غزہ میں اسرائیلی بمباری کے دوران بچی کی پیدائش: ’بیٹی کے رونے کا مطلب تھا کہ ہم سب ابھی زندہ ہیں‘
،تصویر کا ذریعہJUMANA EMAD
25 سالہ جمانہ عماد کا کہنا ہے کہ غزہ میں حاملہ ہونا اور بچہ پیدا کرنا انتہائی مشکل مرحلہ ہے
- مصنف, دالیا حیدر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، عربی
ایک ماہ قبل غزہ کی رہائشی جمانہ عماد اپنی بچی کی پیدائش کے لیے تیار تھیں۔ وہ خوشی خوشی اپنے حمل والے پھولے ہوئے پیٹ کی تصویریں شیئر کر رہی تھیں۔
انھیں پتا تھا کہ ان کے گھر ایک ننھی پری آنے والی ہے۔ ان کے شوہر بھی بہت خوش اور پرجوش تھے۔ ہسپتال کے لیے ان کا بیگ تیار تھا اور ان کی چار سالہ بیٹی طولن اپنی بہن سے ملنے کے لیے بے تاب تھیں۔
پھر اچانک سب کچھ بدل گیا۔
حماس نے 7 اکتوبر کو ایک حملے میں اسرائیل میں 1400 سے زائد افراد کو ہلاک کیا اور 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا۔
پھر اسرائیل نے غزہ پر جوابی فضائی حملے کیے جس میں وزارت صحت کے مطابق اب تک تقریباً آٹھ ہزار افراد مارے گئے ہیں۔
جمانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ڈر گئی تھی۔ میں مسلسل گولہ باری کے درمیان درد زہ میں مبتلا تھی۔‘
اسرائیل نے شمالی غزہ میں سبھی کو اپنا گھر بار چھوڑنے کا حکم صادر کیا تو 25 سالہ فری لانس صحافی جمانہ نے شمال میں اپنا گھر چھوڑ دیا۔ اسرائیلی حملے شروع ہونے کے دو دن بعد وہ غزہ شہر سے نکل کر جنوب کی طرف چلی گئیں۔
خوفزدہ اور نو ماہ کی حاملہ جمانہ عماد نے اپنی بڑی بیٹی کو ایک رشتہ دار کے گھر چھوڑ دیا اور پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کے لیے کپڑے کا صرف ایک ٹکڑا، دودھ کا ایک ڈبہ اور ایک چھوٹا سا تھیلا اپنے ساتھ لیا اور جنوب کی طرف روانہ ہو گئيں۔
،تصویر کا ذریعہJUMANA EMAD
طالیہ کی پیدائش 13 اکتوبر کو اسرائیلی بمباری کے درمیان ایک ہسپتال میں ہوئی
ہسپتال میں ہر طرف چیخیں
انھوں نے ایک آڈیو پیغام میں بتایا کہ ’صورتحال بہت سخت تھی۔‘ ایک دوسرے پیغام میں انھوں نے بتایا کہ ہمیں رات کو نیند نہیں آئی، کافی گولہ باری ہو رہی تھی اور ہمیں دوسری جگہ جانا پڑ رہا تھا۔ مجھ جیسی حاملہ خواتین کو سیر کے لیے نکلنا چاہیے لیکن جنگ کی وجہ سے ہم کھانا خریدنے کے لیے بھی باہر نہیں جا پا رہے تھے۔
جمانہ نے بار بار بجلی منقطع ہونے، انٹرنیٹ کی رکاوٹوں اور پانی کی قلت کے بارے میں بات کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے اس طرح کے مشکل حالات میں بچے کو جنم دینے پر اپنے خوف اور پریشانی کا بھی اظہار کیا۔
جمعہ 13 اکتوبر کو جمانہ کو درد زہ شروع ہوا۔
انھوں نے پہلے غزہ شہر کے الشفا ہسپتال جانے کا ارادہ کیا تھا جو ایک بڑا ہسپتال ہے لیکن انھیں بتایا گیا کہ وہ ہسپتال مریضوں کی وجہ سے بہت زیادہ دباؤ میں ہے۔ اس کی بجائے جمانہ کو غزہ کی پٹی کے وسط میں واقع ایک چھوٹے ہسپتال لے جایا گیا۔
لیکن وہاں پہنچنا بھی مشکل تھا۔ درد زہ کے عالم میں جمانہ کو کسی کو ڈھونڈنے میں بھی پریشانی ہو رہی تھی جو انھیں ہسپتال لے جائے۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹیکسی ڈرائیور خوفزدہ تھے اور ایمبولینس کے پاس وقت نہیں تھا کہ کسی بچے کو جنم دینے کے لیے تیار کسی عورت کو لے جائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہسپتال کے ساتھ والے ایک گھر میں شدید گولہ باری ہوئی، آواز اتنی تیز تھی کہ مجھے لگا کہ گولہ باری ہسپتال پر ہی ہو رہی ہے۔ وہان زخمی لوگ پہنچتے رہے، مجھے ہر طرف سے چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ میں بھی اپنی پہلی بیٹی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مجھے اس کی فکر تھی کیونکہ وہ مجھ سے بہت دور تھی۔‘
