غزہ میں ’غلطی سے ہلاک‘ کیے جانے والے اسرائیلی یرغمالی سفید کپڑا تھامے، مدد کے لیے پُکار رہے تھے: اسرائیلی فوج
اسرائیلی فوج کا غزہ میں یرغمال اپنے ہی تین شہریوں کو ’غلطی سے قتل‘ کرنے کا اعتراف، تل ابیب میں مظاہرے
،تصویر کا ذریعہHOSTAGE AND MISSING FAMILIES FORUM
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غلطی سے غزہ میں حماس کی طرف سے یرغمال بنائے جانے والے اپنے تین شہریوں کو قتل کر دیا ہے۔ ان افراد کو خطرہ قرار دیا گیا تھا جو کہ ’حقائق کے منافی تھا۔‘
ہلاک ہونے والوں یرغمالیوں میں 28 برس کے یوتم حمیم، 22 برس کے سمیر تلاکا اور 26 برس کے ایلن شمریز شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج نے تین شہریوں کے اس قتل پر پچھتاوے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان تینوں افراد کو فوجیوں نے غزہ کے شمال میں شجائیہ کے مقام پر نشانہ بنایا۔
واضح رہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے کے بعد حماس نے یرغمال بنائے جانے والوں میں سے 100 سے زائد کو غزہ میں ہی رکھا تھا۔
اسرائیلی کی دفاعی افواج نے کہا ہے کہ جمعے کو ہونے والے اس واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور کہا ہے کہ وہ ’اس واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتی ہیں اور مارے جانے والے افراد کے خاندانوں سے دلی تعزیت کرتی ہیں۔‘
فوج نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ ہمارا ہدف لاپتہ شہریوں کو تلاش کرنا اور تمام یرغمال بنائے جانے والوں کو حفاظت سے واپس ان کے گھر بھیجنا ہے۔
سینکڑوں اسرائیلی تل ابیب میں احتجاج کے لیے اکٹھے ہوئے اور انھوں نے شہر میں اسرائیلی دفاعی افواج کے فوجی اڈے کی طرف مارچ کیا اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ باقی یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے معاہدے کو یقینی بنائے۔
اس احتجاج کے شرکا نے ہاتھوں میں موم بتیاں اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر یہ درج تھا کہ ’(انھیں) گھر لے کر آؤ اور یرغمالیوں کا فوری تبادلہ کرو۔‘
مارے جانے والے تین شہریوں کی لاشیں اسرائیل پہنچا دی گئی ہیں جہاں ان کی شناخت کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔
یوتم حمیم کو کبوتز کفار عزہ سے سات اکتوبر کو یرغمال بنایا گیا تھا۔ وہ موسیقار تھے، جنھیں جانوروں سے پیار تھا اور اطالوی کھانے بنانا پسند تھے۔
حماس کے حملے والی صبح انھوں نے اپنے گھر والوں کو فون پر بتایا کہ ان کا گھر جل رہا ہے۔ جب یوتم نے تازہ ہوا کے لیے اپنے گھر کی کھڑکی کھولی تو انھیں حماس نے اغوا کر لیا۔
اپنے بیٹے کی موت سے قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یوتم حمیم کی ماں نے کہا تھا کہ رابطہ منقطع ہونے سے قبل انھوں نے ایک دوسرے سے فون پر پیغامات کا بھی تبادلہ کیا کیونکہ وہ گھر میں ہی چھپے ہوئے تھے۔
ان کے خاندان کو یوتم کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ پہلے ان سے یہ کہا گیا تھا کہ وہ ایسا نہ کریں۔
سمیر تلاکا جو کہ بدو ہیں کو کبوتز نیر ایم کے مقام سے اغوا کیا گیا تھا۔ انھیں موٹر سائیکل کا بڑا شوق تھا، وہ سیاحت کے دلدادہ تھے اور اپنے دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
وہ اسرائیلی قصبے ہرہ میں رہتے تھے جبکہ کبوتز میں مرغیوں کے فارم پر کام کرتے تھے۔ سات اکتوبر کی صبح وہ کام پر ہی تھے۔ حماس کے حملے کے بعد انھوں نے اپنی بہن کو فون کر کے بتایا کہ وہ گولیاں لگنے سے زخمی ہو گئے ہیں۔
ان کے والد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ ان کا اپنے بیٹے سے مقامی وقت کے مطابقن حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے کی صبح سات بجے رابطہ منقطح ہو گیا۔
انھیں غزہ سے لے جانے کی ایک تصویر بھی ٹیلیگرام پر بھی شیئر کی گئی۔
،تصویر کا ذریعہReuters
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ان کی موت کو ایک ’ناقابل برداشت سانحہ‘ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس مشکل شام میں بھی، ہم اپنے زخموں پر مرہم رکھیں گے، سبق سیکھیں گے اور اپنے تمام شہریوں کی بحفاظت گھر واپسی کی بہترین کوشش جاری رکھیں گے۔‘
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ یہ ہلاکتیں ایک ’افسوسناک غلطی‘ تھیں اور یہ کہ امریکہ کے پاس ’اس کارروائی کے بارے میں بالکل واضح معلومات نہیں ہیں۔‘
7 اکتوبر کو جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اس کے بعد یرغمال بنائے جانے والوں میں سے 100 سے زائد یرغمالی غزہ میں قید میں ہیں۔ حماس کے اسرائیل پر ان حملوں میں 1,200 افراد ہلاک اور 240 یرغمال بنائے گئے تھے، جن میں سے کچھ کو ایک مختصر جنگ بندی کے دوران رہا کر دیا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس کے بعد ہونے والی جنگ میں اب تک 18,800 سے زائد افراد ہلاک اور 50 ہزار زخمی ہو چکے ہیں۔
ہین ایویگڈوری، جن کی بیوی اور بیٹی رہائی پانے والوں میں شامل ہیں نے کہا کہ انھوں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ یرغمالیوں کو ’فوجی طریقے سے‘ بچایا جا سکتا ہے۔
انھوں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا ’ایسا کوئی فوجی طریقہ نہیں ہے‘ جس کے ذریعے انھیں بحفاظت واپس لائے۔
ان کے مطابق ’ہر اس شخص جس کا دل اور دماغ ہیں وہ یہی سمجھتا ہے کہ:اسرائیل کو ان یرغمالیوں کو زندہ واپس لانے کے لیے ایک معاہدے کرنے چاہییں، نہ کہ تابوتوں میں۔‘
Comments are closed.