غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا خفیہ اسرائیلی منصوبہ جس پر انتہائی رازداری برتی گئی

IDF

،تصویر کا ذریعہIDF

  • مصنف, عامر سلطان
  • عہدہ, بی بی سی نیوز عربی

غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے فلسطینیوں کی المناک صورت حال کے پش نظر کیا ہمسایہ ملک مصر کا سینائی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرنا درست ہے؟

برطانوی دستاویزات کی روشنی میں اس کا جواب ہے: یقیناً یہ خدشات جائز ہیں۔

میں نے جن دستاویزات کا جائزہ لیا ان سے پتہ چلتا ہے کہ اسرائیل نے 52 سال قبل غزہ کے ہزاروں فلسطینیوں کو شمالی سینائی میں جلاوطن کرنے کا ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا۔

جون 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور شام کی گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ ساتھ غزہ پر اسرائیلی فوج کے قبضے کے بعد، یہ پٹی اسرائیل کے لیے سکیورٹی پریشانی کا باعث بن گئی تھی۔

پناہ گزینوں سے بھرے کیمپ قبضے کے خلاف مزاحمت کا گڑھ بن چکے تھے جہاں سے اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں کے خلاف مزاحمتی کارروائیاں شروع کی گئی تھیں۔

برطانوی اندازوں کے مطابق جب اسرائیل نے غزہ پر قبضہ کیا تو اس پٹی میں 200,000 پناہ گزین تھے، جو فلسطین کے دیگر علاقوں سے تھے، جن کی سرپرستی اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین نے کی تھی اور مزید 150,000 جو کہ غزہ کے مقامی باشندے تھے۔

ان برطانوی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ ’غزہ میں کیمپ کی زندگی گوریلا سرگرمیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے سکیورٹی اور سماجی مسائل کے باعث معاشی طور پر قابل عمل نہیں تھی جبکہ گوریلا کارروائیوں کی وجہ سے خطے میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔‘

منصوبے پر رازداری کیوں برتی گئی؟

سینائی کیمپ

،تصویر کا ذریعہEmpics

برطانوی اندازوں کے مطابق 1968 سے 1971 کے درمیانی عرصے میں غزہ میں 240 عرب (فلسطینی) گوریلا جنگجو ہلاک اور 878 زخمی ہوئے، جب کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کے 43 فوجی ہلاک اور 336 زخمی ہوئے۔

اس کے بعد عرب لیگ نے غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے خلاف اسرائیلی سرگرمیاں روکنے پر اپنے اصرار کا اعلان کیا اور ’غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی حمایت کے لیے مشترکہ اقدامات اپنانے‘ کا فیصلہ کیا۔

برطانیہ کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں بالخصوص غزہ کی صورتحال پر تشویش تھی۔ پارلیمانی سوالات کے جواب میں برطانوی حکومت نے ہاؤس آف کامنز کو مطلع کیا گیا کہ برطانیہ ’خطے میں پیش رفت کا بغور جائزہ لے رہا ہے۔‘

اس وقت کی برطانوی حکومت نے کہا تھا کہ ’ہم اسرائیل کے حالیہ اقدامات پر خصوصی نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہمارے لیے اسرائیلی حکام کی طرف سے کسی بھی ایسے اقدام کو تشویش کی نگاہ سے دیکھنا فطری ہے جس سے خطے میں عرب (فلسطینی) پناہ گزین آبادی کی فلاح و بہبود اور حوصلوں کو نقصان پہنچے۔‘

اس کے علاوہ تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے نے ہزاروں فلسطینیوں کو العریش میں بے گھر کرنے کے اسرائیلی اقدامات کی نگرانی کی، جو مصری جزیرہ نما سینائی کے شمال میں واقع ہے ، اور مصر کے ساتھ غزہ کی سرحد سے تقریباً 54 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

سفارتخانے کی رپورٹوں کے مطابق، اس منصوبے میں فلسطینیوں کی مصر یا دیگر علاقوں میں ’جبری منتقلی‘ شامل تھی، تاکہ قبضے کے خلاف گوریلا کارروائیوں کی شدت اور غزہ کی پٹی میں قابض اتھارٹی کو درپیش سکیورٹی مسائل کو کم کیا جا سکے۔

ستمبر 1971 کے اوائل میں اسرائیلی حکومت نے برطانوی حکام کو بتایا کہ غزہ سے فلسطینیوں کو دوسرے علاقوں خصوصاً مصر کے علاقے العریش میں منتقل کرنے کا خفیہ منصوبہ ہے۔

