غزہ میں سکول پر اسرائیلی فضائی کارروائی، بچوں سمیت 16 افراد ہلاک: ’بچے کلاس میں قرآن پڑھ رہے تھے جب میزائل حملہ ہوا‘،تصویر کا ذریعہGetty Images16 منٹ قبلفلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام سکول پر اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ درجنوں زخمی ہیں۔ غزہ سول ایمرجنسی سروس کے ترجمان محمود بسال نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مرنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے کیونکہ کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔وسطی غزہ کے علاقے نصیرات پناہ گزین کیمپ میں واقع سکول میں جائے وقوعہ کی ویڈیو میں ملبے اور دھویں سے بھری گلی میں بچوں اور بالغوں کو زخمیوں کی مدد کے لیے چیختے دیکھا اور سنا جا سکتا ہے۔عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا کہ حملے میں سکول کی بالائی منزلوں کو نشانہ بنایا گیا جو ایک مصروف بازار کے قریب واقع ہے۔

بی بی سی کا ماننا ہے کہ تقریباً سات ہزار افراد اس عمارت میں پناہ لیے ہوئے تھے۔جائے وقوع پر موجود ایک خاتون سما ابو امصا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ عمارت کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب کچھ بچے کلاس روم میں قرآن پڑھ رہے تھے اور وہ اسی وقت ہلاک ہو گئے۔‘ان کا کہنا تھا کہ چوتھی مرتبہ بغیر کسی وارننگ کے سکول پر حملہ کیا گیا ہے۔موقع پر موجود ایک اور شخص ایمن التونع نے خبررساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انھوں نے مرنے والوں میں کئی بچوں کی لاشیں دیکھیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نشانہ بنائے گئے علاقے کو دیکھنے کے لیے دوڑتے ہوئے جب یہاں پہنچے تو ہم نے ٹکڑوں میں بچوں کی لاشیں دیکھیں۔ یہاں ایک کھیل کا میدان تھا جہاں جھولے لگے تھے اور ٹھیلے والے مختلف اشیا بیچتے تھے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Imagesحماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق نصیرات پناہ گزین کیمپ میں واقع اس عمارت میں ہزاروں بے گھر افراد پناہ لیے ہوئے تھے۔اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے متعدد جنگجوؤں کو نشانہ بنایا ہے جو الجونی سکول کے علاقے میں سرگرمِ عمل تھے۔ایک مقامی ذریعے کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حملے کا نشانہ ایک کمرہ تھا جو مبینہ طور پر حماس پولیس کے زیرِ استعمال تھا۔فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (انروا) کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ دعوے ’بہت زیادہ سنگین‘ ہیں اور ان کی تحقیقات ہونی چاہیے۔انروا کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے ایجنسی کی آدھے سے زیادہ عمارات کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا ہے جن میں بہت سی پناہ گاہیں تھیں۔ ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس کے نتیجے میں ان عمارتوں میں پناہ لینے والے کم از کم 500 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ سنیچر کے روز اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والوں میں پانچ مقامی صحافی بھی شامل ہیں۔ مبینہ طور پر ان کے خاندان کے افراد کو بھی نشانہ بنایا گیا۔رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 100 سے زیادہ صحافی ہلاک ہو چکے ہیں۔حماس کا کہنا ہے کہ تازہ ترین پانچ ہلاکتوں کے بعد، ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 158 ہو گئی ہے۔یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب مہینوں کی تاخیر کے بعد بلآخر اسرائیل اور حماس کے بیچ معاہدے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ حماس نے ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے اپنی پوزیشن میں ’کافی حد تک لچک دکھائی‘ ہے، جس کے بعد اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ وہ حماس کے ساتھ یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر بات چیت کے لیے اگلے ہفتے مذاکرات کاروں کی ایک ٹیم بھیجے گا۔حماس کے ایک سینئر اہلکار نے سنیچرکے روز خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ گروپ نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے مجوزہ معاہدے کے پہلے مرحلے کے 16 دن بعد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے سکول کی عمارتوں کو نشانہ بنانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس نے ’شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے‘ متعدد اقدامات کیے ہیں جن میں عین اس مقام کی فضائی نگرانی اور اضافی انٹیلیجنس کا استعمال شامل ہے۔آئی ڈی ایف کا دعویٰ ہے کہ حماس کے عسکریت پسند آئی ڈی ایف کے فوجیوں کے خلاف حملے کرنے کے لیے اس مقام کو ’ٹھکانے‘ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔ان کا دعویٰ ہے کہ ’حماس بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور اسرائیل کے خلاف حملوں کے لیے شہری ڈھانچوں اور آبادی کا استحصال کر رہا ہے۔‘حماس نے اس حملے کو ایسے ’بے گھر شہریوں کا قتلِ عام‘ قرار دیا ہے جو اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے۔حماس نے اپنے انگریزی زبان کے ٹیلیگرام چینل پر بتایا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بہت سی خواتین، بچے اور بوڑھے شامل ہیں۔آٹھ ماہ سے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کے بعد سے بے گھر ہونے والے 17 لاکھ افراد سکولوں اور اقوام متحدہ کی دیگر سہولیات کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesانروا کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر جولیٹ ٹوما نے تازہ حملے کے حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمارے پاس ابھی تک مکمل معلومات نہیں ہی تاہم جنگ شروع ہونے کے بعد سے ہماری آدھی سے زیادہ عمارات کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔‘’ان میں سے بہت سے پناہ گاہیں تھیں،اور اس کے نتیجے میں ان سہولیات میں پناہ لینے والے کم از کم 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔‘اسرائیل کے دعوؤں کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اسرائیل نے اس طرح کے دعوے کیے ہیں اور ان کی تحقیقات ہونی چاہییں۔اس سے قبل جون میں نصیرات میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اور سکول پر اسرائیلی حملے میں کم از کم 35 افراد ہلاک ہوئے تھے ۔مقامی صحافیوں نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا کہ اسرائیل کے ایک جنگی طیارے نے سکول کی اوپری منزل پر واقع کلاس رومز پر دو میزائل داغے۔اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے سکول میں ’حماس کے ایک کمپاؤنڈ پر حملہ کیا‘ اور اندر موجود 20 سے 30 جنگجوؤں میں سے زیادہ تر کو ہلاک کر دیا تھا۔انروا کے سربراہ نے جون کے واقعے کو ’خوفناک‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ دعویٰ کہ مسلح گروہ کسی پناہ گاہ کے اندر ہو سکتے ہیں ’حیران کن‘ تھا لیکن اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔،تصویر کا ذریعہReutersیاد رہے 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے میں تقریباً 1200 افراد ہلاک اور 251 دیگر کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لیجایا گیا تھا اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر جنگ جاری رکھی ہوئی ہے اور حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 38098 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔اسرائیل انروا پر حماس کی حمایت کا الزام لگاتا رہا ہے اور اسرائیل کے ععلاوہ برطانیہ، امریکہ اور دیگر ممالک نے اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔انروا ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔اپریل میں اقوام متحدہ کی جانب سے کی گئی ایک تحقیقات کے مطابق اسرائیل اس دعوے کی پشت پناہی کرنے میں ناکام رہا ہے کہ ایجنسی کے زیادہ تر عملے کا تعلق عسکریت پسند گروپوں سے ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ وہ اپنی غیرجانبداری، عملے کی جانچ پڑتال کا نظام اور شفافیت کو بہتر بنا سکتا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}