وہ بچوں کو صدمے سے نمٹنے میں مدد کے لیے این آر سی کے پروگرام میں بھی حصہ لے رہی تھیں۔
مہاجرین کونسل کے ایریا فیلڈ منیجر، حذیفہ یزجی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انھیں پہلے ہی بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے یہ پاگل پن رک جانا چاہیے۔۔۔ ان بچوں کو مستقبل دینے کے لیے تشدد بند ہونا چاہیے۔‘
اس مضمون کے لیے بی بی سی کے الیگزینڈرا فوچو، اینگی غنم، احمد نور، طلہ ہالوا، ڈانا ڈولا اور جؤنا صبا نے اضافی رپورٹنگ کی ہے۔
Comments are closed.