اس وقت کے اسرائیلی وزیر ٹرانسپورٹ اور مواصلات شمعون پیریز (جو بعد میں اسرائیل کے وزیراعظم بنے) نے تل ابیب میں برطانوی سفارت خانے کے سیاسی مشیر کو مطلع کیا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں زیادہ کارروائیاں اور مغربی کنارے میں کم کارروائیاں کرے۔‘

اس ملاقات کے بارے میں ایک رپورٹ میں سفارت خانے نے کہا کہ پیریز، جو مقبوضہ علاقوں سے نمٹنے کے ذمہ دار تھے، نے تصدیق کی کہ ’(اسرائیلی) حکومت نئی پالیسی کا باضابطہ اعلان نہیں کرے گی، اور نہ ہی وزارتی کمیٹی کی سفارشات شائع کرے گی۔ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے وزرا کی کونسل میں ایک معاہدہ ہوا ہے کہ اب ہمیں غزہ کے مسائل سے زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے دور رس اقدامات کرنے چاہییں۔‘

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ شمعون پیریز کا خیال ہے کہ یہ اقدامات ایک سال کے اندر صورتحال میں تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ انھوں نے یہ کہہ کر نئی پالیسی کو چھپانے کا جواز پیش کیا کہ اس کا اعلان ’صرف اسرائیل کے دشمنوں کو گولہ بارود فراہم کرے گا۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ آیا (نئی پالیسی کے مطابق) غزہ کی پٹی میں امن اور رہائش کی بحالی کے لیے بہت سے لوگوں کو (غزہ کی پٹی سے) منتقل کیا جائے گا، پیریز نے کہا کہ کیمپ کے رہائشیوں میں سے تقریباً ایک تہائی کو پٹی میں یا اس سے باہر دوسرے علاقوں میں آباد کیا جائے گا۔ انھوں نے اسرائیل کے اس عزم کی تصدیق کی کہ ’غزہ کی کُل آبادی کو تقریباً 100,000 افراد تک کم کیا جا سکتا ہے۔‘

فلسطین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

شمعون پیریز نے ’تقریباً 10,000 خاندانوں کو مغربی کنارے اور ایک چھوٹی تعداد میں اسرائیل منتقل کرنے کی امید ظاہر کی۔ لیکن انھوں نے برطانوی حکام کو مطلع کیا کہ ’مغربی کنارے اور اسرائیلی سرزمین پر نقل مکانی میں بہت زیادہ اخراجات جیسے مسائل شامل ہیں۔‘

اسرائیلی وزیر شمعون پیریز نے برطانوی سفارتکار کو مطلع کیا کہ ’درحقیقت متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ اپنی جھونپڑیوں کی جگہ بہتر متبادل رہائش اور معاوضہ ملنے پر مطمئن ہیں اور العریش میں مصریوں کے بنائے ہوئے اعلیٰ معیار کے اپارٹمنٹس کو قبول کر سکتے ہیں، جہاں وہ نیم مستقل رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔‘

دستاویزات کے مطابق برطانوی سفارتکار نے پیریز سے پوچھا کہ کیا العریش کو اب غزہ کی پٹی کی توسیع سمجھا جائے؟

جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’وہاں موجود خالی رہائش گاہوں کو استعمال کرنا ایک مکمل طور پر عملی فیصلہ ہے۔‘

ایک پُرجوش مقامی آبادکاری کا منصوبہ

اسرائیلی وزیر شمعون پیریز کے ایک الگ جائزے میں اسرائیل میں برطانوی سفیر ارنسٹ جان وارڈ بارنس نے اشارہ کیا کہ اسرائیلیوں کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی کے مسائل کے کسی بھی مستقل حل کے لیے ’اس کی موجودہ سرحدوں سے باہر آبادی کے کچھ حصے کی بحالی شامل ہونی چاہیے۔‘

انھوں نے اپنی حکومت کو یقین دلایا کہ نئی پالیسی میں شمالی مصری جزیرہ نما سینائی میں فلسطینیوں کو آباد کرنا شامل ہے، لیکن انھوں نے کہا کہ ’اسرائیلی حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، لیکن اس کے نتائج اسرائیل کے لیے زیادہ اہم ہیں۔‘