بچی کا نام طالیہ رکھا
جمانہ نے بتایا کہ وہ اس وقت صدمے میں تھیں جب گھنٹوں کے درد کے بعد انھوں نے شام کو ایک بچی کو جنم دیا۔ انھوں نے اس کا نام طالیہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس کے رونے کا مطلب تھا کہ ہم سب ابھی تک زندہ ہیں۔‘
پیدائش کے فوراً بعد جمانہ کے لیے کوئی بستر دستیاب نہیں تھا۔ درد ابھی بھی ہو رہا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ ایسے عالم میں وہ ایک کمرے میں بیٹھی رہیں اور کسی بیڈ کے خالی ہونے کا انتظار کرتی رہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ میں خوش قسمت تھی کہ مجھے ایک بیڈ مل گیا جبکہ دوسری عورتیں بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہسپتال کی راہداری میں صوفوں اور فرش پر لیٹی ہوئی تھیں۔‘
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) کا تخمینہ ہے کہ غزہ میں تقریباً 50,000 حاملہ خواتین ہیں جن میں سے 5,500 کے ہاں اگلے 30 دن میں بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہسپتال بھرے ہوئے ہیں اور ادویات اور بنیادی سامان ختم ہو رہے ہیں۔
بچی کی ولادت کے اگلے دن جمانہ اپنے خاندان میں شامل ہونے کے لیے ہسپتال سے نکل گئی تھیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک اور آزمائش تھی۔
،تصویر کا ذریعہJUMANA EMAD
طالیہ کی بہن طولن چار سال کی ہیں
جنگ اور موت کی زندگی میں امید
انھوں نے بتایا کہ ’بجلی کے مسئلے کی وجہ سے لفٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا‘ چانچہ جمانہ کو ہسپتال کی چوتھی منزل سے پیدائش کے بعد کے درد کے ساتھ اور اپنی نوزائیدہ بچی کو اپنی بانہوں میں لیے باہر نکلنے کے لیے سیڑھیوں سے نیچے اترنا پڑا۔
ہسپتال سے باہر آنے کے بعد انھیں اس جگہ واپس جانے کے لیے جدوجہد کا سامنا تھا جہاں وہ ٹھہری ہوئی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے ایک گھنٹہ ٹیکسی کی تلاش میں گزارا اور کوئی بھی ڈرائیور ہمیں لے جانے کے لیے راضی نہیں تھا۔ آخر میں ہمیں ایک ٹیکسی مل گئی لیکن ٹیکسی والے نے زیادہ کرایہ مانگا اور اس نے ہمیں گھر کے سامنے بھی نہیں چھوڑا۔‘
جمانہ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مشکل حالات میں بچے کی پیدائش کا اپنا نقصان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ذہنی طور پر تھک چکی ہوں۔‘
لیکن وہ مجھے بتاتی ہے کہ بے بی طالیہ صحت مند ہے اور ’دیکھنے میں میری، اپنی بہن اور اپنے والد سب کا مرکب ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر یہ جنگ نہ ہوتی تو میں پیدائش کے ایک ہفتہ بعد ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کرتی۔ میں اپنے خاندان کے تمام افراد کو مدعو کرتی اور اس کا عقیقہ کرتی۔‘
جمانہ کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتی کہ ان کے خاندان کا مستقبل کیا ہے لیکن نومولود کی آمد پر وہ شکر گزار ہیں کہ ’وہ جنگ اور موت کی اس زندگی میں میری امید ہیں۔‘
Comments are closed.