غزہ میں بی بی سی کے رپورٹر: ’مجھے اپنی زندگی بھی ختم ہوتے نظر آ رہی ہے‘

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, عدنان البرش
  • عہدہ, بی بی سی عربی
  • مقام خان یونس، غزہ

خان یونس کے ناصر ہسپتال کے سامنے جینز اور ہوائی چپل پہنے نوجوان مرد ایسے قطار میں کھڑے تھے جیسے وہ جنازے کو جاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں۔

یہ ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر رات کے وقت کے مناظر ہیں۔ طبی عملہ اپنا مخصوص لباس پہنے مزید زخمیوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اونچی آوازیں آنے لگتی ہیں اور مردوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے۔

عوامی امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر تباہ ہونے والی ہے۔ لوگ خوفزدہ ہیں اور تھک چکے ہیں۔

ایک گاڑی اونچا ہارن اور جلتی بجھتی لائٹس کے ساتھ رکتی ہے۔ ایک جوان شخص کو اس سے نکالا جاتا ہے اور ایک سٹریچر پر رکھ کر جلدی سے اندر لے کر جایا جاتا ہے۔

پھر دھول میں لپٹی ایک اور گاڑی آتی ہے اور ایک چار یا پانچ سال کے بچے کی مدد کر کے اسے اس گاڑی سے نکالا جاتا ہے۔ وہ چل سکتا ہے۔

جمعے سے اسرائیل نے غزہ کے جنوب میں شدید بمباری کا آغاز کیا جس کے بعد غزہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر خان یونس کے ہسپتالوں میں زخمیوں لوگوں کی بڑی تعداد آ رہی ہے جو اس کی سکت سے زیادہ ہے۔

اسرائیلی ٹینک اور فوجی بھی اب شہر میں داخل ہو چکے ہیں اور حماس کے ساتھ عارضی جنگ بندی کے ختم ہونے کے بعد زمینی کارووایوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کے مطابق جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے کم از کم 1200 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں اور اس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 16 ہزار سے تجواز کر چکی ہے۔

خان یونس میں مردوں کی ایک قطار زخمی اٹھائے گاڑی کے سامنے کھڑے ہیں
،تصویر کا کیپشن

خان یونس میں مردوں کی ایک قطار زخمی اٹھائے گاڑی کے سامنے کھڑے ہیں

بی بی سی عربی کے رپورٹر عدنان البرش خان یونس میں ناصر ہسپتال کے باہر سے رپورٹنگ کرتے ہوئے
،تصویر کا کیپشن

بی بی سی عربی کے رپورٹر عدنان البرش خان یونس میں ناصر ہسپتال کے باہر سے رپورٹنگ کرتے ہوئے

جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج نے عام شہریوں کو شمالی غزہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ غزہ کے 23 لاکھ رہائشیوں کی بڑی تعداد نے اپنی جانیں بچانے کے لیے جنوب کا رخ کیا تھا۔

لیکن خان یونس تک لڑائی کے پہنچنے کے بعد ایسی جگہیں کم رہ گئی ہیں جہاں وہ بھاگ سکیں۔

شہر کے یورپین ہسپتال کے میدان اور راہداریاں ہزاروں بے گھر ہونے والے افراد سے بھری ہوئی ہیں۔

دھماکوں کی آوازوں کے درمیان ایک بچے نے کہا ’جب ہم کھیل رہے ہوں اور بمباری شروع ہو جائے تو ہم فوراً دیواروں کے ساتھ خیموں میں جا کر سو جانے کا بہانا کرتے ہیں۔‘

’ہمیں ڈر لگتا ہے۔ ہمارے اوپر گھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ کر گرتے ہیں۔‘

غزہ کا نقشہ

ہسپتال میں ایک خاتون نے بتایا کہ وہ خان یونس کے مشرقی علاقے الفاخاری کی جانب گئیں جب انھیں فون کالوں کے ذریعے بتایا گیا کہ وہ جگہ ’سیف زون‘ یعنی محفوظ مقام ہے۔ لیکن اب وہ کہتی ہیں اس علاقے میں بہت بمباری ہو رہی ہے اور صورتحال ’بہت بری‘ ہے۔

’مجھے ہمارے لیے کوئی علاقہ محفوظ نظر نہیں آتا اور نہ ہی کسی جگہ میں رہا جا سکتا ہے۔‘

75 سال کے بزرگ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’صورتحال کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہاں عورتیں اور بچے ہیں۔ ہم بڑے تو جو کچھ ہو رہا ہے برداشت کر سکتے ہیں۔‘

’ان آوازوں کو سنیے- کوئی کیسے محفوظ مقام میں جانے کے موقعے کے لیے بیٹھ کر انتظار کر سکتا ہے؟ تحفظ کہاں ہے؟ ہم تو محسوس نہیں کر سکتے۔ جہاں بھی ہم جاتے ہیں، جسے وہ محفوظ کہتے ہیں ہمیں وہ نہیں ملتا۔‘

خان یونس مرکز میں سماح الوان دو خالی پانی کی بوتلیں لہراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کے چھے بچے پیاسے ہیں۔ ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

’ہم کتے بلیوں کی طرح بن گئے ہیں۔ شاید کتے اور بلیوں کو پناہ مل جاتی ہے ہمارے پاس کوئی نہیں ہے۔ ہم گلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔‘

غزہ میں بمباری کے بعد ایک تباہ ہوئی عمارت

،تصویر کا ذریعہREUTERS

،تصویر کا کیپشن

اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی بحران ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے

مجھے اپنی زندگی بھی ختم ہوتے نظر آ رہی ہے۔ جنگ کی ابتدا سے میرے اور میرے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس سب کے باوجود یہ پہلی دفعہ ہے جب مجھے سمجھ نہیں آرہی کیا کیا جائے۔

ساری قوت ارادی اور اختیار مجھ سے چھین لیا گیا ہے۔ اپنے گھر والوں کو محفوظ رکھنے اور منصوبے بنانے کی مجھے عادت ہے لیکن اب میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا۔

میرا تعلق شمال سے ہے لیکن میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت جنوب کی طرف روانہ ہوا جب اسرائیلی فوج نے حکم دیا کہ ایسا کریں، انھوں نے کہا جنوب ’محفوظ‘ ہے۔

ابھی میں اکیلا خان یونس میں ہوں اور میرے گھر والے وسطی غزہ میں ہیں۔

ہر کچھ دن بعد میں ان سے ملنے جاتا تھا۔ لیکن اب اسرائیلوں نے وہاں جانے والی ایک روڈ کو بند کر دیا ہے جبکہ دوسری روڈ بہت خطرناک ہے۔

کیا مجھے جنوب میں رفح کی جانب جانا چاہیے، اپنا کام جاری رکھنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کے میرے گھر والے ٹھیک رہیں گے؟

یا مجھے رپورٹنگ چھوڑ کر واپس جانے کی کوشش کرنی چاہیے اور برے سے برا بھی کچھ ہوا تو کم از کم ہم اکٹھے مر جائیں گے؟

میں امید کرتا ہوں کہ کسی کو بھی ایسا کربناک انتخاب نہ کرنا پڑے جس میں انتخاب کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