اس معاملے پر ایک رپورٹ میں برطانوی دفتر خارجہ میں مشرق وسطیٰ کے شعبے کے سربراہ، ایم ای پائیک نے کہا کہ ’اب پناہ گزین کیمپوں کے سائز کو کم کرنے اور انھیں کھولنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب پناہ گزینوں کی ان کے موجودہ گھروں سے زبردستی منتقلی اور مصری علاقے میں العریش کی جانب ان کا انخلا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اب اس ضمن میں ایک زیادہ پرجوش پروگرام پر عمل کیا جا رہا ہے۔‘

ایک ماہ بعد اسرائیلی فوج نے ایک سرکاری میٹنگ میں متعدد غیر ملکی فوجی اتاشیوں کو غزہ سے فلسطینیوں کی منتقلی کے منصوبے کے بارے میں اضافی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ملاقات کے دوران مقبوضہ علاقوں میں سرگرمیوں کے کوآرڈینیٹر بریگیڈیئر جنرل شلومو گیزیت نے کہا کہ ان کی فوج ’(غزہ میں فلسطینیوں کے گھروں کو) تب تک تباہ نہیں کرے گی جب تک کہ ان کے لیے متبادل رہائش نہ ہو۔ یہ واحد شرط ہے جسے فوجی حکومت قبول کرے گی۔ اس عمل میں وقت کا تعین العریش سمیت دستیاب متبادل گھروں یا رہائش گاہوں کی تعداد پر منحصر ہے۔‘

ملاقات کے بارے میں برطانوی فضائیہ کے اتاشی کی ایک رپورٹ کے مطابق بریگیڈیئر جنرل گزیٹ سے شمالی سینائی کے علاقے کو منتخب کرنے کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے کہا کہ العریش میں رہائش کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ واحد جگہ ہے جہاں خالی مکانات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’العریش میں کوئی نئی تعمیر نہیں ہو گی، کیونکہ دستیاب خالی مکانات پہلے مصری افسران کے تھے۔‘

یہ صورتحال برطانوی نقطہ نظر سے تین اصولوں کے برعکس نظر آتی ہے جن کا اعلان اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موشے دایان نے 1967 کی جنگ کے بعد مقبوضہ علاقوں پر کنٹرول کی ضمانت دیتے ہوئے کیا تھا۔ عام شہری زندگی میں کم سے کم مداخلت، اسرائیل اور باقی عرب دنیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ رابطہ یا تعلقات قائم کرنا۔

غزہ کی صورت حال پر ایک رپورٹ میں برطانوی دفتر خارجہ کے محکمہ مشرق وسطیٰ نے کہا ’مستقبل کے لیے سب سے دلچسپ سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اب غزہ کے معاملے میں، تین اصولوں میں ترمیم کے لیے تیار ہے؟‘

اسرائیل میں برطانوی سفیر کی رائے کے مطابق کہ ’پناہ گزین کیمپ گوریلا سرگرمیوں کے لیے مثالی حالات فراہم کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کھلے تعلقات کی پالیسی پر عمل درآمد مشکل ہو جاتا ہے۔‘

برطانوی سفیر بارنس نے وزیر خارجہ کو ایک جامع رپورٹ میں متنبہ کیا کہ ان کی معلومات کے مطابق اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزین ’اسرائیل سے ملک بدری کے حل کی توقع رکھتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ایجنسی ’اسرائیلی سکیورٹی کے مسئلے کو سمجھتی ہے لیکن وہ مہاجرین کو ان کے گھروں سے جبری منتقلی اور نہ ہی مصر کے علاقے العریش میں عارضی بنیادوں پر آباد کرنے سے اتفاق کرتی ہے۔‘

تاہم سفیر نے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ ’غزہ کے پناہ گزینوں کی مصری سرزمین العریش میں آباد کاری بین الاقوامی رائے عامہ کے تئیں بے حسی کی ایک مثال ہے۔‘

اسرائیل کے خفیہ منصوبے کے بارے میں اپنے جائزے میں برطانیہ کی وزارت خارجہ میں مشرق وسطیٰ ڈیسک کی انتظامیہ نے خبردار کیا کہ ’اس دور رس پالیسی کے لیے اسرائیل کے جو بھی جواز ہوں، ہم مدد نہیں کر سکتے لیکن یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اسرائیل اس اقدام کے بعد عرب دنیا اور دیگر ممالک سے آنے والے ردعمل کی شدت کو کم سمجھ رہا ہے اور یہ عرب لیگ اور اقوام متحدہ اس مسئلہ کے دوسرے حل پیش کریں گے۔‘

تاہم اس کے بعد بھی اسرائیل کی اپنے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی کوششیں نہیں رکی، چاہے اس کی رفتار ہی سست کیوں نہ پڑ گئی ہو۔

