تاہم آئی ڈی ایف کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے کہا ہے کہ اسرائیل کا اندازہ ہے کہ اس کارروائی کے دوران 100 سے کم ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔علاقے کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہاں شدید بمباری ہوئی ہے اور ہسپتالوں کا کہنا ہے کہ وہاں زخمیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے، جن میں بچے بھی شامل ہیں اور وہ سب کا علاج کرنے سے قاصر ہیں۔دیگر تصاویر میں لوگوں کو مرنے والوں کا سوگ مناتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
انٹیلیجنس اطلاع پر کارروائی
آئی ڈی ایف کے ترجمان ڈینیئل ہاگری نے کہا ہے کہ آپریشن انٹیلی جنس اطلاع پر کیا گیا تھا اور یرغمالیوں کو النصیرات میں دو الگ الگ عمارتوں سے آزاد کروایا گیا ہے۔انھوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران اسرائیلی فورسز کو بھی حماس کی جانب سے نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کو بچانے کے دوران سپیشل فورسز کا ایک اہلکار زخمی ہوا جو کہ بعد میں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔آئی ڈی ایف کا کہنا ہے کہ رہا کروائے گئے تمام یرغمالیوں کی صحت اچھی ہے اور بعد میں انھیں تل ابیب کے قریب ایک طبی مرکز میں اہل خانہ کے حوالے کیا گیا ہے۔اسرائیلی افواج کی جانب سے اس ’بہادری‘ پر وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے ان کی تعریف کی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم اس وقت تک ہمت نہیں ہاریں گے جب تک اپنا مشن مکمل نہیں کر لیتے اور تمام یرغمالیوں کو وطن واپس نہیں لے آتے۔‘اس بارے میں وزیر دفاع گیلنٹ کا کہنا ہے کہ چار یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کیے گئے آپریشن کے دوران ان کی سپیشل فورسز کے اہلکاروں کو ’شدید فائرنگ کا سامنا‘ کرنا پڑا۔گیلنٹ نے مزید کہا کہ اسرائیل کی دفاعی اسٹیبلشمنٹ سے منسلک رہنے کے 47 برسوں کے دوران انھوں نے ’یہ سب سے جرات مندانہ اور غیر معمولی کارروائی‘ دیکھی ہے۔بی بی سی کے پارٹنز ادارے سی بی ایس نیوز کو دو امریکی حکام نے بتایا کہ اسرائیل کی اس کارروائی کے دوران امریکہ نے بھی انھیں انٹیلی جنس فراہم کی۔تاہم ان حکام کا کہنا تھا کہ امریکی فورسز نے اس آپریشن میں حصہ نہیں لیا۔،تصویر کا ذریعہReutersچینی نژاد اسرائیلی شہری نووا ارگامانی کو نووا فیسٹیول سے اغوا کیا گیا تھا اور سات اکتوبر کے حملوں کی ویڈیو فوٹیج میں مسلح افراد کو اس 26 سالہ لڑکی کو موٹر سائیکل پر لے جاتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا تھا، جس میں وہ چلا رہی ہیں کہ ’مجھے قتل نہ کرو۔‘سنیچر کو ریسکیو آپریشن کی خبر کے فوراً بعد اس خاتون کو اپنے والد کے ساتھ دوبارہ ملتے اور مسکراتے ہوئے بھی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔سنہ 2022 میں اسرائیل منتقل ہونے والے روسی شہری کوزلوف اور زیو دونوں فیسٹیول کے دوران سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہے تھے جب انھیں اغوا کیا گیا تھا۔یرغمالیوں کے اہل خانہ کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ نے اس بازیابی کو ’ایک معجزانہ فتح‘ قرار دیا ہے اور ’بہادری‘ دکھانے پر آئی ڈی ایف کا شکریہ ادا کیا ہے۔تنظیم کا مزید کہنا تھا کہ ’اسرائیلی حکومت کو حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے تمام 120 یرغمالیوں کو واپس لانے کے اپنے عزم کو یاد رکھنا چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہCECELE MANTOVANI/REUTERS
النصیرات میں تباہی
جہاں یرغمالیوں کی بازیابی سے اسرائیل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، وہیں تصاویر اور ویڈیوز میں النصیرات پناہ گزین کیمپ کے آس پاس کے علاقے میں ہلاکتوں، زخمیوں اور تباہی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔بی بی سی ویریفائی کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل نے وسطی غزہ میں متعدد مقامات پر بمباری کی ہے لیکن ان کارروائیوں میں النصیرات کا علاقہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔الاقصیٰ ہسپتال میں بنائی گئی ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ متعدد افراد زخمی حالت میں زمین پر لیٹے ہوئے ہیں، جبکہ دیگر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مزید مریضوں کو کار اور ایمبولینس کے ذریعے عمارت میں لے جایا جا رہا ہے۔حماس کے سرکاری میڈیا آفس کا کہنا ہے کہ گنجان آباد علاقے میں کم از کم 400 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس میں النصیرات پناہ گزین کیمپ اور اس کے آس پاس اسرائیلی افواج کی جانب سے کیے جانے والے قتل عام پر بات کی جا سکے۔یورپی یونین کے نمائندہ برائے خارجہ امورجوزف بوریل نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر کہا ہے کہ ’غزہ میں شہریوں کے ایک اور قتل عام کی اطلاعات خوفناک ہیں۔ ہم اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ خونریزی فوری طور پر ختم ہونی چاہیے۔‘،تصویر کا ذریعہReuters
یرغمالیوں کی رہائی کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم پر دباؤ میں کمی آئے گی؟
یرغمالیوں کی بازیابی ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی کوششیں جاری ہیں۔نتن یاہو پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کسی سمجھوتے پر پہنچیں، تاہم انھیں انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے، جن کا مطالبہ ہے کہ یرغمالیوں کو واپس لانے کا واحد راستہ فوجی کارروائی ہے۔سنیچر کے روز ہونے والا آپریشن اس جنگ میں اسرائیلی فوج کی جانب سے یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے کیا گیا سب سے کامیاب آپریشن ہے۔ یہ آپریشن اسرائیلی وزیراعظم پر بڑھتے ہوئے دباؤ کو بھی کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن، فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں اور جرمن چانسلر اولاف شولز سمیت عالمی رہنماؤں نے یرغمالیوں کی بازیابی کی خبر کا خیر مقدم کیا ہے۔النصیرات میں فوجی کارروائی کے جواب میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ نے کہا ہے کہ اسرائیل ان کی تطیم پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتا۔انھوں نے کہا کہ ان کی تنظیم اس وقت تک جنگ بندی کے معاہدے پر راضی نہیں ہوگی جب تک وہ فلسطینیوں کو تحفظ نہیں فراہم کر دیتے۔سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملوں میں تقریبا 1200 افراد ہلاک اور 251 افراداغوا ہوئے تھے۔فلسطینی علاقے میں اب بھی 116 یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 41 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔نومبر میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت حماس نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران 105 یرغمالیوں اور اسرائیلی جیلوں میں قید 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔سنیچر کے روز حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے کہا تھا کہ اس جنگ کے دوران غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد اب 36,801 ہو گئی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.