برطانوی سفارتخانے نے اگست 1971 کے اواخر میں دفتر خارجہ کو بھیجی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ’کیمپوں میں کلیئرنس آپریشن جاری ہیں، حالانکہ وہ سست رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ العریش اور مقبوضہ علاقوں میں دیگر مقامات پر متبادل رہائش دستیاب نہیں ہے۔‘ انھوں نے تصدیق کی کہ متعدد فلسطینی پناہ گزینوں کو پہلے ہی نصیرات کیمپ سے العریش منتقل کیا جا چکا ہے۔

دسمبر کے آخر تک، لندن نے اسرائیل سے غزہ سے ’بے دخل کیے گئے‘ فلسطینیوں کے بارے میں معلومات طلب کی تھی۔

سینائی آبادیاں

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

ایک اسرائیلی سفارتکار کی مشرق وسطیٰ انتظامیہ کے دورے کے دوران فراہم کردہ معلومات کے مطابق اسرائیلی حکام نے ’1638 خاندانوں میں سے 332 خاندانوں کو العریش بھیج دیا تھا۔‘

’غزہ سے پناہ گزینوں کی اسرائیلی بے دخلی‘ کے عنوان سے ایک کیبل میں انتظامیہ نے کہا کہ ’1,638 خاندانوں (11,512 افراد) کو پہلے ہی غزہ کی پٹی میں اپنے گھروں سے یا تو پٹی کے دوسرے علاقوں یا باہر دیگر مقامات پر بے دخل کیا جا چکا ہے۔‘

صورت حال کے ایک اور عمومی جائزے میں برطانوی سفیر نے غزہ کے مسئلے کے دیگر ممکنہ حل کے بارے میں بات کی، جن میں سے ایک ’یہ امکان ہے کہ غزہ ایک دن اردن سے منسلک ہو جائے گا تاکہ اس ملک کو بحیرۂ روم تک رسائی حاصل ہو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اس خطے کا مشرق وسطیٰ کی مشترکہ مارکیٹ کا حصہ بننے کا امکان‘ ایک اور حل ہے۔

اجتماعی سزائیں اور دہشت گردی

اسی دوران برطانوی وزارت خارجہ میں اس حوالے سے بحث ہوئی کہ اسرائیل کی پالیسی چوتھے جنیوا کنونشن سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہے، جس میں قابض ممالک کی ذمہ داریوں کا تعین کیا گیا ہے۔

معاہدے کے آرٹیکل 39 کے مطابق، انفرادی یا اجتماعی طور پر زبردستی منتقلی ممنوع ہے، اسی طرح مقبوضہ علاقے سے لوگوں کو قابض اتھارٹی کے علاقے یا کسی دوسرے ملک کی سرزمین پر جلاوطن کرنے کا عمل، چاہے وہ قبضے کے تابع ہو یا نہ ہو غیر قانونی ہے چاہے اس کے پیچھے جو بھی مقاصد ہوں۔

وزارت خارجہ کے قانونی مشیر کے جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ غزہ کے کسی دوسرے علاقے میں نہیں بلکہ سینائی میں (غزہ سے تعلق رکھنے والے) پناہ گزینوں کو آباد کرنے پر ’سیاسی اعتراض کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ ’میرے خیال میں قانونی بنیادوں پر اگر اسرائیل سختی سے کہے کہ یہ سارا عمل آبادی کی حفاظت کے لیے کیا گیا ہے تو (دوبارہ آباد کاری کے منصوبے) کو چیلنج کرنا مشکل ہو گا۔‘

تاہم قانونی مشیر نے پھر خبردار کیا کہ چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت ’اسرائیل کے لیے اس شق پر اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کا کوئی جواز نہیں دیکھتے۔‘

انھوں نے نشاندہی کی کہ اسرائیل کے اس استدلال پر کہ وہ پناہ گزینوں کو بروقت ان کے گھروں کو واپس بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے ’جبکہ وہ غزہ میں اسی آپریشن کے دوران ان کے گھروں کو تباہ کر دیتا ہے‘ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو نکالنے کے لیے اسرائیلی کارروائی اجتماعی سزا ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’کسی بھی شخص (قبضے کے تحت) کو کسی ایسے جرم کی سزا نہیں دی جانی چاہیے جس کا اس نے ذاتی طور پر ارتکاب نہ کیا ہو۔ بین الاقوامی معاہدے کے آرٹیکل 33 کے مطابق اجتماعی سزاؤں کے ساتھ ساتھ دھمکی یا دہشت گردی کے تمام اقدامات ممنوع ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